میرج لکی سرکس

ایم ابراہیم خان

پاکستانی معاشرے کی حالت اب یہ ہوگئی ہے کہ مل بیٹھنے کا ہر موقع خوشیوں کو ترسے ہوئے لوگوں کے لیے ”ایونٹ‘‘ کی شکل اختیار کرنے میں دیر نہیں لگاتا۔ سچ تو یہ ہے کہ لوگ اس معاملے میں غیر معمولی حد تک موقع فہم اور موقع شناس ہوچکے ہیں۔ جیسے ہی انہیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ کوئی موقع ان کے لیے مسرت کا سامان کرسکتا ہے، وہ کمر کس کر میدان میں آ جاتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ اب تدفین میں شرکت کو بھی اظہارِ غم سے کہیں بڑھ کر مل بیٹھنے کے موقع کی حیثیت سے اہم گردانا جانے لگا ہے!

قوم خوشیوں بھرے لمحات کو ایسی ترسی ہوئی ہے کہ شادی کی تقریبات ”میرج لکی سرکس‘‘ کی سی حیثیت اختیار کرتی محسوس ہوتی ہیں۔ اِس سرکس کے آئٹمز بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔ لوگ رسم و رواج کے نام پر مل بیٹھنے اور انجوائے کرنے کے بہانے ڈھونڈتے ہی نہیں رہتے، اس معاملے میں ایجاد و اختراع کی منزل سے بھی گزر جاتے ہیں۔ ٹیکنالوجی نے ہر معاملے کو انتہا تک پہنچادیا ہے۔ بسا اوقات ذہن یوں الجھ کر رہ جاتا ہے کہ بہت کوشش کرنے پر بھی کسی معاملے کا سِرا مشکل سے ہاتھ آتا ہے۔

بعض اہلِ نظر کی نظر میں شادی اب ”ونس اِن اے لائف ٹائم‘‘ ایونٹ بن چکی ہے۔ لوگ اب شادی کی مرکزی تقریب اور اُس سے جڑی ہوئی چھوٹی تقریبات کے اہتمام میں یہ نکتہ ذہن نشین رکھتے ہیں کہ خوش ہونے کا شاید اب کوئی اور موقع نہ آئے گا! جہاں معمول کی زندگی کے چھوٹے چھوٹے معاملات سے خوشیاں کشید کرنے کا عمل متروک ہوچکا ہو وہاں بالعموم ایسی ہی سوچ پنپتی ہے۔

فی زمانہ سب سے زیادہ زور ہے بجٹ پر یعنی اپنے طور پر یہ بھی طے کرلیا گیا ہے کہ شادی کی تقریبات کو خوشیوں کا اصل رنگ اُسی وقت مل سکے گا جب مال زیادہ خرچ کیا جائے گا۔ مالی سکت نہ ہو تب بھی لوگ ڈھائی تین لاکھ کا میرج ہال بک کرانے سے مجتنب نہیں رہتے۔ کپڑوں اور دیگر اشیا پر بھی سوچے سمجھے بغیر مال لُٹایا جاتا ہے اور اِس معاملے میں اپنے ہی طے کردہ بجٹ کی حدود سے کئی بار تجاوز کو غلط سمجھنے کی زحمت گوارا نہیں کی جاتی۔ آج شادی کی کسی بھی تقریب میں جس موضوع پر سب سے زیادہ گفتگو ہوتی ہے وہ صرف یہ ہے کہ کس نے کیا دیا۔ معاملات مالی مفادات سے شروع ہوکر مالی مفادات پر ختم ہوتے ہیں۔ یہ حقیقت ثانوی حیثیت رکھتی ہے کہ کون کتنے خلوص، جوش و خروش اور احساسِ مسرّت کے ساتھ آیا ہے۔ استحسان کی نظر سے صرف اُنہیں دیکھا جاتا ہے جن کا دیا ہوا تحفہ قیمتی یا لفافہ بھاری ہو۔ طرفہ تماشا ہے کہ سبھی کچھ مادّیت کی چوکھٹ پر قربان کرکے لوگ خوشیاں تلاش کرتے پھرتے ہیں اور پھر اس بات کا رونا بھی روتے ہیں کہ تقدیر میں تو جیسے صرف رنج و غم لکھے ہیں! یہ والی تقدیر تو ہم خود ہی لکھتے ہیں۔

شادی جیسی تقریب کو محض مل بیٹھنے کے موقع کا درجہ دینے کی صورت میں جو کچھ ہوسکتا ہے وہی تو ہو رہا ہے۔ آج آپ کو شادی کی کسی بھی تقریب میں ایسے بہت سے لوگ ملیں گے جو خوش تو دکھائی دے رہے ہوں گے مگر میزبان کے لیے نہیں بلکہ صرف اپنے وجود کے لیے۔ پوری توجہ اپنی ذات پر مرکوز ہوتی ہے۔ لوگ اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ ایک میز تک محدود رہتے ہیں۔ ڈیڑھ دو سال میں ڈھنگ کی ایک آدھ ملاقات کا موقع بھی بخوشی ضائع کر دیا جاتا ہے۔ میزبان کو صرف بڑے بجٹ کے ساتھ چمک دمک دکھانے سے غرض ہے اور مہمانوں کے لیے اپنی خوشی زیادہ اہم ہے۔ گویا دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی..

ہم نے شادی کو رنگا رنگ ایونٹس کا مجموعہ بنا ڈالا ہے۔ اپنے ہاتھوں سے انتظامات کا زمانہ گیا۔ شادیوں کے لیے اب ایونٹ مینجمنٹ فرمز میدان میں ہیں۔ یہ ادارے شادی سے جُڑی ہوئی تمام ہی تقریبات کے انتظامات سنبھالتے ہیں۔ آپ کو تمام انتظامات کی ذمہ داری متعلقہ ادارے پر ڈال کر سکون کے ساتھ ایک طرف بیٹھ رہنا ہے۔ کبھی کبھی شادی کی تقریبات ایسی شکل اختیار کرتی ہیں کہ ایونٹ مینیجمنٹ والے ڈِزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی والی خدمات بھی فراہم کر رہے ہوتے ہیں!

ایک زمانہ تھا کہ شادی کی تقریب کسی بھی گھر کے لیے زندگی بدلنے کا معاملہ ہوا کرتی تھی۔ جس گھر میں شادی ہوتی تھی اُس میں کچھ نہ کچھ تبدیل ہوتا دکھائی دیتا تھا۔ سادگی تمام معاملات کی طرح شادی کی تقریبات کے لیے بھی بنیادی شرط تھی۔ ہلّا گُلّا اور شور شرابہ بھی سادگی سے مزیّن ہو اکرتا تھا۔ لوگ رنگینی بھی کچھ ایسے انداز سے اختیار کرتے تھے کہ اُس کا کوئی بھی جُز بھڑکیلا نہیں ہوتا تھا۔ گئے وقتوں میں جب کسی گلی میں شادی ہوتی تھی تو یہ سوچ لیا جاتا تھا کہ اب کم و بیش پندرہ دن نئے رنگ میں، انوکھے انداز سے گزریں گے۔ اور ہوتا بھی یہی تھا مگر سب کچھ سادگی کے ساتھ ہوتا تھا۔ اور ہاں، بجٹ بنیادی چیز نہیں تھی۔ زیادہ سے زیادہ خرچ کرنے کو اولین ترجیح کا درجہ حاصل نہیں ہوتا تھا۔ شادی کی تقریبات سے بہت پہلے بھی کئی ایک معاملات نمٹائے جاتے تھے۔ شادی کا موقع ایک طرف تو بات چیت بحال کرنے کا ذریعہ ہوا کرتا تھا اور دوسری طرف چند گھرانوں میں بات چیت بند بھی ہو جایا کرتی تھی!

1957ع میں ریلیز ہونے والی فلم ”پاک دامن‘‘ کے لیے محمد رفیع مرحوم نے ایک یادگار گیت گایا تھا ؎ مبارک ہو دولہا دلہن کو یہ شادی،
مِلے دل سے دل، زندگی مسکرادی. سجا سَر پہ جب چاند تاروں کا سہرا،
کوئی جل گیا اور کسی نے دعا دی..
یہ ”کوئی جل گیا اور کسی نے دعا دی‘‘ والا معاملہ شادی کی بعض تقریبات کا مرکزی خیال ہوا کرتا تھا! جس کے گھر میں یا جس کی شادی ہوتی تھی اُس غریب کا اچھا خاصا وقت تو روٹھے ہوؤں کو منانے میں کھپ جاتا تھا! شادی والے گھر میں ایک ماہ، بلکہ اِس سے بھی پہلے سے آنیاں جانیاں شروع ہو جاتی تھیں۔ یہ ایسا تماشا تھا جس سے خاندان والوں کے علاوہ اہلِ محلہ بھی محظوظ ہوا کرتے تھے۔ عام طور پر ”باہر والے‘‘ بات بات پر ٹھنک کر، نخرے دکھا کر شادی والے گھر کی رنگینی میں اضافہ کیا کرتے تھے۔ باہر والے؟ جی ہاں، باہر والے۔ بعض رشتے قدرت نے بنائے ہی اِس لیے ہیں کہ شادی کی دال میں تڑکا لگائیں۔ مثلاً خالو، پھوپھا، بہنوئی، سالا وغیرہ۔ تب فساد کی ایک دلچسپ بنیاد یہ بھی ہوتی تھی کہ دیگ پر کون بیٹھے گا! اس آسمان پر بالعموم پھوپھا کی گڈی اونچی اڑا کرتی تھی۔ زمانہ بدل گیا ہے اور ہم نے دوسرے بہت سے عوامل سے کماحقہ مستفید ہوتے ہوئے اِن ”بیرونی‘‘ یا غیر خونی رشتوں کے ذریعے شادی کی تقریبات میں کامیڈی کا گراف بلند کرنا ترک کردیا ہے! گزرے وقتوں میں شادی کی تقریبات کا بنیادی مقصد مل بیٹھنا اور معاملات کو سلجھانا ہوا کرتا تھا۔ شادی کا گھر واقعی خوشی کا گھر محسوس ہوتا تھا۔ اور اُس گھر کے نصیب میں آنے والی خوشیوں کی خوشبو پڑوس کے گھروں تک پھیلتی تھی۔ بنیادی سوال تحائف کی نوعیت اور قیمت کا نہیں ہوتا تھا بلکہ اولیت خوش ہونے، خوش رہنے کو دی جاتی تھی۔ لوگ ایک دوسرے کی خوشیوں کو اپنانے اور خوشی میں خوش ہونے کو ترجیح دیتے تھے۔ یہی سبب ہے کہ کسی بھی انسان کی زندگی میں اُس کے اپنے رشتہ داروں سے کہیں زیادہ اور بلند مقام پڑوسیوں کا ہوا کرتا تھا۔ شادی کے نتیجے میں قائم ہونے والے نئے رشتے بھی پورے محلے کے لیے ہوا کرتے تھے۔ دوست کے بھائی جان اپنے بھی بھائی جان تو اُس کی بھابھی اپنی بھی بھابھی ہوتی تھی۔ دوست کی بہن کو اپنی بہن سمجھنے کی مناسبت سے اُس کے شوہر بھی محترم ٹھہرتے تھے۔ یہ تب کی بات ہے جب پڑوس کے بزرگ ”انکل‘‘ نہیں، دادا، تایا اور خالو ہوا کرتے تھے۔ کیا زمانے تھے کہ اب تک حافظے کا ”اٹوٹ انگ‘‘ ہیں۔ اُن زمانوں کے پُرخلوص رشتوں اور بے غرض تعلقات کے بارے میں سوچیے تو ذہن کے پردے پر یہی مصرع ابھرتا ہے عخواب تھا جو کچھ کہ دیکھا، جو سُنا افسانہ تھا وہ زمانہ تو اب واپس آنے سے رہا۔ ہاں، اُس کی حسین یادوں کے سہارے جینے کا آپشن ضرور رہ گیا ہے۔ اِسے غنیمت جانیے۔ کون جانے کہ کل کو یہ آپشن بھی نہ رہے!

بشکریہ تجزیہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close