بادشاہت کے عہد میں یہ دستور تھا کہ حکمراں درباری مورخ رکھا کرتے تھے تا کہ اُن کے خاندان کے کارنامے تاریخ کا حصہ بنتے رہیں، لیکن ایسا بھی ہوا ہے کہ جب ایک حکمراں خاندان سیاسی طور پر ختم ہو گیا اور دوسرا حکمراں خاندان اُس کی جگہ اقتدار میں آیا تو اُس نے پہلے والے خاندان کی تعریف کو ضائع کر دیا، اور اُس کے درباری مورخوں نے نئے خاندان کی تعریف لکھی۔ عباسی خاندان جب اقتدار میں آیا تو اُمیہ دور کی تاریخ کو مسخ کیا گیا۔ ہندوستان میں مُغل دور میں شیر شاہ سوری اور سوری خاندانوں کی تاریخ کی اہمیت کم کر دی گئی۔
چین میں یہ دستور تھا کہ حکمراں درباری مورخ رکھتے تھے۔ یہ مورخ واقعات کو حقیقت کے ساتھ لِکھتے تھے اور حکمرانوں کی تعریف نہیں ہوتی تھی، چاہے اُنہیں قتل ہی کیوں نہ کر دیا جائے۔ چین کی اس تاریخ نویسی کو چِنگ خاندان نے مکمل طور پر ختم کر دیا۔ تاریخ کی پُرانی کِتابوں کو جلا دیا گیا تا کہ صرف چِنگ خاندان کی تاریخ رہے، اور رعایا اُس کی وفادار رہے۔
عہدِ ہندوستان میں تاریخ نویسی کی ابتداء عہد سلاطین میں ہوئی اور مُغل دور میں یہ اپنے عروج پر پہنچی۔ اکبر نے مُغل دور کی تاریخ کی تشکیل کے لیے پورا منصوبہ بنایا۔ گلبدن بیگم اور ہمایوں کے دو ملازمین، جوہر آفتابچی اور بایذید سے باہر اور ہمایوں کے عہد کی تاریخیں لکھوائیں۔ ابوالفضل کو تمام ریاستی دستاویزات استعمال کرنے کا حق دیا۔ جن کی بنیاد پر اُس نے اکبر نامہ لکھا، اور اس کی تیسری جلد آئین اکبری میں ریاست کے تمام شعبوں کے انتظامات کے بارے میں مکمل معلومات اکٹھی کیں۔
مُغل دور کی تاریخی دستاویزات پورے ہندوستان میں بِکھری ہوئی ہیں۔ مُغل دربار کے جن ہندوستانی ریاستوں سے معاہدے یا خط و کتابت ہوتی تھی، وہ بھی محفوظ ہیں۔ جیسے اَمبرکی راجپوت ریاست میں مُغل عہد کی بیش قیمت دستاویزات موجود ہیں۔ اس کے علاوہ مقامی ریاستیں بھی اپنی دستاویزات کو محفوظ رکھتیں تھیں۔
برطانوی دورِ حکومت میں ان دستاویزات کی مدد سے ایسٹ انڈیا کمپنی کے منتظمین نے ہندوستان کی تاریخیں لکھیں۔ جن میںMalcolm اور Elphinstone قابل ذکر ہیں۔ جیمز مل کی کتاب ”دی ہسٹری آف برٹش انڈیا” سامراجی نقطہ نظر سے لکھی گئی تھی۔
برطانوی عہد میں ہندوستان کی تاریخی دستاویزات جمع کر کے مختلف شہروں میں مراکز قائم کیے گئے۔ اِن میں سرکاری Record بھی تھا۔ مُختلف لوگوں کے روزنامچے تھے۔ مرکز اور صوبوں کے درمیان ہونے والی خط و کتابت تھی۔ اہم واقعات اور حادثات کی تحقیقی رپورٹیں تھیں۔ اس کے علاوہ ایسٹ انڈیا کمپنی اور لندن کے درمیان ہونے والی خط و کتابت تھی۔ خفیہ ایجنسی کی رپورٹیں اور مقامی ریاستوں کے بارے میں برطانوی حکومت کے ریزیڈنٹ کی خفیہ رپورٹیں تھیں۔ ایک وقت تک اس مواد کو مورخوں کی پہنچ سے دور رکھا گیا تا کہ برطانوی حکومت کی پالیسیوں کے بارے میں عام لوگوں کو پتہ نہ چلے۔
