ریاستیں ایک دوسرے سے کیا کیا سیکھتی ہیں؟

وسعت اللہ خان

جس طرح انسان ایک دوسرے سے سیکھتے ہیں۔ اسی طرح قومیں بھی سیکھتی ہیں، ورنہ دنیا میں کوئی بات نئی بات نہیں۔ مثلاً آج ہم اسرائیل کو نوآبادیاتی آبادکاری (کولونیل سیٹلرازم) کی آخری نمایاں مثال سمجھ کے اس پر تھو تھو کر رہے ہیں، مگر اسرائیل نے بھی تو آخر کہیں سے سیکھا ہوگا کہ کس طرح کسی زمین کے اصل مالکوں کو جلاوطنی، غلامی اور نسل کشی کے ذریعے ایک کونے میں کر کے انہیں ہر اثاثے سے محروم کر کے باہر سے آنے والوں کو بسایا جاتا ہے اور چوری اور سینہ زوری کے اصول پر تمام ریاستی ادارے دل و جان سے عمل پیرا ہوتے ہیں اور اپنے ظالمانہ عمل کی تاویلیں بھی گھڑتے ہیں اور دنیا سے بھی توقع رکھتے ہیں کہ وہ ان تاویلات پر آمنا و صدقنا کہتی پھرے۔

اس معاملے میں اسرائیل کا مرشد امریکا ہے، جہاں پہنچنے والے یورپی آبادکاروں اور مہم جووؤں نے لگ بھگ پانچ سو برس پہلے براعظم امریکا کے مقامی انڈین قبائل کو کھدیڑ کر ان کی تاریخ اور نسل مٹانے کی کوشش کی اور پورے براعظم کو ایک خالی زمین فرض کر کے اس کے تمام وسائل نہ صرف ہتھیا لیے، بلکہ اپنا آئین اور قانون بنا کے اس ٹھگی کو ’’جائز ‘‘ تحفظ بھی دے ڈالا۔

یہی عمل گورے آبادکاروں نے کینیڈا، جنوبی امریکا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، جنوبی افریقہ اور زمبابوے میں بھی دھرایا۔ یوں کولونیل سیٹلرز کی وہ نسل پرست قبضہ مافیا وجود میں آئی، جو آج اپنے تئیں ’’آزاد دنیا‘‘ یا عالمی برادری کی تہذیبی اقدار کی ٹھیکے دار ہے۔

فرانس نے الجزائر کو اور جرمنی نے نمیبیا کو وہاں کے اصل باشندوں سے ہتھیانے کی کوشش کی مگر وہ امریکی نوآبادیاتی ماڈل کی طرز اپنانے میں بوجوہ ناکام رہے اور اس کا سیاسی و اقتصادی انتقام نیو کولونیل ازم کی شکل میں تمام سابق نوآبادیات سے آج تک لیا جا رہا ہے۔

اسی طرح نازی کنسنٹریشن ڈیتھ کیمپ کوئی نئی ایجاد نہیں بلکہ ان کا تصور امپیریل جرمنی سے لیا گیا۔ جب بیسویں صدی کے شروع میں جرمن سامراجی قبضے کے خلاف نمیبیا کے مقامی قبیلوں ہیرورو اور ناما کی بغاوت کچلنے کے بعد زندہ بچ جانے والوں کو پانچ کنسنٹریشن کیمپوں میں مقید کر کے ان سے مسلسل ظالمانہ بیگار کے نتیجے میں ہزاروں عورتیں، بچے اور مرد مر گئے۔

اسی ماڈل کو چار عشروں بعد ہٹلر نے صنعتی پیمانے پر یورپ میں نسل کشی کے لیے استعمال کیا اور پھر اسی تصور کو ہٹلر کے ستم گزیدہ یہودیوں کے صیہونی وارثوں نے غزہ کو موجودہ صدی کے سب سے بڑے کنسنٹریشن کیمپ کے روپ میں عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی۔

غزہ کے فلسطینیوں کو محفوظ علاقوں میں منتقلی کا جھانسہ دے کر انہیں اجتماعی طور پر ہلاک کرنے کا تجربہ بھی نیا نہیں۔ سری لنکا کی خانہ جنگی کے آخری دنوں میں تامل ٹائیگرز کے خلاف سرکاری فوجی آپریشن سے محفوظ رکھنے کے نام پر لاکھوں تامل شہریوں کو سیف زونز میں منتقلی کا حکم دیا گیا اور پھر ان سیف زونز کو یہ کہہ کر نشانہ بنایا گیا کہ ان پناہ گزینوں میں تامل ٹائیگرز بھی چھپے ہوئے ہیں۔ لگ بھگ چالیس ہزار ہلاکتیں ہوئیں۔

سری لنکا کی حکومت آج تک اس تاثر کی تردید کرتی ہے کہ اس نے سیف زونز میں جمع ہونے والے تاملوں کی جان بوجھ کر نسل کشی کی کوشش کی۔ جب کہ اسرائیل سینہ ٹھونک کے یہی کام مغربی حکومتوں کی حمائیت اور اسلحے سے کھلم کھلا غزہ میں کر رہا ہے۔

انیس سو ستر اور اَسی کے عشرے تک ریاستی اداروں کی جانب سے مخالفین کو جبری طور پر غائب کر کے مکر جانے کی وبا جنوبی امریکا کی فوجی آمریتوں کا خاصا سمجھا جاتا تھا۔ بالخصوص ارجنٹینا، ایل سلواڈور، کولمبیا اور چلی میں اس دور میں جتنے لوگ غائب ہوئے، ان میں سے ہزاروں کا آج تک پتہ نہیں چلا۔ یہ وائرس رفتہ رفتہ ایشیا اور افریقہ کی آمریتوں میں بھی پھیلتا چلا گیا اور آج ’’دھشت گردی کی بیخ کنی‘‘ کے نام پر یہ رجحان ریاستوں کے ہاتھ میں ایک ہتھیار بن چکا ہے۔

فرانس نے اٹھارہ سو تیس کے عشرے میں شمالی افریقہ کے ملک الجزائر پر قبضہ کیا اور اسے اپنا ہی ایک صوبہ قرار دے کر وہاں گورے فرانسیسیوں کی آبادکاری شروع ہو گئی۔ لگ بھگ ایک ملین سے زائد آباد کاروں نے ملک کے تمام قیمتی وسائل ہتھیا لیے۔ انہیں ریاستی سطح پر باور کروایا گیا کہ وہ کسی غیر سرزمین میں نہیں بلکہ فرانس کے ہی ایک صوبے میں آباد ہیں اور ان کی یہ آبادکاری مستقل بنیادوں پر ہے۔

نوے برس بعد مقامی الجزائریوں نے اپنی علیحدہ شناخت ثابت کرنے کے لیے پرامن جدو جہد شروع کی۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد جب فرانس پر سے نازی جرمن قبضہ ختم ہوا تو الجزائریوں نے بھی آزادی کا مطالبہ کر دیا۔ فرانس نے انہیں علیحدگی پسند شرپسند قرار دے کر طاقت سے دبانے کی کوشش کی۔ چنانچہ تحریک میں تشدد کا عنصر داخل ہو گیا اور فرانسیسی نوآبادکار انتظامیہ نے مقامی باشندوں پر مکمل کنٹرول برقرار رکھنے کے لیے انہیں مخصوص علاقوں تک محدود رکھنے کے منصوبے پر عمل شروع کر دیا۔

مقامی آبادی نے چار و ناچار اپنی بقا کے لیے ہتھیار اٹھا لیے۔ فرانس نے کسی سیاسی لچک کا مظاہرہ کر کے درمیانی راستہ نکالنے کے بجائے پوری عسکری طاقت سے اس ’’ نافرمانی‘‘ کا قلع قمع کرنے کی کوشش کی۔ کسی گاؤں میں اگر نیشنل لبریشن فرنٹ ( ایف ایل این) کے ایک بھی فدائی کی موجودی کا شبہہ ہوتا تو پورا گاؤں اجاڑ دیا جاتا۔

مقامی الجزائریوں کی املاک ضبط کر کے آبادکاروں کو زمینوں پر قبضے کی ترغیب دی گئی۔ مقامی آبادی کو سویلین قانون کے تحفظ سے محروم کر کے فوجی قوانین کے تابع بنانے کی کوشش کی گئی۔ شک کی بنیاد پر ہزاروں مقامی باشندوں کو عقوبت خانوں میں ٹھونس دیا گیا یا نقل و حرکت کو انتہائی محدود کر دیا گیا۔ گورے آبادکاروں میں اسلحہ بانٹا گیا اور ان آبادکاروں نے مقامی باشندوں پر زمین تنگ کرنی شروع کر دی۔

پروپیگنڈے کی توپوں کا رخ بھی حریت پسند نیشنل لبریشن فرنٹ (ایف ایل این) کی جانب ہو گیا۔ فرانیسیی پریس میں انہیں ریپسٹ، لٹیرے اور بطور نیم انسان پیش کیا گیا کہ جو مغربی تہذیب کے لیے براہ راست خطرہ ہیں، لہٰذا ان کی بیخ کنی ہی مہذب دنیا کے مفاد میں ہے۔

الجزائر کی تحریکِ آزادی کی ایشیا اور افریقہ کی دیگر فرانسیسی نوآبادیات میں بڑھتی ہوئی مقبولیت کے دباؤ میں فرانس نے بھی اپنے فوجی مظالم سے توجہ ہٹانے کے لیے آزادانہ تحقیقات کرانے کا دعوی کیا، مگر ایک فیصد سے بھی کم ذمے داروں کا احتساب ممکن ہو سکا۔ کوئی ہتھکنڈہ کام نہ آیا۔ انیس سو باسٹھ میں ایک ملین الجزائریوں کی شہادت کے نتیجے میں ڈیگال کو الجزائر پر سے قبضہ ختم کر کے نیشنل لبریشن فرنٹ کو اقتدار سونپنا پڑا اور کم وبیش تمام فرانسیسی آبادکاروں کو الجزائر چھوڑنا پڑا۔

اسرائیل جس طرح نصف صدی سے مقبوضہ فلسطین کا نظم ونسق فوجی قوانین کے تحت چلانے کی کوشش کر رہا ہے، ان میں سے بیشتر پالیسیاں وہی ہیں جو فرانس الجزائر میں نافذ کرنے کے باوجود منہ کی کھا چکا ہے۔

اسرائیل کو فرانس کے مقابلے میں بس اتنی سہولت ہے کہ فرانس نے اپنے بل بوتے پر الجزائر کو آخری وقت تک زیرِ نگیں رکھنے کی کوشش کی اور ناکام ہوا، جب کہ اسرائیل، یورپ اور امریکا کا مشترکہ نوآبادیاتی پروجیکٹ ہے، اس لیے اب تک اسرائیل کی خونخواری برقرار ہے، مگر فلسطینی بھی اسی سیارے کا ہی ایک کردار ہیں۔ آج نہیں تو کل تاریخ ایک اور ہزیمت آمیز پسپائی دیکھنے والی ہے۔ قانونِ فطرت تو بدلنے سے رہا۔

بشکریہ ایکسپریس
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close