غنڈہ ریاست کے بدمعاش آباد کار

وسعت اللہ خان

دنیا کی توجہ اس وقت ایران اسرائیل مناقشے اور غزہ کی نسل کشی پر مرکوز ہے مگر اس کی آڑ میں مقبوضہ مغربی کنارے پر ریاستی پشت پناہی سے مسلح صیہونی آبادکار فلسطینیوں کی زمین مسلسل اور تیزی سے کتر رہے ہیں۔ غزہ کا عظیم انسانی المیہ تو اظہر من الشمس ہے، مگر اس بحران کے پردے میں مزید رقبہ ہڑپ کرنے کا زیادہ نقصان مغربی کنارے کے مکینوں کو پہنچ رہا ہے۔

اس ماہ کے شروع میں اسرائیل کے وزیر خزانہ اور بلدیاتی امور کے نگراں بیزلل سموترخ نے اعلان کیا کہ مغربی کنارے کی مزید بیالیس ایکڑ زمین دفاعی مقاصد کے لیے سرکاری تحویل میں لے لی گئی ہے۔ گزشتہ ماہ حکومت نے لگ بھگ دو ہزار ایکڑ زمین سرکاری ملکیت کے قانون کے تحت ہتھیا لی تھی، جب کہ فروری میں مشرقی یروشلم کی حدود میں واقع ساڑھے چھ سو ایکڑ زرعی اراضی سے فلسطینیوں کو بے دخل کر دیا گیا۔

سات اکتوبر کے بعد سے پندرہ دیہاتوں کے لگ بھگ ڈیڑھ ہزار فلسطینی کسان کنبوں کو پشتینی گھروں اور زمینوں سے نکالا جا چکا ہے۔ مسلح یہودی آبادکار فوج کی پشت پناہی سے غصب زمین پر قبضہ پکا کرنے کے لیے اس عرصے میں بیس غیرقانونی راستے تعمیر کر چکے ہیں اور اٹھارہ نگراں چوکیاں بھی بنا لی ہیں تاکہ بے دخل لوگ واپس نہ آ سکیں۔

قابضین نے نئے رقبوں پر رکاوٹیں کھڑی کرنے کے ساتھ ساتھ خاردار تاروں سے حد بندی بھی کر دی ہے۔ درجنوں کسان خاندانوں کی زرعی اراضی ان رکاوٹوں اور راستوں کے سبب کئی حصوں میں تقسیم ہو گئی ہے۔ مسلح آبادکار ان زمینوں اور چراگاہوں پر فلسطینیوں کی ’’غیر قانونی“ نقل و حرکت روکنے کے لیے ہر قسم کے تشدد کا بلا خوف و خطر استعمال کر رہے ہیں۔

سن دو ہزار سے پانچ تک جاری رہنے والے دوسرے مزاحمتی انتفادہ کے دوران بھی فلسطینیوں سے ہزاروں ایکڑ زمین چھین کے ان پر یا تو نئی آبادکاری کر دی گئی یا انہیں پہلے سے قائم یہودی بستیوں کی حدود میں شامل کر لیا گیا۔

بہت سے فلسطینی دیہاتوں کو چہار جانب خاردار باڑھ لگا کے محصور کر دیا جاتا ہے اور پھر ان کے مکینوں کو انہی کی زمینوں پر قائم نئی چیک پوسٹوں پر متعین فوجیوں اور ان کے مددگار آبادکاروں کی اجازت سے ہی ایک سے دوسرے مقام تک جانے کی اجازت ملتی ہے۔

سات اکتوبر سے پہلے کے دس ماہ میں اقوامِ متحدہ کے اہل کاروں نے مغربی کنارے کے فلسطینیوں کے خلاف یہودی آباد کاروں کی ایک ہزار اڑتیس پرتشدد وارداتیں ریکارڈ کیں، یعنی اوسطاً تین واقعات روزانہ۔ سات اکتوبر کے بعد سے نہتے فلسطینیوں پر مسلح یہودی آباد کار تشدد کے واقعات میں تین گنا اضافہ ہو گیا ہے، یعنی روزانہ نو سے بارہ حملے۔

صرف پچھلے چھ ماہ کے دوران مغربی کنارے کے فلسطینیوں اور ان کی املاک پر یہودی آبادکاروں کے ساڑھے سات سو سے زائد حملے ریکارڈ کیے گئے۔ ان میں لگ بھگ بارہ سو فلسطینی زخمی ہوئے۔ جب کہ اسرائیلی فوج اور پولیس نے اس عرصے میں ساڑھے سات ہزار فلسطینیوں کو حراست میں لیا۔