ہندوستان کی آزادی کے وقت برطانوی عہدیدار اہم دستاویزات کو اپنے ساتھ لے گئے۔ جہاں یہ برٹش لائبریری، کامن ویلتھ لائبریری اور کئی دوسرےآرکائیوز کے سینٹرز میں ہیں۔ ان میں سے بھی کئی دستاویزات کو کلاسیفائیڈ قرار دے کر مورخوں کو دکھایا جاتا۔
برصغیر کی تقسم کے بعد پاکستان میں صوبائی آرکائیو سینٹر اور اسلام آباد میں نیشنل آرکائیو سینٹر قائم کیا گیا۔ اسلام آباد میں نیشنل ڈاکومینٹیشن سینٹر بھی ہے، جس کے پاس اہم نادرِ دستاویزات ہیں۔
اِن میں سب سے پرانا آرکائیو سینٹر پنجاب کا ہے۔ جس کی کوئی باقاعدہ عمارت نہیں ہے بلکہ تمام ڈاکومینٹیشن کو انارکلی کے مقبرے میں رکھا گیا ہے۔ جہاں یہ گردوغبار اور جگہ کی کمی کے باعث خستہ حالت میں ہیں۔ اِس سینٹر میں خاص طور پر سکھ تاریخ اور برطانوی عہد کی تاریخ کے بیش قیمت دستاویزات ہیں۔ لیکن ان دستاویزات کی فہرست بندی نہ ہونے کی وجہ سے ان کو تلاش کرنا مشکل ہوتا ہے۔ یہاں پر اس سینٹر کا ایک ڈائریکٹر ہوتا ہے۔ لیکن اکثر اس عہدے پر تعینات افراد کو اس سینٹر سے کوئی دلچسی نہیں ہوتی اور وہ جلد سے جلد کسی دوسرے شعبے میں جانا چاہتے ہیں۔ اس بات کی کوئی کوشش نہیں کی گئی کہ تعلیمی اداروں میں اس نوعیت کے مراکز کو متعارف کرایا جائے اور یہ بتایا جائے کہ ان کے پاس کون کون سے کاغذات ہیں۔ غیر ملکی اسکارلز اس سینٹر سے فائدہ اٹھاتے رہے ہیں لیکن پاکستانی اسکالرز نے اس خزانے سے بہت کم حاصل کیا ہے۔
دوسرا اہم سینٹر سندھ میں قائم ہے۔ اس کی اپنی عمارت ہے اور اس کی دستاویزات کو بھی مختلف مضامین کے تحت علیحدہ کر کے ترتیب دیا گیا ہے۔ بلوچستان کا سینٹر بھی کافی منظم ہے۔ خیبرپختونخوا کے سینٹر کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں ہیں۔ لیکن ان تمام سینٹرز میں 1947ء کے بعد کا ریکارڈ نہیں ہے۔ یعنی عدلیہ، انتظامیہ، پولیس اور جیل کا ریکارڈ ان سینٹرز کو نہیں دیا گیا ہے۔ سندھ میں ریونیو ریکارڈ کو بوریوں میں بھر کر رکھا گیا ہے۔
تاریخی دستاویزات، جن میں نجی افراد کے کاغذات بھی شامل ہوتے ہیں، ان کی اہمیت یہ ہے کہ یہ تاریخ کے ایسے گوشوں کو نمایاں کرتے ہیں، جنھیں یا تو لوگ بھول چکے ہوتے ہیں یا ان کو تاریخ سے غائب کر دیا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ خفیہ ایجنسیوں اور پولیس کی تحقیقاتی رپورٹیں اس لیے اہم ہوتیں ہیں کہ یہ نہ صرف مجرموں کے جرائم کی تحقیق کرتیں ہیں بلکہ سیاسی کارکنوں کو اذیتیں دینے کا فریضہ بھی ان کے سپرد ہوتا ہے۔ اس لیے تاریخ نویسی میں جب تک بنیادی اور اہم افراد کی تحریر کردہ نجی دستاویزات جیسے زائی ڈائریوں پر مشتمل دستاویزات کو استعمال نہیں کیا جاتا کسی بھی عہد کی مکمل تاریخ سامنے نہیں آسکتی۔
بشکریہ: ڈی ڈبلیو اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)
یہ بھی پڑھیں: