اے فلاحی اداروں کے رضا کارو! بس تھوڑا سا ٹھہرو!

محمد خان داؤد

فلاحی اداروں کی خاموش ایمبولینس آتی ہیں۔ ان میں بندوقوں سے چھید کیے اداس لاشیں ، اپنے وجود سے ٹپکتا لہو لیے موجود ہوتی ہیں۔ گورکن لائین میں دشت کے صحرا میں نئی قبریں کھود لیتا ہے. ان لاشوں کے دفن ہونے سے پہلے دشت کے ریت کے ذرّے شور کرتے، چیختے، ماتم کرتے ان قبروں میں لیٹ جا تے ہیں، پھر باہر آتے ہیں… پھر لیٹتے ہیں، پھر باہر آتے ہیں… پر وہاں پر موجود کوئی بھی دشت کے صحرا کے ذرّوں کا ماتم نہیں دیکھتا۔

کیمروں سے آخری بار ان مسخ شدہ چہروں کی تصاویر لی جاتی ہیں.. کچھ ہاتھ آگے بڑھتے ہیں.. ان اکیلی لاشوں کو دفن کرتے ہیں.. اوپر سے مٹی ڈالتے ہیں.. نئی قبر پر نئی تختی لگاتے ہیں، جن تختیوں پر کوئی نام درج نہیں ہوتا، بس نمبر درج ہوتا ہے، جو نمبر دشت کے صحرا میں بڑھتے ہی جا رہے ہیں… اب یہ نمبر سیکڑوں میں ہیں۔

کوئی نہیں جانتا کہ وہ جو دشت میں دفن ہو رہے ہیں وہ کون ہیں؟ کہاں سے ہیں؟کہاں سے چلے؟ کہاں جانا تھا؟ پر اب ان کا سفر ٹھہر گیا.. رک گیا.. اب یہ دشت کی دھول میں دھول بن کر رہ گئے ہیں… کوئی نہیں جانتا کہ دشت کے صحرا میں پہلا شخص دفن ہونے والا کون تھا؟ اور یہ بھی کوئی نہیں جان پائے گا کہ دشت کے صحرا میں آخری دفن ہونے والا کون ہوگا؟

پہلے اور آخری کی باتیں چھوڑیں کوئی یہ بھی نہیں جانتا کہ جو آج دشت کے صحرا میں دفن ہوئے وہ کون ہیں؟ اور جو کل دشت کے صحرا میں دفن ہونگے وہ کون ہو نگے!؟

کیوں کہ دشت کے صحرا میں وہی دفن کیے جا تے ہیں، جو لاوارث ہوں…
جن کا کوئی پتا نہ ہو
جن کا کوئی اتا نہ ہو
جن کا کوئی مکاں نہ ہو
جن کا کوئی نشاں نہ ہو
جن کا کوئی نام نہ ہو…
جو بے نام ہوں، جو بے نشاں ہوں، جو بے گھر ہوں، جن کا کوئی مکاں نہ ہو!

پر دشت کے صحرا میں دفن ہوتے اور دشت کے صحرا میں دفنانے والے دونوں جانتے ہیں کہ ان کی مائیں ضرور ہونگی۔ اداس مائیں… ماتمی موسموں جیسی مائیں.. سراپا درد مائیں.. منتظر مائیں.. ایک دوسرے سے اپنے گم شدہ بیٹوں کا پتا پوچھتی مائیں.. اکیلی مائیں.. تنہا مائیں.. پہاڑوں کی اوٹ میں بسنے والی مائیں.. شکست خوردہ پرچموں جیسی مائیں.. درداں دی ماری دلڑی علیل جیسی شاعری جیسی مائیں.. نوحہ جیسی مائیں.. مرثیہ جیسی مائیں.. کچے مکانوں کے دروں کو تکتی مائیں.. رو رو کر اندھی ہو جانے والی مائیں.. ماتم کرتی مائیں.. رتجگے کے عذاب سہتی مائیں.. معصوم مائیں.. یسوع کی ماند مصلوب مائیں.. مریم کے جیسی مسافر مائیں.. میلی مانگوں والی مائیں.. گیلے نینوں والی مائیں.. نیند کا قتلام کی گئی مائیں.. ڈوبٹے، تیرتے دلوں والی مائیں.. یعقوب کی طرح اشک بار مائیں.. اُس سے اِس سے پوچھتی مائیں.. گھروں کا پتا بھولنے والی مائیں.. راہوں میں بیٹھ کر ماتم کرتی مائیں.. اداس کیمپوں میں بیٹھ کر سب کچھ بھول جانے والی مائیں.. زندہ مائیں… دفن ہوتی مائیں!!!

