اسٹیفن آر کووے کے نزدیک شخصیت اور کردار کا فرق اور پُر اثر لوگوں کی سات عادات

امر گل

عالمی شہرت یافتہ موٹیویشنل مصنف، ماہرِ تعلیم اور بزنس مین اسٹیفن رچرڈ کووے کی کتاب ’پُر اثر لوگوں کی سات عادات‘ (The 7 Habits of Highly Effective People) ایک انتہائی منفرد، مؤثر اور مقبول کتاب ہے، جو ذاتی اور پیشہ ورانہ ترقی کے موضوع پر لکھی گئی ہے۔ 1989 میں پہلی بار شائع ہونے والی اس کتاب نے دنیا بھر میں لاکھوں لوگوں کی زندگیوں پر مثبت اثرات مرتب کیے ہیں۔

اس کتاب کا بنیادی مقصد قارئین کو ان کی زندگی میں مثبت تبدیلی لانے کے لئے رہنمائی فراہم کرنا ہے۔ کووے نے اس کتاب میں انسانی کردار کی تشکیل اور کامیاب زندگی گزارنے کے اصولوں کو سات عادات کی صورت میں پیش کیا ہے۔ یہ عادات قارئین کو اس بات کی ترغیب دیتی ہیں کہ وہ اپنی زندگی میں مزید مثبت، مقصدیت پر مبنی، اور موثر فیصلے کریں۔

ان عادات کا ذکر ہم آگے چل کر کریں گے لیکن آئیے پہلے اس کی اہمیت اور مؤثریت پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

موٹیویشنل فکشن میں یہ کتاب ایک بنیادی ستون کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کی اہمیت اس بات میں ہے کہ یہ لوگوں کو عملی رہنمائی فراہم کرتی ہے تاکہ وہ اپنے اہداف تک پہنچ سکیں۔ کووے کی یہ کتاب صرف خیالات کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ عملی اقدامات اور مشقوں کے ذریعے قاری کو اپنی عادات اور رویوں میں تبدیلی لانے پر آمادہ کرتی ہے۔

کتاب کی مقبولیت اور مؤثریت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ عالمی سطح پر بیسٹ سیلر ہونے کے ساتھ اب تک کم از کم پچھتر ممالک میں چالیس سے زائد زبانوں میں ترجمہ ہو کر اس کی ڈھائی کروڑ پچاس سے زیادہ کاپیاں فروخت ہوچکی ہیں۔ اس نے نہ صرف افراد کی زندگیوں میں مثبت تبدیلیاں لائی ہیں بلکہ کارپوریٹ اور تعلیمی اداروں میں بھی اس کی تعلیمات کو سراہا گیا ہے۔

اسٹیفن آر کووے کی کتاب موٹیویشنل فکشن میں ایک منفرد مقام رکھتی ہے۔ ڈیل کارنیگی کے فلسفے کے برعکس، اسٹیفن کووے اس بات پر زور دیتے ہیں کہ حقیقی کامیابی کا آغاز اندرونی تبدیلی سے ہوتا ہے، جو عادات، اقدار اور اصولوں کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ کووے کے مطابق، خود کی بہتری کے بغیر بیرونی کامیابی ممکن نہیں۔

کووے روایتی کامیابی کے تصور کو چیلنج کرتے ہیں اور اس کے بجائے کردار کی مضبوطی، اصولوں پر مبنی زندگی اور دوسروں کے ساتھ بامعنی تعلقات پر زور دیتے ہیں۔

یہ کتاب نہ صرف نظریاتی ہے بلکہ عملی راہنمائی بھی فراہم کرتی ہے، جس میں مرحلہ وار ہدایات اور مثالیں شامل ہیں جو قارئین کو اپنی زندگی میں حقیقی تبدیلی لانے میں مدد دیتی ہیں۔

کووے نے ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا، بلکہ انہیں ایک جامع نقطہ نظر کے تحت دیکھا۔ وہ یہ باور کراتے ہیں کہ کامیابی کا مطلب صرف مالی یا پیشہ ورانہ کامیابی نہیں بلکہ ذاتی خوشی، معنویت، اور دوسروں کے ساتھ ہم آہنگ تعلقات بھی ہیں۔

