مغل ملکہ گیتی آرا، جو جہیز میں گیارہ ہزار عورتوں کی فوج لائی

سجاد اظہر

افغانستان میں آج سے لگ بھگ 600 سال پہلے ایک ایسی خاتون بھی گزری ہے، جو افغان صوبے زابلستان کی نہ صرف حکمران تھی بلکہ اس کے پاس خواتین کی ایک بڑی فوج بھی تھی۔

شاید لوگ یہ بھی کم ہی جانتے ہوں کہ وہ امیر تیمور کے بیٹے میراں شاہ کی ملکہ بنی۔

یہ چودہویں صدی عیسوی کے وسط کی بات ہے۔ جنوبی افغانستان کا علاقہ زابلستان، جو آج کے زابل اور غزنی صوبے پر مشتمل ہے، کبھی یہ الگ ریاست ہوا کرتی تھی جس کے حکمران علی مردان تھے۔

علی مردان کی بیوی دورانِ زچگی انتقال کر گئی۔ قریب تھا کہ نومولود بھی مر جاتی لیکن حکیموں نے ملکہ کا پیٹ چاک کر کے بچی کو بحفاظت نکال لیا۔

ملکہ کی وفات پر محل میں کہرام برپا تھا۔ بادشاہ بہت مغموم تھا۔ جب وہ آخری دیدار کے لیے ملکہ کے جسد خاکی کے پاس گیا تو بچی کی چیخ نے اسے اپنی جانب متوجہ کر لیا۔

علی مردان نے ملکہ کی آخری نشانی کے طور پر بچی کا نام گیتی آرا رکھا اور اپنی تمام تر توجہ اس کی تعلیم و تربیت پر مرکوز کر دی۔

ڈاکٹر محمد فائق کی، جو ویشوا بھارتی شانتی نیکیتن یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں، ایک کتاب ’مغل شہزادیاں: علمی و ادبی خدمات‘ میں گیتی آرا کے بارے میں تفصیلات درج ہیں، جن کے مطابق گیتی آرا کو بچپن میں ہی امور مملکت سمجھانے کے ساتھ ساتھ گھڑ سواری، تیغ زنی اور تیر اندازی کی تربیت دی گئی۔

صرف بارہ سال کی عمر میں وہ ایک ماہر فوجی بن چکی تھی۔ اس کے ذہن میں ایک عجیب تجویز آئی اور اس نے خواتین کے لیے ایک فوجی اکیڈمی کی داغ بیل ڈال دی۔

زابلستان بھر میں منادی کرا دی گئی کہ 25 سال تک عمر کی تمام خواتین لازمی طور پر اس اکیڈمی سے تربیت حاصل کریں۔

زابلستان جیسے پدر سری سماج کے لیے یہ منادی بہت ناگوار تھی، لیکن بادشاہ کی بیٹی کا حکم تھا سو لوگوں نے چار و ناچار اپنی بچیوں کو اکیڈمی بھیجنا شروع کر دیا۔

پہلا بَیج جس کی تربیت کی گئی، وہ تین ہزار عورتوں پر مشتمل تھا۔ ان عورتوں کی تربیت کے لیے گھوڑوں اور سامان حرب کی فراہمی کی وجہ سے سرکاری خزانہ آدھا خالی ہو گیا۔

بادشاہ جانتا تھا کہ عورت چاہے کتنی ہی بہادر کیوں نہ ہو، وہ میدانِ جنگ میں مردوں کا مقابلہ نہیں کر سکتی لیکن اپنی چہیتی بیٹی کی خوشی کی خاطر وہ چپ رہتا۔

زابلستان کی عورتیں اپنی وضع قطع میں وجیہ اور قوی ہوتی ہیں۔ فوجی تربیت سے ان میں اور زیادہ نکھار آ گیا۔