دشت کے صحرا میں جو جو بھی دفن ہو رہا ہے، ریاست بھلے انہیں لاوارث قرار دے کر دشت میں دفن کر دے، پر ہم جانتے ہیں وہ لاوارث نہیں!
بھلے ریاست جانے کہ ان کے کوئی نام نہیں، پر ہم جانتے ہیں کہ ان کے نام ہیں!
بھلے فلاحی ادارے یہ نہ جان پائیں کہ اب ان کا کوئی وارث نہیں، پر ان کی مائیں ہیں جن کے نام بھیگی آنکھوں کے گیلے آنسوؤں کی طرح ہیں..
گل بی بی، حوا، میرک، شدری، زنمبول!

جب ان لاوارثوں کو دشت کے صحرا میں دفن کیا جاتا ہے، تو دشت کے صحرا سے دور مائیں بستروں سے اُٹھ کر بیٹھ جاتی ہیں اور انہیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ ان کا دل مٹی کی دز میں دفن ہو رہا ہے
پھر وہ اپنے گمشدہ بیٹوں کا نام لے لے کر انہیں بُلاتی ہیں
“او ذاکر جان، او راشد جان، او زاہد او منی پُل!“
پھر بیٹیاں آتی ہیں، انہیں جھوٹے سچے دلاسے دیتی ہیں، انہیں پانی پلاتی ہیں
اور پوچھتی ہیں
”اماں کیا بات ہے؟!!“
وہ ماروی جیسی مائیں زباں سے کچھ نہیں بولتیں، بس اپنا ہاتھ دل پر رکھ کر یہ بتانے کی کوشش کرتی ہیں کہ یہاں درد ہے اور ان معصوم بیٹیوں کی آنکھوں سے اشک رواں ہو جا تے ہیں..
اب تو وہ بیٹیاں اپنی ماؤں کو سب سچے، جھوٹے دلاسے دے چکیں ہیں
اب تو ان کے اس بھی کہنے کو کچھ نہیں..
دشت کے صحرا میں لاوارث لاشیں دفن ہوتی رہتی ہیں۔
لکھنے والا ان نئی قبروں پر نئے نمبر درج کرتا رہتا ہے
پر ہاں دشت میں کچھ ایسا ضرور ہے کہ
وہاں پر ایمبولینسیں ہی نہیں، چیختے
پرندے بھی وہاں سے گردنیں نیچی کیے گزرتے ہیں
دشت میں کوے نہیں چیختے
ہوائیں خاموشی سے گزرتی ہیں
دشت کے صحرا سے گزرتے سورج کی روشنی ماند پڑ جاتی ہے
سورج دشت کو تپنے نہیں دیتا
اور چاند رات بھر دشت کی نئی پرانی قبروں پر روشنی کیے رہتا ہے
نہیں معلوم چاند کو دشت کی قبروں سے عشق ہے
یا وہ دشت کے مکیں چاند کو بلاتے ہیں؟
”چاند ہمینیت کا میرے من کو ہمیشہ بُلاتا رہا!!“
اور معلوم نہیں دشت کا منحوس صحرا کب بھرے گا؟
مائیں بھی بہت ہیں
ان کے بیٹے بھی بہت ہیں
دشت کا میداں بھی بہت ہے
نہیں معلوم آگے کیا ہوگا
اور دشت کے میداں کو بھرنے والے اس میداں کو کیسے بھریں گے؟
بُلیا کی جانے میں کون؟!!!
دفن ہونے والا تو دفن ہی ہو جاتا ہے، وہ نہیں لوٹتا..
تاریخ میں ایسی کوئی گواہی نہیں کہ دفن ہوتا ہوا لوٹ آیا ہو!
بس ان دفن کرنے والوں کو ماؤں کو دکھا دو…….
ماؤں نے بہت انتظار کیا ہے
بہت ماتم کیا ہے
اپنے نینوں سے دریا بہائے ہیں
اور بہت سا سفر کیا ہے
اے فلاحی اداروں کے رضا کارو!
بس تھوڑا سا ٹھہرو
مائیں آتی ہیں
مائیں آ رہی ہیں
ماؤں نے بہت سا سفر کیا ہے….

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close