اسٹیفن کووے کے نزدیک شخصیت اور کردار میں فرق

اسٹیفن آر کووے اپنی کتاب میں شخصیت (Personality) اور کردار (Character) کے مابین ایک گہرا اور اہم فرق بیان کرتے ہیں۔ ان کے مطابق، یہ فرق اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ ایک شخص کی کامیابی اور موثر ہونے کی بنیاد کس چیز پر ہے۔

●شخصیت (Personality) کا تصور:
کووے کے مطابق، شخصیت وہ سطحی چیز ہے جو لوگوں کے سامنے ظاہر ہوتی ہے۔ یہ عام طور پر ان چیزوں پر مشتمل ہوتی ہے جو آپ دوسروں کے سامنے پیش کرتے ہیں، جیسے کہ آپ کا رویہ، آپ کا اندازِ بیان، آپ کی خود اعتمادی، اور آپ کا لوگوں سے ملنے کا طریقہ۔

شخصیت کی تہذیب بیسویں صدی کے دوران بہت زیادہ اہمیت حاصل کر گئی تھی، جب لوگوں کو کامیابی کے لیے اپنی شخصیت کو بہتر بنانے کی ترغیب دی گئی۔

شخصیت کے فلسفے میں کامیابی کے لیے خاص تکنیکیں اور حکمت عملی اپنانے پر زور دیا جاتا ہے، جیسے کہ مثبت سوچ، متاثر کرنے کے طریقے، یا برتاؤ میں اصلاحات۔ اس میں اکثر لوگوں کو یہ سکھایا جاتا ہے کہ وہ اپنی ظاہر ہونے والی عادات کو کیسے بہتر بنا سکتے ہیں تاکہ وہ دوسروں پر اچھا اثر ڈال سکیں۔

● کردار (Character) کا تصور:
اس کے برعکس، کووے کردار کو ایک انسان کی اصل اور اندرونی خصوصیات سے تعبیر کرتے ہیں۔ کردار وہ بنیادی اور اصولی چیز ہے جو انسان کی شخصیت کی بنیاد بنتی ہے۔ یہ وہ صفات ہیں جو ایک انسان کے اندر موجود ہوتی ہیں، جیسے کہ ایمانداری، دیانت، وفاداری، صبر، محنت، اور خود احتسابی۔

اسٹیفن کووے کے نزدیک کردار وہ چیز ہے جو کسی شخص کی مستقل کامیابی کی بنیاد بنتی ہے۔ ان کے مطابق، حقیقی اور پائیدار کامیابی حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان اپنے کردار کی تعمیر پر توجہ دے، بجائے اس کے کہ وہ صرف اپنی شخصیت کو بہتر بنانے کی کوشش کرے۔ کردار کے مضبوط ہونے کی وجہ سے انسان کو اصولی اور اخلاقی فیصلے کرنے کی صلاحیت حاصل ہوتی ہے۔

آسان الفاظ میں بات کی جائے تو کووے کا ماننا ہے کہ ہمیں اچھا ہونے کا دکھاوا کرنے کی بجائے، اچھا بننا چاہیے۔

●شخصیت اور کردار کا باہمی تعلق:
کووے یہ بھی وضاحت کرتے ہیں کہ شخصیت کی ترقی کو کردار کی ترقی کے بغیر کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی۔ اگرچہ شخصیت کی تکنیکیں وقتی طور پر لوگوں پر اثر ڈال سکتی ہیں، لیکن اگر کسی شخص کا کردار مضبوط نہیں ہے تو وہ حقیقی اور طویل المدتی کامیابی حاصل نہیں کر سکتا۔

مثال کے طور پر: اگر کوئی شخص، شخصیت کی تکنیکیں سیکھ کر لوگوں کو متاثر کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے لیکن اگر اس کے کردار میں ایمانداری یا دیانت داری کی کمی ہے، تو جلد یا بدیر اس کی حقیقت ظاہر ہو جائے گی اور وہ اپنی ساکھ کھو بیٹھے گا۔

کووے کے نزدیک، کامیابی کی اصل بنیاد کردار کی تعمیر پر استوار ہوتی ہے، جبکہ شخصیت کی ترقی بھی اہم ہے، لیکن یہ کردار کی مضبوطی پر منحصر ہے۔ وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ حقیقی اور موثر انسان وہی ہے جو اپنے کردار کو مضبوط کرے اور اس کے ساتھ ساتھ اپنی شخصیت کو بھی بہتر بنائے۔

