اسکول اسمبلی، بچوں کی لمبی قطار اور آنکھیں کھلی رکھنے کی کوشش کرتی میں۔۔۔
’اس بار بھی گر گئی تو بہت مذاق بنے گا!‘ سردی ہو یا گرمی، مجھے دھوپ سے کافی مسئلہ تھا، لیکن اندر کی بات یہ بھی ہے کہ اس سب میں پرنسپل کی لمبی تقریر کا بھی ایک بڑا ہاتھ تھا۔
اس روز بھی یہی ہوا اور جب مجھے ہوش آیا تو میں اسی کمرے میں پڑی تھی، جہاں ہمیشہ مجھے بے ہوشی کی حالت میں لایا جاتا تھا، ہر بار کی طرح گھر پر میری طبیعت کی خبر دینے کے لیے فون ملایا گیا اور کچھ ہی دیر میں ابو اسکول گیٹ کے باہر تھے۔
ابا کو دیکھ کر جان میں جان آنا، موٹر سائیکل پر سوار ہو کر شہر کی ہوا کھانا، ہر پانچ منٹ بعد نمکول کے گھونٹ بھرنا اور طبیعت کچھ بہتر معلوم ہونے پر اسکول واپس جانے کی ضد پکڑ لینا، یہ سب روز کا معمول بن گیا تھا۔
دن گزرتے گئے، کب وقت نے رفتار پکڑی، اندازہ ہی نہیں ہوا۔ رات آٹھ بجے میرا ٹی وی ٹائم ہوتا تھا، زین ریموٹ پر قبضہ جما کر بیٹھا رہتا تھا۔
اس سے جنگ لڑنا میرے بس کی بات نہیں تھی، لیکن اب میں اتنی کمزور بھی نہیں تھی، سیدھا ابا کو فون لگا دیتی، ریموٹ میرے ہاتھ آ جاتا تھا، اور اس جیت کی خوشی ہی الگ ہوتی تھی، اتنی کہ ناقابلِ بیان!
میں تب سوچتی تھی کہ کب میں بڑی ہوں گی، ابو کی عمر کو پہنچوں گی، میرا بھی یہی رعب ہوگا، آزادی ہوگی، میں اس مقام کو پہنچوں گی کہ ابو کو فون لگانے کی بجائے خود ہی اپنے معاملات سیدھے کر لوں، بس میں بڑی ہونا چاہتی تھی۔
یادوں کی فلم میں کئی کمزور لمحات ہیں اور کئی ایسے بھی کہ جو گزر جانے کے بعد اندازہ ہوا ابھی ان واقعات کی عمر نہیں تھی، یا شاید یہ کہ وہ ان واقعات کا وقت نہیں تھا، لیکن زندگی وقت یا عمر کب دیکھتی ہے؟
کچھ لوگ سات سال کی عمر میں ساٹھ سال گزار بیٹھتے ہیں اور کچھ ساٹھ سال کی عمر میں سات سالہ بچے کا ذہن بھی نہیں سمجھ پاتے۔۔ بہرحال، زندگی ہر کسی پر اپنے اپنے انداز میں مختلف ہی گزرتی ہے۔
اسکول، کالج اور یونیورسٹی کے بعد عملی زندگی کا چورن بھی شروع ہو گیا۔ سر کھجاتے ہوئے سوچتی ہوں کہ یہ تو کسی کورس میں نہیں تھا کہ زندگی گزارنی کیسے ہے؟
جو سیکھا، وہ کہیں کام ہی نہیں آ رہا، فیثا غورث کے مسئلے سلجھاتے جو زندگی بیچ میں کہیں الجھ گئی ہے، وہ کس کتاب نے سلجھانی ہے؟
