شہری نوجوان ریلز نہ دیکھے تو اور کیا کرے؟

فاروق اعظم

اسکرولنگ چل رہی ہے، ساتھ والے ڈسٹرب ہوتے ہیں تو ہوتے رہیں، ریلز نہیں رکنی چاہییں۔

اننت امبانی کی شادی پہ ایشوریہ نے ابھیشیک کے بغیر انٹری دی (ان کا تو پکا کٹ گیا)، رات چار بج کر 10 منٹ پر کون کس سے ملنے گیا، پوری خبر ہے۔ نہیں پتہ تو اپنے آپ کا اور اپنے آس پاس کا۔ اسے زندگی انجوائے کرنا کہتے ہیں؟

پہلے ہمارا رونا تھا کہ شہری مڈل کلاسیے شاہ رخ خان سے آگے نہیں بڑھتے، اب وہاں تک بھی نہیں پہنچتے، ریلز راستہ کھوٹا کر دیتی ہیں۔ فلم اور ڈراما ٹائم پاس کرنے کا ذریعہ تھا، اب یہ ضرورت سوشل میڈیا پورا کر رہا ہے۔

آپ خود سوچیں ایک نوجوان یونیورسٹی پہنچ گیا، نوٹس سے رٹا مار کر یا موبائل کھول کر امتحان دیا، کسی طرح ڈگری لے لی۔ آگے کچھ پتہ نہیں۔ مارکیٹ میں ملازمتیں ہیں نہیں، ٹیکنیکل سکلز سیکھی نہیں۔ یونیورسٹیوں میں ہزاروں طلبہ اور درجنوں ڈیپارٹمنٹ ہیں مگر کونسلنگ کا کوئی نظام نہیں۔

معیشت، مہنگائی، غربت اور ملکی پس ماندگی آپ کے سامنے ہے، ریاست کی کوئی ذمہ داری نہیں۔ اب یہ نوجوان کیا کرے؟

چھوٹے صوبوں کے چھوٹے قصبوں سے تعلق رکھنے والے کسی نہ کسی طرح کی جدو جہد کا حصہ ہیں، عملی طور پر، فکری طور پر یا محض جذباتی وابستگی کی حد تک، فرق نہیں پڑتا، وہ ایک دھن ایک رو میں بہتے چلے جا رہے ہیں۔

انہیں کم از کم اپنے ارگرد کا پتہ ہے، آپ ان سے ملکی صورت حال پر تبادلہ خیال کر سکتے ہیں، آپ اتفاق کریں یا اختلاف ان کے پاس کہنے کو بات ہوتی ہے، ابتر حالات کے خلاف ایک بےچینی اور کسی کنارے لگنے کا جذبہ نظر آتا ہے۔ ایک شاعر کی موت انہیں ایک لڑی میں پرو سکتی ہے۔ وہ نرے ڈھکن کے ڈھکن نہیں۔

آپ شہروں میں قائم کسی یونیورسٹی یا پبلک لائبریری چلے جائیں، دور دراز دیہات سے آئے نوجوان کتاب پڑھتے نظر آئیں گے، ہراری ٹائپ مشہور ناموں کی کتابیں، انگریزی ناول یا اپنی زبان میں شائع ہونے والا لٹریچر۔ ان کے ہاتھوں میں حسن درس اور شاہ محمد مری کی کتابیں دیکھ کر بہت اچھا لگتا ہے۔

بڑے شہروں والے لائبریری بھی اس لیے جاتے ہیں کہ اے سی ہوتا ہے، انٹرنیٹ کی سپیڈ اچھی ملتی ہے، وہاں بیٹھ کر سکرولنگ میں بڑا مزا آتا ہے۔ گاہے بگاہے کوئی رنگین چہرہ جھلک دکھلا جاتا ہے۔ طالب علمی کی زندگی یہیں تک ہے، اس کے سوا نہ کسی معاملے میں کوئی رائے ہے نہ اپنے کلچر کا پتہ۔

کوئی ایک آدھ دانہ ڈھنگ کا نکل آئے تو نکل آئے ورنہ اربن مڈل کلاس والوں کی اکثریت کنفیوژن کا کباڑ خانہ ہے۔ جو ذرا متحرک ہیں وہ ایک مخصوص مذہبی گروہ کے نرغے میں ہیں، باقی دن رات سکرولنگ میں مصروف۔

دیہی پنجاب کے نوجوان کی حالت بھی بہت اچھی نہیں لیکن مقامی کلچر اور فطرت کی قربت ان کے لیے غیر معمولی سہارا ہے۔ وہ اکیڈمیوں میں پڑھا رہے ہوں یا گھر بیٹھ کر مفت کی روٹیاں توڑتے ہوں، بہرحال ان کی سماجی زندگی ہے، وہ اور نہیں تو دو چار دوستوں کے ساتھ شام کو بیٹھک پہ لوڈو اور تاش کھیل لیتے ہیں۔ کچھ نہ کچھ دیسی قسم کا بند و بست کر لیتے ہیں۔ زندگی کی گھٹن دور کرنے کو دروازہ نہ سہی کھڑکی ہاتھ آ جاتی ہے۔

