”اس کنٹری کا ڈَیئرنگ تمہیں اچھی طرح سے معلوم ہے۔۔ جب یہ لگتا ہے کہ سب اندھے، گونگے اور بہرے ہو گئے ہیں، تب بھی کسی کونے میں ایک چیخ زندہ رہتی ہے اور وہ چیخ سرکار تک کو گرانے کا پوٹینشل رکھتی ہے۔“
یہ مکالمہ ہے حال ہی میں رلیز ہونے والی ویب سیریز ”پِل“ (Pill) کا۔۔ یوں تو ’پِل‘ کسی بیماری کی صورت میں کھائی/لی جاتی ہے، لیکن یہ والی پِل دیکھنے کی چیز ہے۔۔ بلکہ میں تو کہوں گا کہ یہ ’پِل‘ دیکھنے کے بعد ہم فارماسیوٹیکل کمپنیوں کی بڑی عمارتوں کے اندر ہونے والی ساری سرگرمیوں کو دیکھنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔
میرے اس سیریز کو پسند کرنے کی وجہ شاید یہ ہو کہ مجھے ہمیشہ ایسی آرٹ اور ڈراما فلمیں پسند آتی ہیں، جن میں سماجی موضوعات کو واضح یا علامتی انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔ یہ ویب سیریز فارما مافیا کے نیکسس کو اجاگر کرتی ہے۔ اس سیریز پر بات کرنے سے پہلے لگے ہاتھوں ایسے ہی ایک موضوع پر پاکستانی پسِ منظر میں بنائی گئی فلم ’ٹائیگرز‘ کا ذکر بھی ہو جائے۔ ’ٹائیگرز‘ 2014 میں ریلیز ہونے والی ایک انڈین ڈرامہ فلم ہے، جس کے ہدایت کار ڈینس تونووِک ہیں اور مرکزی کردار عمران ہاشمی نے ادا کیا ہے۔
یہ فلم پاکستان میں 1990 کی دہائی کے ایک واقعہ سے متاثر ہے۔ ایک پاکستانی سیلز مین بچوں کے دودھ کی فروخت کے لیے ایک بڑی ملٹی نیشنل کمپنی کے لیے کام کرتا ہے۔ اسے جب پتہ چلتا ہے کہ کمپنی کا دودھ بچوں کی صحت کے لیے نقصان دہ ہے اور اس کی فروخت بڑھانے کے لیے مختلف ناجائز حربے استعمال کیے جا رہے ہیں، تو وہ کمپنی کے خلاف لڑنے کا فیصلہ کرتا ہے۔ فلم میں دکھایا گیا ہے کہ کس طرح وہ ایک اکیلا آدمی ہونے کے باوجود سچائی کی راہ پر چلتے ہوئے بڑی کمپنی کے خلاف آواز اٹھاتا ہے اور اس کے نتائج بھگتتا ہے۔
آئیے اب بات کرتے ہیں ویب سیریز ‘پِل‘ (Pill) کی۔۔ جیو سنیما پر اسٹریمنگ کے لیے پیش کی گئی یہ ویب سیریز اس بات سے پردہ اٹھاتی ہے کہ کس طرح فارماسیوٹیکل کمپنیاں اور ان کے مفادات معاشرے پر منفی طور پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
اس میں کیا کچھ نہیں ہے۔۔ فارما کمپنیوں کی پیسے کمانے اور ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی دوڑ میں انسانی زندگیوں کی تباہی۔۔ ان جرائم کے لیے ’جنتا کی سیوا’ عرف ’عوام کی خدمت‘ مارکہ سیاست کا کندھا اور پشت پناہی، سرکاری ڈرگ انسپکشن کے محکمے کا رشوت کی بھنگ پی کر غفلت کی گہری نیند سونا اور میڈیا کا ایسے اہم ایشوز کو چھوڑ کر انٹرٹینمنٹ کی مصالحہ دار خبروں پر فوکس۔۔
