یورپی تاریخ نویسی

ڈاکٹر مبارک علی

یورپی طاقتوں نے نہ صرف ایشیا اور افریقہ پر سیاسی تسلّط قائم کیا بلکہ اپنی منشا کے مطابق تاریخ نویسی سے ان کا ماضی بھی مسخ کر دیا۔ تاریخ کا علم تبدیلی کی نشاندہی اور قوموں میں اُن کی شناخت مضبوط بھی کرتا ہے۔

یورپی مؤرخین نے تاریخ نویسی کو اپنے نقطہ نظر سے لکھ کر ایشیا اور افریقہ کی تاریخ کو اپنی گرفت میں کر لیا۔ تاریخ نویسی میں تبدیلیاں آتی رہی ہیں۔ اسلامی مؤرخین تاریخ کی ابتداء حضرت آدم سے شروع کر کے شاہی خاندانوں کے ذکر پر لے آتے تھے۔ مثلاً طبری کی مشہور تاریخ ”الرَّسول و ملکوک‘‘ ہے۔ اِبنِ خلدون وہ واحد مؤرخ تھا، جس نے مقدمہ تاریخ لکھ کر اس روایت سے انحراف کیا جس میں اُس نے فلسفہ تاریخ کو بیان کیا ۔ لیکن مسلمان مؤرخین نے اس کے مقدمے کا نہ تو گہرائی سے مطالعہ کیا اور نہ ہی اس کے نظریات کو اپنایا۔ ابنِ خلدون کا مقدمہ جدید دور میں اوّل عثمانی سلطنت میں دریافت کیا گیا تا کہ وہ اپنے زوال کے اسباب کو سمجھ سکیں۔ اس کے بعد یورپی مورخوں نے مقدمے کی اہمیت پر زور دیا۔

یورپی مورخ بھی عہدِ وسطیٰ میں تاریخ کو بائبل کی بنیاد پر لکھتے رہے تھے۔ وہ تاریخ کو ایک تسلسل کے ساتھ بیان کرتے تھے۔ جو کائنات کی ابتداء اور انتہا کے درمیان عمل پذیر ہے۔ لیکن عمل کے ساتھ ساتھ ان کے افکار میں تبدیلی آئی اور انہوں نے تاریخ کے اس تسلسل کو توڑ کر سترھویں صدی میں اسے تین ادوار میں تقسیم کر لیا۔ یعنی قدیم عہدِ وسطیٰ اور جدید۔ ان ادوار کی تقسیم اُنہوں نے اپنے تاریخی عمل میں دیکھی کہ کس مرحلے پر اس میں تبدیلی ہوئی اور معاشرے کی نئی ساخت نے ماضی کی شکل کو بدل کر ایک نئی صورت اختیار کی۔ مورخوں نے ان تینوں ادوار کی خصوصیات مقرر کیں۔

قدیم عہد سے ان کی مراد تہذیب کی ابتداء اور ارتقاء تھی۔ عہدِ وسطیٰ میں یورپ پر کیتھولک چرچ کا تسلط ہوا، جس کی وجہ سے زندگی کے ہر شعبہ میں مذہب کی مداخلت ہو گئی۔ مذہبی عقائد سے انحراف، بغاوت کے مُترادف ہو گیا۔ یہی وجہ تھی کہ ریناساں دور کے ہیومنِسٹ (Humanist) نے عہدِ وسطیٰ کو تاریک کہا اور اس پر زور دیا کہ اسے چھٹکارا پانا ضروری ہے کیونکہ یہ ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ لیکن عہدِ وسطیٰ کے بارے میں مورخوں کے رویے متضاد رہے۔ رومانوی دور کے مورخوں نے عہدِ وسطیٰ میں سکون اور اطمینان پایا۔ اُنہوں نے اس دور کے کلچر پر بھی روشنی ڈالی اور اسے قدیم عہد سے ترقی میں بڑھا ہوا پایا، لیکن رینا ساں دور کے مفکرین نے عہدِ وسطیٰ کی گرفت سے نکل کر یونان اور روم کے کلاسیکل کلچر میں سیکولر فِکر کو پایا اور ان کی بنیاد پر جدید دور کی ابتداء کی۔