سوشل میڈیا نے دیہاتی نوجوانوں کی زندگیاں بھی متاثر کی ہیں لیکن وہ اسے اپنے ڈھنگ سے استعمال کرنے کا تھوڑا بہت ہنر جان چکے ہیں۔

کبوتروں کی بازی اڑ رہی ہے چلو ٹک ٹاک بناؤ۔ نئی گائے یا حتیٰ کہ بکری خریدی ہے تو سوشل میڈیا کے دوستوں کو خبردار کرو، مبارکاں وصول کرو۔

ان کی نسبت شہروں میں رہنے والے نوجوانوں کی زندگی کہیں زیادہ بھیانک ہے۔ ملازمت مل جائے تب بھی مصیبت نہیں کٹتی۔ پرائیویٹ دفتروں والے اس وقت چھوڑتے ہیں جب شام چھ بجے یہ بیچارے نیم مردہ ہو چکے ہوں۔ راستے سے جو بدذائقہ دال روٹی پکڑی ہاسٹل، فلیٹ یا گھر پہنچتے ہی وہ نگل لی اور ہو گئے موبائل پر سکرول کرنے شروع۔

اسی حالت میں بستر پہ مر گئے۔ صبح پھر وہی کوہلو کے بیل۔ تازہ ہوا کا کوئی جھونکا نہیں جو انہیں سرشار کرے۔

ریلز دیکھنے کا نشہ ایسا کہ ہر وقت نظریں موبائل پر، کھانا کھا رہے ہیں تو ساتھ ٹھیپے کی بک بک جاری ہے، گاڑی میں چار لوگ ساتھ بیٹھے ہیں، مجال ہے خیال ہو کہ دوسرے کتنے بدمزہ ہو رہے ہوں گے۔

سوشل میڈیا نے دیہاتی نوجوانوں کی زندگیاں بھی متاثر کی ہیں لیکن وہ اسے اپنے ڈھنگ سے استعمال کرنے کا تھوڑا بہت ہنر جان چکے ہیں۔ کبوتروں کی بازی اڑ رہی ہے چلو ٹک ٹاک بناؤ۔ نئی گائے یا حتیٰ کہ بکری خریدی ہے تو سوشل میڈیا کے دوستوں کو خبردار کرو، مبارکاں وصول کرو۔

وہ بے تحاشا فوک موسیقی سن رہے ہیں، وٹس ایپ سٹیٹس اور ٹک ٹاک پر اپنی ویڈیو یا تصویر لگائیں گے اور پس پردہ طالب حسین درد، عطا اللہ، ملنگی یا روکھڑی کا گانا لگا ہو گا۔ وہ مقامی سیاست میں متحرک ہیں۔ آس پاس کوئی واقعہ ہو گیا تو کئی دن اسی نئی تازی کے سہارے چوک چوراہوں کی رونق چلتی رہے گی۔

اس کے برعکس شہری نوجوانوں کی زندگیاں مایوسی کی تصویر ہیں۔ کھوکھلے دن، ناقابل برداشت راتیں۔ یہ نوجوان زندگی کے پل صراط سے اسی طرح نیم مردہ گزر رہے ہیں جیسے ’ویسٹ لینڈ‘ میں لندن کے پل سے گزرنے والے زومبی۔

پہلی جنگ عظیم کے بعد وجودی بحران سے دوچار ہونے والے معاشرے اور افراد مایوسی کے باوجود جینا نہیں بھولے۔ اس عہد کا فکشن پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ سب کچھ خراب چل رہا تھا لیکن زندگی کرنے کا ڈھنگ برقرار رہا۔ وہ خوب کھاتے پیتے اور موج مستی کرتے۔

یہ کھانا پینا وغیرہ ان کے لیے مسرت آمیز سرگرمی تھی، ان مخصوص حالات میں شاید سب سے بڑی مسرت آمیز سرگرمی۔

ایسا لگتا ہے خراب حالات میں معمولی دلچسپی بھی زندگی کا بوجھ ہلکا کرنے میں فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہے۔

اربن مڈل کلاس ایسی کسی بھی دلچسپی سے محروم ہے۔ انہیں نہیں پتہ انہیں اپنی زندگی کا کیا کرنا ہے۔ وہ نہیں جانتے انہیں کس شوق کیا ہے؟ مشغلہ کسے کہتے ہیں؟ انہیں سانس لینے جتنی مہلت بھی ملے تو وہ ریلز دیکھنے لگتے ہیں۔

اگر آپ ان سے پوچھیں کہ کیا یہ انٹرٹینمنٹ زندگی کا بوجھ ہلکا کرنے میں مدد کر رہی ہے؟ مایوس میں ڈوبا چہرہ نفی میں جواب دے گا، مگر اگلے ہی لمحے وہ نئی ریل دیکھ رہے ہوں گے۔

وہ نہیں جانتے وہ ریلز نہ دیکھیں تو کیا کریں؟

بشکریہ انڈیپینڈنٹ اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close