گیتی آرا کی تربیت چونکہ بن ماں کے ہوئی تھی اس لیے وہ خواتین کے مساوی حقوق کی علم بردار تھی۔ وہ شادی کو سخت ناپسند کرتی تھی اور عورتوں پر زور دیتی تھی کہ وہ مردوں کے دست ِ نگر بن کر نہ رہیں۔

پھر ایک وقت ایسا آیا کہ اس کی زنانہ فوج کی تعداد بڑھ کر 11,000 ہو گئی۔ دوسری طرف بادشاہ کی اپنی فوج عورتوں کی فوجی سرگرمیوں سے خائف رہنے لگی۔

بادشاہ کے مصاحبین اور مشیر بھی مضطرب رہنے لگے، اس دوران بادشاہ کا انتقال ہو گیا۔

گیتی آرا کی بغاوت اور ریاست پر قبضہ

بادشاہ کے انتقال کے بعد وزیر اعظم زابلستان نے مشاورت سے بادشاہ کے چھوٹے بھائی کو حاکم مقرر کر دیا جس پر گیتی آرا بہت سیخ پا ہوئی اور اس نے وزیر اعظم کو خط لکھا کہ ’ہمیں افسوس ہے تم نے ہمارے چچا کو حاکم بنا کر ہمارے خلاف منظم سازش کر کے ہمیں ہمارے جائز حق سے محروم کر دیا۔

’حالانکہ تم اچھی طرح جانتے ہو کہ ہم امور مملکت چلانے سے بخوبی واقف اور اس کے اچھی طرح اہل ہیں۔

’اگر تم نے ہماری جانشینی کا اعلان نہیں کیا تو ہم تمہیں بغاوت کی سزا دیں گے۔ ہماری 11 ہزار فوجی ہتھیاروں سے لیس ہو کر ہمارے ایک حکم کی منتظر کھڑی ہیں۔‘

وزیراعظم نے جواباً لکھا کہ عورت کی حکمرانی فوج اور اراکینِ سلطنت کو سخت ناپسند ہے اور ہماری قومی روایات کے خلاف ہے۔

’آپ جنگ میں مردوں کی فوج کا مقابلہ نہیں کر سکیں گی، اس لیے بہتر یہی ہے کہ آپ اپنے چچا کی اطاعت کر لیں۔‘

گیتی آرا وزیر اعظم کے اس جواب پر مشتعل ہو گئی۔ اس نے اپنی فوج کو 22 حصوں میں تقسیم کر کے قلعے پر چڑھائی کا حکم دے دیا۔

جب گیتی آرا کے ہراول دستے نے قلعے پر دھاوا بولا تو جواباً قلعے سے تیروں کی بوچھاڑ کی گئی، مگر گیتی کی فوج نے سر دھڑ کی بازی لگا کر قلعے کا محاصرہ کر لیا اور سیڑھیاں لگا کر قلعے میں کود گئی۔

صرف تین گھنٹے میں لڑائی قلعے کے اندر تک پہنچ گئی۔ خواتین نے بہادری کے جوہر دکھا کر خون کی ندیاں بہا دیں۔

گیتی آرا کے چچا کی فوج پہلے منتشر ضرور ہوئی مگر اس نے دوبارہ اکھٹے ہو کر بھرپور حملہ کر دیا۔ قلعہ 24 گھنٹے تک میدان جنگ بنا رہا۔

گیتی آرا خود جنگ میں شریک تھی وہ اپنی فوج کا حوصلہ بڑھاتی رہی۔ آخر کار اس کی زنانہ فوج نے مردوں کی سپاہ کو شکست فاش سے دوچار کر دیا۔

11 ہزار میں سے 1300خواتین فوجیوں نے اپنی جانیں قربان کیں۔ مردانہ فوج کا جانی نقصان اس سے کئی گنا زیادہ تھا۔