اگرچہ ویب سیریز میں ایک فرضی فارما کمپنی کو پیش کیا گیا ہے لیکن اس کا کانسیپٹ دراصل دنیش ٹھاکر کی سچی کہانی پر مبنی ہے۔ وہ ایک سابق ملازم سے ’وسل بلوور‘ بن گیا تھا، جس نے ہندوستان کی سب سے بڑی فارماسیوٹیکل کمپنی رین بیکسی کو بے نقاب کیا تھا۔
یہ شو حالیہ واقعات جیسے کہ فروری 2024 میں 64 فارما کمپنیوں کے لائسنسوں کی حالیہ منسوخی کی طرف بھی ہماری توجہ مبذول کراتا ہے۔ واضح رہے کہ دنیا کے کئی ممالک میں انڈیا کی تیار کردہ دوائیوں سے بیسیوں لوگوں خاص طور پر بچوں کی اموات ہو گئی تھیں۔ جس کے بعد ان ممالک نے ان مصنوعات اور کمپنیوں پر پابندی لگا دی تھی، اور پھر با دلِ ناخواستہ انڈیا بھی ان پر عائد کرنے پر مجبور ہو گیا تھا۔
یہ ویب سیریز اس حقیقت سے پردہ اٹھاتی ہے کہ ڈاکٹر کیسے لوگوں کو شفا دینے کی بجائے فارما کمپنیوں کے جرم میں ان کے ساتھی بن جاتے ہیں۔ اس میں ہم ڈاکٹروں اور طبی نمائندوں کو مشکوک کاروبار میں ملوث ہوتے دیکھتے ہیں۔ وہ جعلی ادویات کا ٹرائل کرتے ہیں اور پیسے کی خاطر خطرناک ادویات کو مارکیٹ میں لانے کی اجازت دیتے ہیں۔ امیر دوا ساز کمپنیاں ان کی حمایت یا خاموشی خریدنے کے لیے انہیں بھاری رقوم اور مہنگے تحائف سے نوازتی ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کس طرح منافع کے حصول میں بہت سے ڈاکٹرز، فارما صنعت سے وابستہ سرمایہ دار اور سیاست دان بدعنوانی میں ملوث ہوتے ہیں اور عام لوگوں کی صحت اور زندگیاں ان کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتیں۔ اس بدعنوانی کی وجہ سے خطرناک ادویات مارکیٹ میں فروخت ہوتی ہیں۔ بے ایمانی اور دھوکے سے بھرے اس ماحول میں اس ویب سیریز میں ان چند ایماندار لوگوں کو بھی دکھایا گیا ہے، جو پیسے کو ترجیح دینے کی بجائے دیانت اور اخلاقیات کا انتخاب کرتے ہیں۔
آٹھ اقساط پر مشتمل پر اس مضبوط پلاٹ کی حامل ویب سیریز کے حوالے سے نقادوں کا کہنا ہے کہ ”کچھ لوگوں کو شو کی سست رفتار بورنگ لگ سکتی ہے، لیکن یہی رفتار سامعین کو بے چین کر دیتی ہے۔۔ تاہم یہ شو میکرز کا مقصد ہو سکتا ہے، تاکہ ناظرین کو اس بے چینی اور بے بسی کا احساس دلایا جائے جو کرداروں کو محسوس ہوتا ہے۔“ مگر ذاتی طور پر مجھے اس ڈرامے کا ٹیمپو بہت مناسب لگا۔
پونے چھ گھنٹے (درحقیقت 5 گھنٹے 20 منٹ) دورانیے کی اس ویب سیریز میں بھرتی کے کردار نہیں ہیں، ہر کردار کی ایک واضح اہمیت ہے، اس لیے ویب سیریز کی نوعیت دیکھ کر فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ اس کا مرکزی کردار کون ہے۔ تاہم رتیش مکھ نے اپنی روایتی اداکاری کے برعکس اس میں مرکزی کردار خوب نبھایا ہے۔ غالباً یہ اس کی ڈیبو ویب سیریز ہے، جس میں اس نے اپنے سادہ کردار میں اپنی کارکردگی سے ایک اداکار کے طور پر اپنی استعداد کا ثبوت دیا ہے۔ بہار الاسلام نے ڈاکٹر باسو دیو کے کردار میں ایک ماسٹر کلاس پیش کی ہے۔ اس کے علاوہ وکرم دھریا، انشول چوہان، اکشت چوہان اور نیہا سارف نے بھی اپنے کرداروں سے انصاف کیا ہے۔ اگرچہ پون ملہوترا کی اداکاری بہتر ہے لیکن وہ جس کیلیبر کا منجھا ہوا اداکار ہے، اس لحاظ سے اس سے محض بہتر سے زیادہ کی توقع تھی۔
پرویز شیخ اور جئدیپ یادیو کی قیادت میں مصنفین کی ٹیم بھی قابلِ تحسین ہے، جنہوں نے انتہائی ایمانداری کے ساتھ حقیقی زندگی سے تعلق رکھنے والے ایک اہم ایشو کو بہترین انداز میں پیش کیا ہے۔ یہ خیال کہ ”یہ ہمارا مسئلہ نہیں ہے، جب تک کہ ہم اس سے متاثر نہیں ہوتے“ اس ویب سیریز کا جذباتی محرک ہے، جسے وہ ناظرین تک پہنچانے میں کامیاب رہے ہیں۔
اس ویب سیریز کے کئی مکالمے انتہائی جاندار اور سوچنے پر مجبور کرنے والے ہیں، جن میں ہمارے معاشرے کی تصویر نظر آتی ہے۔ جن میں سے ایک اس تحریر کی ابتدا میں درج کر چکا ہوں، باقی مشتے نمونہ از خروارے پیش ہے:
”ہیرو صرف فلموں میں جیتتے ہیں، حقیقت میں تو دنیا صرف ولن چلاتے ہیں۔“
”کبھی سن سیٹ کو سمندر کے کنارے کھڑے ہو کر دیکھنا، وہ اندھیرے سے تب تک لڑتا ہے، جب تک کہ اس کی آخری روشنی آسمان اور سمندر مل کر نگل نہیں جاتے۔۔ اور اسی فائٹنگ اسپرٹ میں لائف کی فلاسفی ہے۔ یہ لوگ سن سیٹ کی آخری روشنی کو کنٹرول نہیں کر سکتے لیکن وہ سن سیٹ جس آسمان پر ہوتا ہے، جس سمندر کے پیچھے چھپتا ہے، وہ سمندر اور آسمان دونوں ان کے ہیں۔۔“
”فائل میں جب پیج بلینک ہو اور نیچے آفیسر کا سگنیچر ہو تو اس کا مطلب ہے کہ وہ سگنیچر، نیشنل انٹرسٹ میں لیا گیا ہے.“
ہدایات کاری کی بات کی جائے تو نیشنل ایوارڈ یافتہ اور نو ون کلڈ جیسیکا، رَیڈ اور عامر جیسی فلموں کی ہدایتکاری دینے والے راج کمار گپتا کی یہ ویب سیریز پِل Pill، جو ان کا OTT ڈیبو ہے، ایک نفاست پسند بچے کی اسکول کی فیئر کاپی لگتی ہے، کہ جس میں وہ فضول کے گل بوٹے نہیں بناتا، بلکہ اس میں ہر چیز متعلقہ اور کام کی ہوتی ہے۔ ہدایتکار نے کہانی کو بہترین انداز میں پیش کیا ہے، جہاں ہر سین کی ترتیب اور کرداروں کی کیمسٹری کو عمدگی سے دکھایا گیا ہے۔
یہ ایک شاندار ویب سیریز ہے جو فارما مافیا کے نیکسس اور اس کے پیچیدہ نیٹ ورک کو حقیقت پسندانہ انداز میں پیش کرتی ہے۔ بہترین کہانی، عمدہ کردار، اور شاندار ہدایتکاری کی بدولت یہ سیریز دیکھنے کے قابل ہے اور ناظرین کو سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ ہماری دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