اکابر نے ہمیں بتایا ہے

امر جلیل

بہت خوش قسمت ہیں آپ لوگ کہ آپ بہت کچھ جانتے ہیں، بلکہ سب کچھ جانتے ہیں۔ ہم بدبختوں کی طرح لاعلمی اور جہل میں زندگی نہیں گزارتے۔ آپ بھٹکتے نہیں، کئی ایک اکابر سے سنا ہے کہ جو سب کچھ جانتے ہیں وہ بھٹکتے نہیں۔ ہم بدبخت بہت بھٹکتے ہیں۔ سمت افلاطون کے فلسفے کی مانند ہماری سمجھ میں نہیں آتی۔ مغرب جانے کا ارادہ کرکے گھر سے نکلتے ہیں، تو مشرق جا پہنچتے ہیں۔

اکابر نے اپنے بھاری بھرکم مدلل دلائل سے ہمیں قائل کر دیا تھا کہ اللہ سائیں نے نفی اور اثبات کی جوڑیاں بنا رکھی ہیں، جیسا کہ رات اور دن، اندھیرا اور اجالا، گرمی اور سردی، اونچ نیچ۔ عین اسی طرح عاقل اور جاہل، ذہین اور احمق کی جوڑیاں بنا رکھی ہیں۔ لہٰذا معاشرے میں سب لوگ ذہین نہیں ہوتے۔ سب لوگ احمق نہیں ہوتے۔ معاشرے میں دونوں اقسام کے لوگ ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ ذہین ہوتے ہیں اور کچھ لوگ بیوقوف ہوتے ہیں۔ جب کسی ملک میں ذہین لوگوں کی اکثریت ہوتی ہے اور مجھ جیسے احمقوں کی تعداد کم ہوتی ہے، تب اکابر ہمیں اقلیت گنواتے ہیں۔

اکابرین نے ہمیں یہ بھی بتایا ہے کہ ترقی یافتہ یعنی سدھرے ہوئے ممالک میں ملک کے تمام شہریوں کو برابر ی کا درجہ حاصل ہوتا ہے۔ کسی کو کم درجہ کا، یا حقیر نہیں سمجھا جاتا۔ ایسے ترقی یافتہ سدھرے ہوئے ممالک اپنی بات پر اٹل ہوتے ہیں۔ وہ بڑھ چڑھ کر دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے ممالک میں سب شہری ایک سمان ہوتے ہیں۔ کوئی اکثریت میں نہیں ہوتا، کوئی اقلیت میں نہیں ہوتا۔ سب شہریوں کے یکساں حقوق ہوتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں کبھی بھی اپنے شہریوں کی نسل، رنگ، ذات پات، عقیدوں اور برادریوں میں بندر بانٹ نہیں کی جاتی۔ ترقی یافتہ ممالک میں ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ اگر ملازم پیشہ مرد یا عورت کو ترقی دے کر اعلیٰ عہدے پر تعینات کیا جائے اور دنیا کو بتایا جائے کہ دیکھو ہمارے ملک میں تمام شہریوں کو ایک جیسے مواقع میسر ہیں۔ پچھلے دنوں جن لوگوں کو ترقی دے کر اعلیٰ عہدوں پر لگایا گیا ہے وہ محض کرسچین یا ہندو نہیں تھے۔ ان کا تعلق اقلیت سے نہیں تھا۔ وہ برابر کے شہری تھے۔ اپنی قابلیت کی بنا پران کی ترقی ہوئی ہے۔ ترقی دیتے ہوئے یہ نہیں سوچا گیا تھاکہ ان کا تعلق اقلیت سے تھا۔ وہ ہندو تھے یا کرسچین تھے۔

ان عامیانہ باتوں کا ترقی یافتہ ممالک میں ذکر نہیں نکلتا۔ ان کے یہاں ترقی کا معیار ایک ہی ہوتا ہے، قابلیت اور ذہانت، پھر وہ شخص یا خاتون چاہے ہندو ہو، سکھ ہو، کرسچین ہو، یہودی ہو۔ ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں کے لئے ترقی یافتہ ممالک میں گنجائش نہیں ہوتی۔