اس طرح، کووے نے اپنی کتاب میں کردار کو بنیادی اور شخصیت کو ثانوی حیثیت دی ہے، اور کامیاب اور موثر زندگی کے لیے کردار کی اہمیت پر زور دیا ہے۔

اسٹیفن آر کووے کے نزدیک پُراثر لوگوں کی سات عادات

اسٹیفن کووے نے اپنی کتاب میں سات عادات کا ذکر کیا ہے جو کہ زندگی میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے انتہائی اہم ہیں۔ یہ عادات فرد کی ذاتی ترقی، تعلقات، اور پیشہ ورانہ کامیابی میں بہت مددگار ثابت ہوتی ہیں۔ آئیے ان عادات کو تفصیل سے دیکھتے ہیں:

● 1. پرو ایکٹو Proactive بنیں:
گو کہ لفظ Proactive آج کل تنظیمی ادب (Management Literature) میں کافی استعمال ہوتا ہے لیکن اگر آپ اسے لغت میں ڈھونڈیں تو بہت سی لغات میں اسے نہیں پائیں گے۔

اس کا مطلب ’پیشگی قدم اٹھانے‘ سے کچھ بڑھ کر ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ بحیثیت انسان ہم خود اپنی زندگیوں کے ذمہ دار ہیں۔ ہمارے رویئے ہمارے فیصلوں کا نتیجہ ہوتے ہیں نا کہ صرف ہمارے حالات کا۔ ہم اپنے محسوسات کو اپنی اقدار کا تابع کر سکتے ہیں۔ ہم میں ’قدم اٹھانے‘ کی صلاحیت ہے اور چیزوں کو ممکن بنانے کی ذمہ داری ہے۔

ہم اپنے رویے کے چناؤ میں آزاد ہیں اور اس کے خود ذمہ دار ہیں۔ پرو ایکٹو لوگ اس ذمہ داری کو بڑے اچھے طریقے سے سمجھتے ہیں۔ وہ حالات و واقعات، ماحول اور اپنے رویوں کی تربیت پر الزام نہیں دھرتے ۔ ان کے رویے ان کے اپنے شعوری چناؤ کا نتیجہ ہوتے ہیں اور ان کی بنیاد میں اقدار موجود ہوتی ہیں۔ ان کے رویے ان کے محسوسات کا رد عمل نہیں ہوتے اور نہ ہی وہ حالات کی پیداوار ہوتے ہیں۔

ہم فطرتاً Proactive ہیں۔ اگر ہماری زندگیاں محض ہمارے حالات اور تربیت کا نتیجہ نظر آتی ہیں تو یہ اس لیے ہے کہ ہم نے اپنے شعوری فیصلے کے ذریعے اور یا پھر لاشعوری طور پر ان چیزوں کو اپنے سے زیادہ طاقتور مان رکھا ہے اور یہ چیزیں اب ہمیں کنٹرول کرتی ہیں۔ ایسا فیصلہ کرتے ہوئے ہم رد عملی کا مظہر بن جاتے ہیں۔ رد عملی کے مظہر لوگ اپنے طبعی ماحول سے بہت متاثر ہوتے ہیں۔ اگر موسم اچھا ہو تو وہ اچھا محسوس کرنے لگتے ہیں اور اگر یہ اچھا نہیں تو پھر ان کا رویہ اور کارکردگی دونوں متاثر ہوتے ہیں۔ Proactive لوگ اپنے موسم اپنے ساتھ رکھنے پر قادر ہوتے ہیں۔ بارش ہو یا دھوپ، ان کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ان کے رویوں کو ان کی اقدار چلاتی ہیں اور اقدار پر مبنی رویہ موسم کا مرہون منت نہیں ہوتا۔

