دوسرے یورپی ملکوں کی طرح ہالینڈ نے بھی جنوبی امریکہ اور کریبین جزائر میں اپنی نوآبادیاں قائم کیں۔
کام کرنے کے لیے افریقہ سے غلاموں کو لایا گیا، جنہوں نے بڑے بڑے کھیتوں میں کاشت کاری کی اور مختلف شعبوں میں بحیثیت کاریگر اور ہنرمند کام کر کے اپنے مالکوں کو دولت فراہم کی۔
ان غلاموں کو ان کے وطن سے زبردستی لایا جاتا تھا، اور کام کے دوران تشدد کا برتاؤ ہوتا تھا، اس لیے ان میں سے کچھ غلام ایسے تھے جو سختی کو برداشت نہیں کرتے تھے، اور راہِ فرار اختیار کر کے اس ظلم سے نجات پاتے تھے۔
فرار ہونے میں کئی مشکلات تھیں۔ چوکیداروں کی نظروں سے بچ کر نکلنا، جنگل میں پناہ لینا جب کہ وہ اس کے راستوں سے ناواقف ہوتے تھے۔ لیکن یہ آزادی کا جذبہ تھا جو انہیں سفید فام آبادی سے دور لے جاتا تھا۔
یہ فرار ہونے والے غلام دور جنگلوں میں پناہ لیتے تھے، یا کسی پہاڑی مقام کو اپنا مَسکن بناتے تھے۔ یہ فرار ہونے والے غلاموں کی رہنمائی کرتے تھے، یہاں تک کہ ان کی آبادی بڑھ گئی، اور انہیں یہ اطمینان بھی ہو گیا کہ حکومت ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کر سکے گی۔
ان کی آبادی میں مکانات ایک جگہ نہیں تھے، بلکہ علیحدہ علیحدہ تھے تاکہ حملے کی صورت میں یہ مقابلہ کر سکیں۔
ان کی آبادی نے مقامی آبائی قبائل سے دوستی کی تا کہ دوسری ضرورت کی چیزوں کا ان سے تبادلہ کیا جائے۔
جب ان کی تعداد میں اضافہ ہوا تو انہوں نے سفید فام بستیوں پر چھاپے مارے اور ضرورت کی اشیا کو لوٹ کر لے آئے۔
حکومت کی انتظامیہ نے کوشش کی ان کی بستیوں پر حملے کر کے ان کو تباہ کر دیا جائے۔ مگر اس میں ان کو ناکامی ہوئی اس لیے آخر میں ان سے معاہدہ کیا گیا کہ حکومت ان کی بستیوں پر حملہ نہیں کرے گی اور یہ فرار ہونے والے غلاموں کو پناہ نہیں دیں گے بلکہ انہیں واپس مالکوں کے حوالے کر دیں گے۔
غلاموں کی یہ بستیاں مَرون کہلاتی تھیں۔ ان بستیوں میں رہنے والے غلاموں کی روزمرہ کی زندگی کیا تھی۔ ان کی ثقافت کیا تھی اس بارے میں کوئی تحریری مواد نہیں ہے۔
تاہم جب آثارِ قدیمہ کے ماہرین نے ان بستیوں کی کھدائی کی اور ملنے والی اشیا سے ان کی زندگی کے بارے تحقیق کی تو اس کے نتیجے میں مَرون میں رہنے والے غلاموں کی سماجی زندگی کے بارے میں نشاندہی کی، یہ چھوٹی بستیاں تھیں۔ ایک حد تک انہوں نے یہاں گزارا کیا۔ لیکن جب مشکلات پیش آئیں تو یہاں سے ہجرت کر کے دوسری کالونیوں مں چلے گئے۔
مَرون کے لوگوں کی ہجرت فرانس کی کالونی گیانا میں ہوئی، جہاں انہیں پناہ گزین قرار دیا گیا۔ ان کی بستی علیحدہ ہوتی تھی، اور انہیں کسی قسم کے حقوق نہیں دیے گئے تھے۔
یہ غلام اسپین کی کالونی میں بھی جا کر آباد ہوئے۔ یہاں عیسائی پادریوں نے ان کا مذہب تبدیل کر کے عیسائی بنایا، لیکن مَرون کے باشندوں نے اپنے پرانے عقیدے اور رسم و رواج کو نہیں چھوڑا، جس کی وجہ سے عیسائیت کی ایک نئی شکل ابھری۔
مَرون کی آبادیاں نہ صرف ڈچ کالونیز میں تھیں بلکہ امریکہ کی دوسری کالونیز میں بھی موجود تھیں۔
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ غلاموں نے اپنی آزادی کو برقرار رکھنے کے لیے تمام خطرات کا مقابلہ کیا اور اپنی بستیاں آباد کر کے ثابت کیا کہ تشدد اور ظلم کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔
1830 کی دہائی میں جب غلامی کا خاتمہ ہوا تو مَرون کے غلام بھی آزاد ہو گئے۔ اب افریقہ سے نئے غلام نہیں لائے جا سکتے تھے، اس لیے ڈِچ اور دوسری کالونیوں میں مزدوروں کی کمی ہو گئی۔
اس کمی کو پورا کرنے کے لیے غلامی کی جگہ جبری مزدوری یا انڈینچرڈ لیبر (indentured labor) کا نظام متعارف کروایا گیا۔
اس نئے نظام کے تحت چِین اور ہندوستان سے مزدوروں کی ایک بڑی تعداد کو جنوبی امریکہ اور ویسٹ انڈیز کے جزائر میں لایا گیا۔
اینڈینچرڈ کا مطلب یہ تھا کہ مزدوروں کو بحری جہاز کے ذریعے لایا جائے گا اور یہاں جب وہ کام کر کے معاوضہ حاصل کریں گے، تو اپنے سفر کے اخراجات اپنی تنخواہ میں سے قسطوں کی شکل میں جمع کروائیں گے۔
ہندوستان میں بنگال، بہار اور اڑیسہ جہاں غربت اور مفلسی تھی، اور بےروزگار نوجوانوں کی بڑی تعداد تھی، وہاں کمپنی کے لوگ دیہاتوں میں گئے اور نوجوانوں کو کالونیوں میں مزدوری کے لیے تیار کیا۔
جو نوجوان تیار ہوئے ان کی صحت کے بارے میں چیک اَپ کیا گیا، اور ان کے ساتھ یہ معاہدہ کیا گیا کہ وہ پانچ سال تک کالونی میں مزدوری کریں گے۔ اس کے بعد انہیں آزادی ہو گی کہ اگلے 10 سال وہ خودمختار ہو کر کام کریں گے۔ اس کے بعد اگر وہ چاہیں تو اپنے وطن واپس چلے جائیں، اور چاہیں تو کالونی ہیں میں مستقل رہائش اختیار کر لیں۔
چنانچہ آج تک ویسٹ انڈیز میں اور دوسری کالونیوں میں ہندوستانی موجود ہیں جو وہاں کے شہری ہیں۔
غلامی سے لے کر اینڈینچرڈ مزدوری تک عام لوگوں نے اپنے وطن خاندان اور اپنے کلچر کو چھوڑا اور دوسرے علاقوں میں آباد ہو کر نئے سِرے سے اپنی شناخت بنائی اور پورے عمل میں عام لوگوں کے دکھ درد اور تکالیف شامل ہیں۔
یہ اس لیے بھی ہے کیونکہ ان کے حکمراں طبقوں نے ان کو حقوق نہیں دیے۔
اس موضوع کی مزید تفصیل کے لیے Legacy and Slavery and Indentured Labour ضرور پڑھیں۔
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)