بچپن میں غلطیاں کرنے کا مارجن زیادہ تھا، بتایا گیا تھا کہ ابھی غلطیاں سدھارنے کے لیے ایک عمر پڑی ہے، دھکے کھائیں گے، گریں گے، پھر سنبھلیں گے، اٹھیں گے اور سفر جاری رہے گا، یعنی وقت کا سہارا تھا لیکن اب وہ بھی نہیں۔
ہمارے پاس لامحدود وقت کی انشورنس نہیں، اور یہ ایک لمحہ ہے، جہاں دماغ کی سوئی بس اڑی ہوئی ہے کہ میں اتنی بھی آزاد نہیں، جتنا سوچتی تھی کہ ہو سکتی ہوں۔
بڑے ہونے کی عمر کیا ہے؟ بیس سال؟ آٹھ سال؟ بارہ سال؟ پچیس سال؟ کوئی خاص معیار؟
کیا اس وقت کوئی بڑا ہوتا ہے، جب بلوغت کا آغاز ہوتا ہے یا تب، جب پانچ سال کی عمر میں کسی کے ماں باپ کا انتقال ہو جائے؟
میں روز سوچتی ہوں کہ کیا میں آج بڑی ہو گئی ہوں اور پھر مجھے اندر کی بے یقینی سارے جواب دیتی ہے اور خوف کے مارے میں اپنے آپ سے نظریں چرانے لگتی ہوں۔
بے یقینی ایسی ہے کہ اب واپس اس بچپن میں جانے کا دل کرتا ہے، جہاں خوف صرف یہ تھا کہ کھانا کھانے کے بعد ہاتھ دھو کر سونا ہے ورنہ بلی آ کر ہاتھ چاٹ جائے گی۔
جہاں ڈر صرف یہ تھا کہ کھانا نہ کھانے پہ رات کو گھر کے باہر الٹے پاؤں والا جن آ کھڑا ہوگا۔
وہ بچپن کہ جب پریشانی کاغذی کشتی کے بارش میں ٹھہر نہ پانے کی ہوتی تھی اور اب آہنی بیڑہ بھی ہو تو نہیں تیر پاتا، غیر یقینی ہے، صرف غیر یقینی ہے، یقیناً مکمل غیر یقینی ہے۔
لوگ کہتے ہیں اداکاری کرو، اتنی اداکاری کہ وہ اداکاری ہی حقیقت معلوم ہونے لگے، لیکن کب تک؟ حقیقت یہ ہے کہ ہم نے غلط سبق پڑھے، ہمیں غلط سبق پڑھائے گئے۔
وہ کہتے ہیں تم چھبیس سال کی ہو، ابھی زندگی شروع ہوئی ہے، پھر کہیں گے ابھی تیس کی ہو، ابھی تو تمہاری زندگی پڑی ہوئی ہے، پھر کیا کہیں گے؟ کہ ابھی تو تم نے اگلی نسلیں دیکھنی ہیں؟ سب ڈرامہ ہے اور ہم سب اداکار ہیں۔
اب اسکول اسمبلی کی بجائے مائیک کیمرہ لے کر گھنٹوں دفتروں میں افسران کے انٹرویو اور ان کی پریس کانفرنس سننے کھڑے رہنا پڑتا ہے۔
تپتی دھوپ میں بیچ چوک احتجاجی مظاہرے کور کرنے پڑتے ہیں اور وہاں پھر سے میں خود کو خود سے کہتے سنتی ہوں ’اگر یہاں گر گئی تو بہت مذاق بنے گا!‘
حقیقت بس یہ ہے کہ اب بچپن رہا ہے اور نہ گھر پہ فون کر کے اطلاع دینے والے ہمدرد۔۔
بچپن میں بھائی سے ریموٹ لینے کی جنگ ہی ٹھیک تھی، اب دنیا سے حق لینے کی جنگ ہے۔ مشکل میں آج بھی ابو کو کال کرتی ہوں، بس فرق یہ ہے کہ اب میری جنگیں وہ نہیں، میں خود لڑتی ہوں۔
بشکریہ انڈیپینڈنٹ اردو۔
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)