حیران کن دریافت: ڈائنوسار سے بھی کروڑوں سال پرانی مچھلی کا دل دریافت

ویب ڈیسک

محققین نے 380 ملین سال پرانی ایک مچھلی کا دل دریافت کیا ہے، جو مچھلی کے اندر ابھی تک محفوظ تھا

محققین کا کہنا ہے کہ یہ دل خون پمپ کرنے والے عضو کے ارتقا کے حوالے سے بہت اہم ہے، جو انسانوں سمیت کمر کی ہڈی والے تمام جانوروں میں پایا جاتا ہے

بتایا گیا ہے کہ یہ ’گوگو‘ نامی مچھلی کا دل ہے، جو اب ناپید ہے

سائنسی جریدے میں شائع ہونے والی یہ حیرت انگیز دریافت مغربی آسٹریلیا میں کی گئی تھی

پرتھ کی کرٹن یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والی سائنسدان پروفیسر کیٹ ٹریناجسٹک نے اس لمحے کے بارے میں بتایا جب انہیں اور ان کے ساتھیوں کو احساس ہوا کہ انہوں نے اپنی زندگی کی سب سے بڑی دریافت کر لی ہے

وہ کہتی ہیں ”ہم کمپیوٹر کے گرد جمع تھے اور جب ہمیں پتا چلا کہ یہ ایک دل ہے تو یقین نہیں آ رہا تھا۔۔۔ یہ ناقابل یقین حد تک حیران کن تھا“

عام طور پر نرم خلیوں کی بجائے ہڈیاں فوسلز میں تبدیل ہوتی ہیں لیکن کمبرلے میں اس مقام پر، جسے گوگو چٹان کی تشکیل کے نام سے جانا جاتا ہے، یہاں پر معدنیات نے مچھلی کے بہت سے اندرونی اعضا کو محفوظ کر لیا تھا، جن میں جگر، معدہ، آنت اور دل شامل ہیں

پروفیسر کیٹ ٹریناجسٹک کا کہنا ہے ”یہ ہمارے اپنے ارتقا کے حوالے سے یہ ایک اہم لمحہ ہے“

ایڈیلیڈ کی فلنڈرز یونیورسٹی سے ان کے ساتھی پروفیسر جان لانگ نے اس دریافت کو حیرت انگیز قرار دیا

انہوں نے کہا کہ اس سے پہلے تک ہمیں جانوروں کے ان پرانے نرم اعضا کے بارے میں کچھ معلوم نہیں تھا

گوگو مچھلی قدیم زمانے کی مچھلیوں کی پہلی کلاس ہے، جسے پلیسوڈرم کہتے ہیں۔ یہ مچھلیوں کی پہلی قسم تھی، جن کے جبڑے اور دانت تھے۔ ان سے پہلے مچھلیاں تیس سینٹی میٹر سے بڑی نہیں تھیں لیکن پلیسوڈرم لمبائی میں نو میٹر تک تھیں

پلیسوڈرم مچھلیاں ساٹھ ملین سال تک ہمارے سیارے پر موجود تھیں، یعنی پہلے ڈائنوسار کے زمین پر قدم رکھنے سے ایک سو ملین سے زیادہ سال پہلے سے یہ مچھلیاں موجود تھیں

گوگو مچھلی کے فوسل کے اسکین سے پتا چلتا ہے کہ جتنا توقع کی جا رہی تھی اس کا دل قدیم مچھلیوں سے بھی پیچیدہ نکلا۔ اس کے دو چیمبر تھے، جو ایک دوسرے کے اوپر اور ساخت میں انسانی دل کی طرح تھے

محققین کا خیال ہے کہ اس سے مچھلی کا دل زیادہ کارآمد بن گیا اور اس اہم پیشرفت نے اسے ایک سست حرکت کرنے والی مچھلی سے تیزی سے چلنے والے شکاری میں تبدیل کر دیا

پروفیسر لانگ کا کہنا ہے کہ ’یہ وہ طریقہ تھا جس سے وہ آگے بڑھ کر شکاری بن سکتی تھیں۔‘

دوسرا اہم مشاہدہ یہ تھا کہ ان کا دل قدیم دوسری مچھلیوں کے مقابلے میں جسم میں بہت آگے تھا

خیال کیا جاتا ہے کہ اس پوزیشن کا تعلق گوگو مچھلی کی گردن کی نشوونما سے ہے اور اس نے پھیپھڑوں کی نشوونما کے لیے جگہ بنائی

نیچرل ہسٹری میوزیم لندن کی ڈاکٹر زیرینا جوہانسن نے اس تحقیق کو ایک ’انتہائی اہم دریافت‘ قرار دیا اور کہا کہ اس سے یہ بتانے میں مدد ملتی ہے کہ انسانی جسم آج اس طرح کی شکل میں کیوں ہے

’اس میں جو بہت سی چیزیں آپ دیکھتے ہیں وہ ہمارے جسموں میں اب بھی موجود ہیں، مثال کے طور پر جبڑے اور دانت۔ اس کے آگے اور پیچھے کے پر پہلی ظاہری شکل ہے، جو ارتقائی عمل سے گزر کر ہمارے بازو اور ٹانگیں بنے۔‘

’ان پلیسوڈرم میں بہت سی ایسی چیزیں ہیں جو آج ہمارے جسم کا حصہ ہیں جیسے گردن، دل کی شکل اور ترتیب اور جسم میں اس کی پوزیشن۔‘

امپیریئل کالج لندن کے ماہر ڈاکٹر مارٹن بریزیو کے مطابق، یہ دریافت زمین پر زندگی کے ارتقا میں ایک اہم قدم ہے

انہوں نے کہا ”یہ نتیجہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی ہے۔ میں اور میرے ساتھی جن مچھلیوں پر تحقیق کر رہے ہیں وہ ہمارے ارتقا کا حصہ ہیں۔ یہ انسانوں اور دوسرے جانوروں اور سمندر میں رہنے والی مچھلیوں کے ارتقا کا حصہ ہے“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close