جن سے مجھے پھینٹی چڑھی، وہ تمام استاد مجھے یاد ہیں لیکن کیا پڑھایا انہوں نے، بالکل کچھ بھی دماغ میں نہیں آتا، بس ایک دہشت تھی، خوف تھا۔۔۔ وہی یاد ہے۔
اردو والے استاد نے ایک بار کسی شعر کی تشریح سن کے مجھے کندھے پر تھپکی دی تھی، سر پہ ہاتھ پھیرا تھا، اردو آج روزی روٹی کمانے کا سبب بن گئی۔
انگریزی والے استاد دوستوں کی طرح رویہ رکھتے تھے، پڑھاتے ایسے تھے کہ شام پڑ جائے بھلے، لیکن بچے کو سمجھ آئے گی تو ہی آگے بڑھیں گے۔
آج میں انگریزی فلمیں، ڈرامے، کتابیں، کچھ بھی دیکھ اور سمجھ پاتا ہوں، تھوڑی بہت انگریزی بول سکتا ہوں، کہیں باہر ملک جا کے اجنبیوں سے دوستی کر پاتا ہوں تو دل میں اس مہربان شخص کو یاد کرتا ہوں اور ہر بار شکریہ ادا کرتا ہوں۔
سائنس میں صرف بائیولوجی تھی جو سمجھ آئی، وجہ کیا تھی؟ استاد۔۔۔ وہ اس زمانے میں بھی جانتے تھے کہ پڑھاتے ہوئے ایک جگہ پہ کھڑے نہیں رہنا اور ہر بچے کا نام نہ صرف یاد رکھنا ہے بلکہ یہ بھی جاننا ہے کہ کون کہاں کمزور ہے۔ وہ مارتے تھے لیکن ہنسی مذاق والی مار ہوتی تھی، بے عزت کرنا ان کا مقصد نہیں تھا۔
میتھ والے سے کمر پہ مکے پڑے، کیمسٹری والی کان ایسے کھینچتیں کہ خون نکل آتا، فزکس کے استاد بالکل تھانے والی لترپریڈ کرتے تھے، معاشرتی علوم والے سر بالکل سن ہوتے تھے، کوئی نئیں پروا کہ سمجھ آئی یا نہیں۔۔۔ انہیں گھنٹہ گزارنا ہوتا تھا۔
نتیجہ حسنین جمال کی شکل میں آپ کے سامنے ہے۔ وہ سب کچھ جس کے لیے ماریں کھائیں، بے ہودگی کی حد تک انسلٹ برداشت کی، تشدد۔۔۔ جی ہاں یہ درست لفظ ہے، چودہ سال کے بچے سے مار پیٹ کو ہم کم از کم یہی مہذب لفظ دے سکتے ہیں، تو، تشدد برداشت کیا، وہ سب آج تک اس کی زندگی کے سلیبس سے باہر ہے۔
جو کچھ پیار سے ملا، شفقت سے پڑھایا گیا، ہر وہ مضمون ساری زندگی یاد رہا بلکہ کہیں نہ کہیں عملی زندگی میں کام آتا رہا۔ یہاں تک کہ بیس سال میں نے ویکسین بیچی، فارما سے وابستہ رہا۔۔۔ اس کے پیچھے بھی بائیولوجی تھی۔۔۔ مسکراتا مہربان ایک استاد تھا۔
چلیں مار پیٹ کی بات چھوڑ دیں، شاید اب کم ہو گئی ہو، بات ساری رویے کی ہے۔ جانور انسان کا رویہ سمجھتا ہے تو بچے کیسے نہیں جان سکتے کہ پڑھانے کون آیا ہے اور وقت کون گزار رہا ہے؟
عزت بے عزتی بھی انہیں ہم آپ سے زیادہ محسوس ہوتی ہے کیونکہ یہ رویے ان کے لیے نئے ہوتے ہیں۔ اسکول ہی تعلیم کے ساتھ ساتھ دوسرے انسانوں اور ان کے برتاؤ سے بچوں کا تعارف کرواتا ہے۔
ہمارے یہاں ٹیچر بننے کی شروعات فرصت سے ہوتی ہے۔ انٹر کیا، گریجویشن کی، کچھ وقت ملا، اسے گزارنے کے لیے پڑھانا شروع کر دیا۔
اس میں کوئی حرج نہیں، مسئلہ تب ہوتا ہے جب آپ کو لگے کہ آپ نہیں پڑھا سکتے اور آپ پڑھاتے چلے جائیں، عمر گزار دیں، کئی نسلیں آپ سے پڑھ لیں، آپ کی روزی لگی رہے لیکن جو پڑھ کے باہر نکلا، اسے ککھ بھی نہ آتا ہو تو کیا یہ ناانصافی نہیں ہوگی؟
یاد کریں، کئی چہرے آپ کے ذہن میں آئیں گے کہ فلاں استاد ٹائم پاس تھا، فلانے کے پاس بہت نالج تھا لیکن وہ سمجھا نہیں پاتا تھا اور ایک کوئی ایسا بھی ہوگا جو آپ کی گڈ بکس میں سو بٹا سو تھا۔ کیوں تھا؟ وجہ جو بھی تھی، آپ کو، مجھے، کسی کو سکھاتے ہوئے، سمجھاتے ہوئے، پڑھاتے ہوئے بس وہی استاد بننا ہے۔
اور استادی شاگردی ساری زندگی چلتی ہے، یہ صرف اسکول کالج سے مشروط نہیں، جیسے اسی حسنین جمال نے صحافت میں آ کے جب لکھنا سیکھا تو بھی استادوں کا دامن تھاما، ویڈیو ایڈٹ کرنا سیکھی تو دوبارہ استاد کی ضرورت پڑی، خبر کی صحت جاننا چاہی تو پھر نئے لوگ تھے جو ٹیچر تھے اور وہی میں تھا جو شاگرد تھا۔
ان سارے تاحیات سیکھنے سکھانے کے تجربوں میں جو واحد چیز سمجھ میں آئی، وہ رویہ ہے!
آپ کرینکی ہو رہے ہیں، موڈ خراب ہے، غصہ آیا ہوا ہے، بے زار ہیں تو بس معذرت کر لیں، خاموش بیٹھے رہیں لیکن اس دن کسی کو سکھائیں کچھ مت۔۔۔ فائدہ نہیں ہوگا، برکت نہیں ہوگی، سمجھ بھی سامنے والے کو تیس بٹا سو آئے گی۔
ایک چیز جو رہی جاتی ہے، وہ یہ کہ بچے کو معصوم ضرور سمجھیں، بے وقوف نہیں۔ اسے سمجھ آتی ہے کہ کون کیسے پڑھا رہا ہے، لیکن جس عمر تک وہ اپنی سمجھ کو الفاظ میں بیان کرنے کے قابل ہوتا ہے، تب تک پڑھانے والے اس کے آس پاس نہیں ہوتے۔
ایسے ہی کوئی میں ہوتا ہوں۔۔۔ ایسے ہی کوئی آپ ہوتے ہیں، ایسے ہی اچھے استادوں کو یاد کرتا ہے وہ، اور عین ایسے ہی فضول پڑھانے والوں کی نشانیاں گنوائی جاتی ہیں۔
پڑھائی بچے کی پہلی انویسٹمنٹ ہوتی ہے، خود مختار زندگی کی طرف، مالی لین دین کی طرح اس کاروبار کو بھی جتنا ہو سکتا ہے شفاف بنائیں، باقی پھر یا قسمت یا نصیب۔
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو۔
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)