یہ جو میں آپ سے الم غلم باتیں لے کر بیٹھ گیا ہوں، ان باتوں کی سوجھ بوجھ بھی ہمیں اکابر نے دی ہے۔ اکابر نے ہمیں بتایا ہے کہ دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک کی طرح پاکستان کے تمام شہریوں کو دو دستاویز مکمل تحفظ دیتے ہیں ایک ہے آئین اور دوسرا ہے بنیادی حقوق۔ اکابر کی باتیں سننے کے بعد ذہن میں عجیب سی کھلبلی سی محسوس ہوئی ہے۔ کھلبلی بے سبب نہیں ہے۔ اکابر نے ہم احمقوں کی گھٹی میں ڈال دیا ہے کہ سیکھنا، سمجھنا، بوجھنا ہم جیسے مجہولوں کا بنیادی حق ہے۔

اس انکشاف کے بعد ہم بونگے کچھ سیکھنے، کچھ سمجھنے کے لئے مارے مارے پھرتے ہیں۔ کچھ بوجھنے کے لئے کوئی موقع ہم ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ مثلاً پہلے پہل ہم جان نہیں پاتے تھے کہ آنے اور جانے والے حکمران ایک طرح سے حکومت کیوں کرتے ہیں؟ کیوں ان سب حکمرانوں کی کوتاہیاں اورکمزوریاں ایک جیسی ہوتی ہیں؟ کیوں پس منظر میں چلنے والے گیت، گانے اور نعرے ایک جیسے ہوتے ہیں؟ کیوں آنے والے حکمراں، جانے والے حکمرانوں کو چور، ڈاکو، لوٹ مار کرنے والے، رشوتی اور سرکاری خزانے خالی کرنے والے کہتے ہیں؟ خدا بھلا کرے اکابر کا، انہوں نے گتھی سلجھا دی۔اکابرین نے ہمیں بتایا ہے کہ جو حکمران جس پس منظر سے آتا ہے، حکومت بھی اسی پس منظر کے مطابق کرتا ہے۔ نسل در نسل قصائی جب حکمراں بن بیٹھتا ہے، تب حکومت بھی ایک قصائی کی طرح کرتا ہے۔ نسل در نسل ہیرا ، پھیری کے ہنر سے وابستہ شخص جب ملک پر مسلط ہوتا ہے تب سرکاری خزانے خالی کرنے کے بعد آئی ایم ایف جیسے اداروں سے ملک کی فلاح بہبود کے نام پر کھربوں ڈالر کے قرضے لے کر دنیا بھر کے ممالک میں اپنے اور اپنے ہونہاروں کے نام پر املاک کے انبار لگا دیتا ہے۔

یہ آنکھوں دیکھی اور کانوں سنی باتیں ہیں۔ بغیر جھجھک کے میں اعتراف کرتا ہوں کہ اکابر نے ہم احمقوں کو بہت کچھ بتایا ہےاور سکھایا ہے۔ اب ہم پہلے جیسے پاجی نہیں رہے۔ بہت کچھ تو نہیں، مگر تھوڑی بہت دانشمندی ہم نے سیکھ لی ہے۔

پہلے جب ہم حمود الرحمٰن کا نام سنتے تھے، تب عقلمندوں کی باتیں غور سے سننے کی کوشش کرتے تھے اور آخر کار گھبرا کر گر پڑتے تھے۔ ہم جان نہیں پاتے تھے کہ جناب حمود الرحمٰن صاحب کون ہیں؟ کیا کرتے ہیں؟ پاکستانی سیاست سے ان کی کس قسم کی رشتہ داری ہے؟ حمود الرحمٰن صاحب ووٹ لینے والے ہیں یا ووٹ دینے والے ہیں؟ اکابر نے ان کے بارے میں ہمیں بہت کچھ بتایا ، اور یہ بھی بتایا کہ حمود الرحمٰن صاحب نے ایک عدد رپورٹ بھی لکھی ہے۔ تب ہم احمقوں کو یاد آیا کہ وہ رپورٹ پچاس برس پہلے اخباروں میں قسط وار شائع ہوئی تھی۔ بعد میں ادارہ دارالشعور لاہور کی طرف سے مکمل متن کے ساتھ بارہ سو بارہ صفحوں کی کتاب میں شائع ہوئی تھی۔ اس وقت ہم احمق کچھ کم کم احمق ہوتے تھے۔ اس رپورٹ میں جو کچھ لکھا ہوا تھا، وہ پاکستان کی پچھلی اور آنے والی نسلوں کو معلوم تھا، واضح اکثریت سے الیکشن جیتنے والے شیخ مجیب الرحمٰن کو ہم مغربی پاکستان والوں نے حکومت کرنے نہیں دی تھی؟ کیوں؟ سب بچے اس سوال کا جواب جانتے ہیں۔

بشکریہ روزنامہ جنگ۔
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close