گیتی آرا نے حکمران بنتے ہی سازشیوں کا خاتمہ کیا اور اپنے مخالفین کو پھانسیوں پر چڑھا دیا۔ دو سال تک دیدہ دلیری سے امورِ سلطنت سر انجام دیےاور خزانے کو بھی بھر دیا۔

اس کی بہادری، انصاف اور سلیقہ مندی کا شہرہ دور دور تک پھیل گیا، جس سے متاثر ہو کر بڑے بڑے سلاطین نے شادی کے لیے رشتے بھیجے مگر گیتی آرا انکار کرتی رہی۔

امیر تیمور کا بیٹا جلال الدین میراں شاہ جب تخت نشین ہوا تو اس نے گیتی آر کو شادی کی پیشکش کرتے ہوئے لکھا ’تم جیسی اولو العزم، فراخ حوصلہ، حسین اور حوصلہ مند خاتون میرے مفتوحہ ملک کی حکمران ہے۔

’یہ بات میرے لیے باعث مسرت ہے جس طرح تم نے جان کی بازی لگا کر اپنی آزادی کو برقرار رکھا اور اپنے حقوق کی خاطر جنگ کی وہ قابل صد تحسین و آفرین ہے مگر تمہاری عالی حوصلگی اور وسعت نظر کا یہ تقاضا نہیں تم صرف ایک محدود خطہ زمین کی حکمرانی پر قناعت کر جاؤ۔

’تمہارے کارنامے شاہد ہیں کہ تمہیں ایسی مملکت کی ملکہ ہونا چاہیے جیسی مملکت میرے زیر نگین ہے۔ اس کے علاوہ اور کہوں بھی تو کیا کہ تم خود نہایت ذہین و طباع ہو۔‘

گیتی آرا نے میراں شاہ کے اس خط پر فوج اور اراکین سلطنت سے مشورہ کیا تو انہوں نے کہا کہ ایک بادشاہ اگر اتنی عاجزی سے درخواست کر رہا ہے تو اسے مسترد نہ کیجیے۔

’یقیناً آپ نے ہمارے ساتھ شادی نہ کرنے کا عہد کیا تھا لیکن ہم سب اس عہد سے آپ کو مستثنیٰ قرار دیتے ہیں۔‘

جہیز میں گیارہ ہزار زنانہ فوج

گیتی نے چند پیشگی شرائط کے ساتھ شادی کے لیے ہاں کر دی۔ سمر قند میں یہ شادی بڑی دھوم دھام سے ہوئی۔

گیتی آرا جہیز میں اپنی گیارہ ہزار زنانہ فوج بھی لائی۔ اس کے لیے الگ محل مقرر ہوا۔ وہ شادی کے بعد مہروش بانو کے نام سے پکاری جانے لگی۔

وہ امورِ مملکت میں گہری دلچسپی لیتی، بادشاہ بھی اس سے مشاورت کرتا مگر شادی کے کچھ عرصے بعد وہ کسی موذی مرض کا شکار ہو کر چل بسی۔

گیتی آرا کو فن مصوری کا بھی شوق تھا۔ ایران کے شاہی عجائب خانے میں اس کے بنائے ہوئے فن پارے آج بھی موجود ہیں۔

اس کا ایک ہی بیٹا دانیال تھا جو 27 سال کی عمر میں انتقال کر گیا۔ گیتی نے وصیت کی تھی کہ اس کی فوج اس کے بعد بھی برقرار رہے گی اور اس کی مراعات میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی۔

گیتی کو اس کی وفات کے بعد اس کی وصیت کے مطابق زابلستان کے قلعے میں لا کر دفن کیا گیا۔

مغل حکمرانوں میں گیتی آرا کے بعد گل بدن بیگم، نورجہاں، ممتاز محل اور جہاں آرا جیسی شہزادیوں نے جنم لیا لیکن جرات و بہادری کی جو داستان گیتی آرا نے رقم کی وہ اور کسی کے حصے میں نہیں آئی۔

بشکریہ انڈیپینڈنٹ اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close