کاریگروں کا کلچر

ڈاکٹر مبارک علی

ابتدائی تاریخ میں کاریگروں نے تہذیب و تمدن کی تاریخ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ابتدائی دور میں جن کاریگروں نے اہمیت حاصل کی ان میں کمہار، بڑھئی، موچی اور معمار تھے، لیکن جیسے جیسے معاشرہ یا سوسائٹی ترقی کرتی رہی، نئی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے کاریگروں اور ہنرمندوں نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کی مدد سے نئے پیشے تشکیل دیے اور نئی ایجادات کے ذریعے ضرورت کی اشیا بنائیں۔ ان نئے پیشہ وروں میں درزی، جولاہے، اسلحہ ساز، لوہار اور سنار وغیرہ تھے۔

چودہویں صدی کے عہد وسطیٰ میں کاریگروں کے ہنر اور پیشے کے تحفظ کے لیے شہر کی بلدیہ نے ان کی تنظیم بنائی جو گلٹ کہلاتی تھی۔ گلٹ کے اصول اور قوانین ہوتے تھے اور جب تک کوئی فرد گلٹ کا رکن نہ ہو، وہ آزادانہ طور پر کام نہیں کر سکتا تھا۔ کاریگری کے ہر شعبے کی علیحدہ گلٹ ہوتی تھی جو کاریگروں کے کام کی نگرانی کرتی تھی اور یہ جائزہ لیتی تھی کہ ان کی تیار کردہ اشیا معیاری ہوں۔ ایمانداری اور دیانتداری اہم اصول تھے۔

کاریگروں کی ورکشاپوں میں تین اہم شعبے ہوتے تھے۔ یعنی ماسٹر، شاگرد اور پھیری والا۔ ماسٹر کا انتخاب گلٹ کے اعلیٰ عہدیدار اور بلدیہ کے ذمہ دار افراد کرتے تھے۔ جو ماسٹر کے عہدے کا دعویدار ہوتا تھا، وہ اپنی فنی مہارت کے اظہار کے لیے اپنی بنائی ہوئی اشیا کو دکھاتا تھا، جن سے اس کی ہنرمندی کی پختگی ظاہر ہوتی تھی۔

کمیٹی کے انتخاب کے بعد اسے اجازت ہوتی تھی کہ وہ اپنی ورکشاپ قائم کرے۔

ماسٹر اپنی ورکشاپ میں شاگردوں کو تربیت دیتا تھا۔ تربیت پانے والے معاشرے کے نوجوان ہوتے تھے۔ جو پیشہ وارانہ ہںر سیکھ کر اپنا کیریئر بنانا چاہتے تھے۔ ورکشاپ دو حصوں میں تقسیم ہوتی تھی۔ اوپر کے حصوں میں ماسٹر اپنے خاندان کے ساتھ رہتا تھا۔ نچلے حصے میں شاگرد رہتے تھے۔

یہ صبح و شام کام میں مصروف ہوتے تھے۔ ان کا کھانا اور رہائش ماسٹر کے ذمے تھا۔ ہنر سکھانے کے ساتھ ساتھ ماسٹر ان کی اخلاقی تربیت بھی کرتا تھا، یعنی ماسٹر کے وفادار رہیں۔ اس کے احکامات کی تعمیل کریں۔ شراب نوشی سے پرہیز کریں۔ اپنا قیمتی وقت ضائع نہ کریں اور دل لگا کر کام کریں۔ تربیت کی مدت پانچ سے چھ سال ہوتی تھی۔ اس کے بعد وہ پھیری والا بن جاتا تھا۔

پھیری والے کا یہ فرض تھا کہ وہ اپنے شہر میں کاروبار اور صنعت و حرفت کے بارے میں آگاہی حاصل کرے۔ وہ دوسرے شہروں کا بھی دورہ کرتا تھا اور کاروبار کی صورت حال سے واقفیت حاصل کرتا تھا۔ جرنی مین کو ماسٹر بننے کے لیے سخت مقابلے کا سامنا تھا، اس لیے انہوں نے علیحدہ سے اپنی تنظیم بنائی، جس کا مقصد یہ تھا کہ جرنی مین اپنے ہنر کو محفوظ رکھیں۔ اعلیٰ اور معیاری ایجادات کے ذریعے معاشرے میں اپنی عظمت اور وقار کو قائم کریں۔

یہ اپنی تنظیم میں عورتوں کو شامل نہیں کرتے تھے۔ اگر کسی تاجر کی دکان پر انہیں کام کرنا ہو اور وہاں کوئی عورت ہو تو اس جگہ یہ کام کرنے سے انکار کر دیتے تھے۔

کاریگروں کی ورکشاپوں میں نہ تو عورتیں شاگرد ہوتی تھی اور نہ ہی پھیری والے، لیکن یہ خاموشی کے ساتھ پیداواری عمل میں حصہ لیتی تھیں۔ جیسے جولاہوں کے ہاں کپڑے کا دھاگہ بنانے کا کام۔ یہ انتظامی امور میں بھی اس وقت حصہ لیتی تھی، جب ان کے ماسٹر شوہر کی وفات ہو جائے۔ اس صورت میں یہ ورکشاپ کی ذمہ داری سنبھال لیتی تھیں۔

کاریگر جو اشیا بناتے تھے ان کی محدود تعداد ہوتی تھی۔ یا تو یہ افراد کے آرڈر پر مال تیار کرتے تھے یا تاجروں کے آرڈر پر اپنی تیار شدہ اشیا انہیں فروخت کرتے تھے۔ کاریگر کا اپنے ہنر سے دلی لگاؤ ہوتا تھا۔ اسے اپنے ہنر پر فخر تھا اور یہ اس کی شناخت تھی، لیکن وقت کے ساتھ تبدیلیاں آتی رہیں۔ نئی ٹیکنالوجی اور مشینوں نے ان کے ہنر اور فن کو متاثر کیا۔

انقلابی تبدیلی اس وقت آئی جب یورپ میں صنعتی انقلابی فیکٹری سسٹم ہوا۔ صنعت و حرفت ورکشاپ سے نکل کر سرمایہ دار کی فیکٹری میں آ گئی۔ محدود پیداوار کی جگہ اب اشیا کی لامحدود پیداوار ہونے لگی۔ کاریگر اس کا مقابلہ نہیں کر سکے۔ 1806 میں جب نیپولین نے پرشیا کو شکست دی تو اس کی حکومت نے نئی اصلاحات کے تحت گلٹ کو ختم کر دیا تاکہ اب ہر کاریگر اور ہنرمند گلٹ کا رکن ہوئے بغیر کوئی پیشہ بھی اختیار کر سکے۔

اب بھی کاریگروں کا ایک طبقہ موجود ہے، جو اشرافیہ کی ضرورت کو پورا کرتا ہے، تاکہ وہ عام لوگوں سے علیحدہ اپنا لباس، جوتے اور ہیٹ اور فرنیچر کو اپنی شان و شوکت کے لیے استعمال کرے۔

اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کسی بھی فن یا ہنر کی ضرورت ایک وقت تک رہتی ہے۔ اگر وقت کے ساتھ اس میں تبدیلی نہ کی جائے تو وہ اپنی اہمیت کو کھو بیٹھتی ہے۔ یہ نہ صرف ہنر اور فن کے پیشوں میں ہوتا ہے۔ بلکہ معاشرے کے دوسرے شعبے بھی اس سے متاثر ہوتے ہیں۔ تاریخ یہی سبق دیتی ہے کہ ذہن کو تبدیلی کے لیے تیار رکھنا چاہیے۔

مزید تفصیل کے لیے دیکھیے Geoffrey Crosskick کی کتاب The Artisan and the European Urban studies

بشکریہ انڈیپینڈنٹ اردو۔
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close