قبضے کا طریقہِ واردات کیا ہے؟ مثلاً بارہ اکتوبر کو جدید ہتھیاروں سے لیس بیسیوں آبادکار فوجی گاڑیوں کی حفاظت میں رام اللہ کے نواح میں قائم ایک گاؤں وادی السیق میں گھس آئے۔ یہاں ایک سو اسی نفوس آباد تھے۔

ایک مقامی کسان ابو بشر کے مطابق ’’انہوں نے ہمارے جانور کھول لیے۔ دروازے اور کھڑکیاں توڑ دیں۔ وہ اپنے ساتھ کھڑی فصلیں کاٹنے والے آلات بھی لائے تھے اور پھر ان کے سرخیل نے اعلان کیا کہ آج سے یہ زمین ہماری ہے۔ زندہ رہنا چاہتے ہو تو جلد از جلد اپنے گھر بار چھوڑ کے کہیں اور دفع ہو جاؤ۔“

جون انیس سو سڑسٹھ سے اب تک مغربی کنارے پر لگ بھگ ایک سو ساٹھ یہودی بستیاں نقشے پر چیچک کے داغوں کی طرح پھیلائی گئی ہیں۔ بنیادی سہولتوں سے محروم فلسطینی دیہاتوں کے سامنے اور آس پاس اگر کوئی سفید دیواروں اور سرخ چھتوں والے گھروں پر مشتمل صنوبر کے درختوں اور خاردار تاروں سے گھری جدید آبادیاں نظر آئیں تو سمجھئے کہ یہ دنیا بھر سے لا کر بسائے جانے والے آباد کاروں کی بستیاں ہیں۔

بستی کے ہر مکان میں اسلحہ موجود ہے جب کہ کسی فلسطینی بچے کی جیب سے پتھر بھی برآمد ہو جائے تو اسے خصوصی سیکیورٹی قوانین کے تحت لامحدود مدت تک نظربند رکھا جا سکتا ہے۔ یہودی بستیوں پر اسرائیل کے سویلین قوانین لاگو ہیں جب کہ فلسطینی آبادی پر کنٹرول کے لیے فوجی قوانین لاگو ہیں۔

انیس سو نوے کی دہائی تک حکومت آبادکاروں کو گھر تعمیر کر کے رعائیتی قیمت پر دیتی تھی مگر اب صرف تعمیراتی پرمٹ جاری کیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس کسی فلسطینی گاؤں میں اگر کوئی مکین اپنے گھر میں ایک منزل کا بھی بلا اجازت اضافہ کر لے یا تھوڑی سی چھت بڑھا لے یا لان کو توسیع دے لے تو اس پر تعمیراتی قوانین کی خلاف ورزی کی پاداش میں بھاری جرمانہ عائد ہو سکتا ہے یا پورا گھر ہی بلڈوزر سے مسمار ہو سکتا ہے۔

آج مغربی کنارے پر ساڑھے سات لاکھ آبادکار بسے ہوئے ہیں۔یعنی اسرائیل کی چوہتر لاکھ آبادی کا لگ بھگ نو فیصد مقبوضہ علاقوں میں غیر قانونی طور پر آباد ہے۔

گزشتہ برس آبادکاروں کے زیرِ قبضہ زمین کا انتظام وزارتِ دفاع سے وزارتِ بلدیات کو منتقل کر دیا گیا۔ اس کا مطلب ہے کہ اب مقبوضہ علاقوں کی یہ بستیاں ملکی قانون کے مطابق باضابطہ طور پر ریاستِ اسرائیل کا حصہ ہیں۔ گویا تقریباً ساٹھ فیصد مغربی کنارہ ان بستیوں کے ذریعے ریاستِ اسرائیل میں غیر اعلانیہ طور پر ضم ہو چکا ہے۔ آبادکار منصوبے کے موجودہ وزیر بیزلل سموترخ خود بھی مغربی کنارے کی ایک غیر قانونی یہودی بستی کے مکین اور ایک مسلح ملیشیا کے لیڈر ہیں۔ ان کا کام ڈرا دھمکا کے مزید زمین ہتھیانا ہے۔ گویا دودھ کی رکھوالی بلی کے ذمے ہے۔

چھ مارچ کو وزیرِ موصوف نے اعلان کیا کہ لگ بھگ ڈھائی لاکھ مزید آبادکاروں کو مغربی کنارے پر بسنے کی اجازت دی جائے گی۔ اور اس سلسلے کی پہلی کڑی کے طور پر ساڑھے تین ہزار نئے گھروں کی تعمیر کا اجازت نامہ جاری کر دیا گیا ہے۔ اگر یہ پالیسی برقرار رہتی ہے تو اگلے دس برس میں اس فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے کوئی زمین نہیں بچے گی جس کا لالی پاپ برسوں سے دیا جا رہا ہے۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close