تاریخ نویسی کی اس تبدیلی کی وجہ سے انیسیوں صدی کے یورپی مفکرین اور فلسفیوں نے اس کے بارے میں جو نظریات دیئے، وہ ایشیا اور افریقہ اور تاریخ نویسی کو رَد کرتے ہوئے اپنے تسلط کو قائم کرتے ہیں، مثلاً جرمن فلسفی ہیگل نے اپنے ایک لیکچر میں کہا کہ ہندوستان کی کوئی تاریخ نہیں ہے اور یہ کہ افریقہ تاریک براعظم ہے۔ لہٰذا یورپ وہ واحد جغرافیائی علاقہ ہے جس کی تاریخ ہے۔ ہیگل کی دلیل یہ ہے کہ غیر یورپی اقوام تاریخ کے حاشیے پر ہیں۔ اس حیثیت سے وہ کوئی تخلیقی کام نہیں کر سکیں گے۔ ان کی اہمیت اسی وقت ہوگی، جب وہ یورپ کے تاریخی عمل میں شریک ہوں اور خود کو اس میں ضم کر دیں۔

غیر یورپی مورخوں کے لیے یہ ایک مشکل مسئلہ تھا کہ کیا وہ تاریخ کے اپنے ادوار کو یورپ کی روشنی میں دیکھیں یا اُن کا تجزیہ اپنی تاریخ کی مناسبت سے کریں۔ مثلاً اگر برِصغیر یا اسلامی تاریخ کے ادوار کی خصوصیات کو بیان کیا جائے تو وہ یورپ سے مختلف ہوں گی۔ مثلاً اسلامی تاریخ کا قدیم عہد اسلام سے پہلے کا ہے، اس کے عہدِ وسطیٰ میں امیّد اور عباسی سلطنتوں کی بنیاد پڑی اور یہی وہ عہد تھا کہ جس میں بغداد میں بیت الحکمت اور قاہرہ میں دارالحکمت قائم کیے گئے، جہاں فلسفے اور سائنس پر تحقیقات ہوتیں تھیں۔ اس لیے اسلامی تاریخ میں عہدِ وسطیٰ تاریک نہیں تھا۔ یہی صورتحال برصغیر ہندوستان کی تھی۔ اس کے قدیم عہد میں وادیٔ سندھ کی تہذیب آریاؤں کی آمد ہندومت کی تشکیل اور فلسفے کا ارتقاء ہے۔ اس کے عہدِ وسطیٰ میں ترکوں کی آمد اور مُغل حکومت کا قیام ہے جس کے دوران ہندوستان نے صنعت و حرفت اور ٹیکنالوجی میں ترقی کر کے معاشرے کے رویّوں اور خیالات و افکار کو بدل ڈالا۔ ان دونوں کا جدید دور کلونیل ازم یعنی نوآبادیات کا عہد ہے، جس نے ان کی روایات اور اداروں کو بدل ڈالا اور انہیں یورپی تہذیب کی گرفت میں لے کر اِن کے تخلیقی ذہن کو ختم کر دیا۔

یورپی کلونیل ازم کے خاتمے کے بعد ایشیا اور افریقہ کے سیاستدانوں اور مفکرین کے لیے یہ سوال ہے کہ کیا ہمیں ترقی کے لیے انہی اداروں اور روایات کو اختیار کرنا چاہیے، جس کی مدد سے یورپ نے دنیا میں اپنا تسلط قائم کیا۔ کیا ایشیا اور افریقہ کے مُلکوں کو ریناساں ریفریشن اور فرانسیسی صنعتی اور سائنسی انقلابات کو لانا ہوگا، جو ان کے کردار کو تبدیل کر کے اُن میں جدیدیت کو پیدا کریں۔ لیکن ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا غیر یورپی اقوام کو یورپ کی طرح سامراجی بن کر اپنی کالونیز بنانا ہونگی اور ان کے ذرائع اور وسائل لوٹ کر انہیں اپنی ترقی کے لیے استعمال کرنا ہوگا۔

اس تجزیے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ایشیا اور افریقہ کے ممالک یورپ کو اپنا ماڈل نہیں بنا سکتے۔ انہیں اپنے ماضی اور حال کو دیکھتے ہوئے تاریخ نویسی کے لیے نئے افکار اور خیالات تخلیق کرنا ہوں گے اور یورپی تاریخ نویسی کی گرفت سے خود کو آزاد کرنا ہوگا۔ اگر غیر یورپی مورخ یورپ کی تقلید کرتے رہے تو وہ کلونیل ازم کی گرفت سے چھٹکارا نہیں پا سکیں گے اور تاریخ وہ اہم علم ہے، جو نہ صرف مسلسل تبدیلی کی نشاندہی کرتا ہے بلکہ یہ قوموں میں اُن کی شناخت کو مضبوط بھی کرتا ہے۔

بشکریہ: ڈی ڈبلیو اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close