ہر بات پر رد عمل کا مظاہرہ کرنے والے لوگ اپنے سماجی ماحول سے بھی بہت متاثر ہوتے ہیں۔ ’سماجی موسم‘ بھی ان پر بہت اثر انداز ہوتا ہے۔ جب لوگ ان سے اچھے طریقے سے ملیں تو وہ خوش ہو جاتے ہیں اور اگر کوئی انہیں اچھے طریقے سے نہ ملے تو وہ فوراً مدافعتی رویہ اختیار کر لیتے ہیں اور تحفظ ڈھونڈنے لگتے ہیں۔ رد عملی لوگ اپنی جذباتی زندگیاں دوسروں کے رویوں کی بنیاد پر کھڑی کرتے ہیں اور دوسروں کی کمزوریوں کو اس قدر طاقت بخش دیتے ہیں کہ وہ انہیں ہی کنٹرول کرنے لگتے ہیں۔

خواہش کو اپنی اقدار کے تابع کرنے کی اہلیت Proactive لوگوں کی شخصیت کا ذہنی نچوڑ ہوتی ہے جبکہ رد عملی لوگ اپنے محسوسات، اپنے حالات اور اپنے ماحول پر چلتے ہیں۔ Proactive لوگ محتاط طریقے سے سوچی ہوئی، چنی ہوئی اور اپنے اندر اتاری ہوئی اقدار پر چلتے ہیں۔

کووے کے مطابق پرو ایکٹو Proactive لوگ بھی بیرونی محرکات: طبعی، سماجی اور نفسیاتی، سے متاثر تو ہوتے ہیں لیکن ان محرکات پر ان کا رد عمل، شعوری یا غیر شعوری اقدار پر مبنی رد عمل کے چناؤ پر ہوتا ہے

جیسے کہ ایلینز روزویلٹ (Eleanor Roosevelt) کا مشاہدہ ہے کہ ’’کوئی آپ کو آپ کی اجازت کے بغیر تکلیف نہیں پہنچا سکتا۔‘‘ ہمارے ساتھ جو کچھ بھی ہوتا ہے، وہ ہماری اجازت اور رضامندی سے ہوتا ہے اور یہ حقیقت ہمیں سب سے زیادہ تکلیف پہنچاتی ہے ، نسبتاً اصل تکلیف کے۔

اسٹیفن کووے اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ جذباتی سطح پر اس حقیقت کو ماننا بڑا مشکل کام ہے۔ خاص طور پر جب سالہا سال سے ہم اپنی تکلیفوں کی وجہ اپنے حالات یا دوسروں کا اپنے ساتھ سلوک سمجھتے رہے ہوں، لیکن جب تک انسان پوری گہرائی اور صدق دل سے یہ اقرار نہیں کرتا کہ ” آج میں جو کچھ بھی ہوں، یہ دراصل میرے ہی گزشتہ کل کیے ہوئے فیصلوں کا نتیجہ ہے۔”

اس وقت تک انسان یہ نہیں کہہ سکتا کہ ”اب میں مختلف فیصلے کروں گا۔“

پرو ایکٹو بننے یا قدم اٹھانے کا مطلب دھونس جمانا، لوگوں پر پریشر ڈالنا یا دوسروں کے لیے ایک مصیبت بن جانا ہر گز نہیں۔ اس کا مطلب ہے، اپنی چیزوں کو ممکن بنانے اور کر گزرنے کی ذمّہ داری کا بھرپور احساس ہونا

اس کا خلاصہ یہ ہے کہ پروایکٹو ہونا ایک اہم عادت ہے جس میں فرد اپنی زندگی کے معاملات اور حالات کا ذمہ دار خود ہوتا ہے۔ اس عادت کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنی زندگی میں آنے والے حالات کا ردعمل دینے کے بجائے، خود اپنی زندگی کے فیصلے کرتے ہیں اور اپنے اعمال کے ذریعے ان پر اثر انداز ہوتے ہیں۔

● 2۔ آخری انجام کو مد نظر رکھتے ہوئے کام کریں

اس عادت کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو اپنی زندگی کے ہر فیصلے اور عمل میں اپنے آخری مقصد کو ذہن میں رکھنا چاہیے۔ یہ عادت فرد کو اپنی زندگی کی سمت کا تعین کرنے میں مدد دیتی ہے اور اسے غیر اہم یا غیر ضروری چیزوں سے بچاتی ہے۔

یوں تو عادت نمبر 2 کا زندگی کے مختلف حالات اور منازل پر اطلاق ہوتا ہے لیکن ’انجام کو ذہن میں رکھ کر شروع کریں‘ کا بنیادی اور بہترین استعمال یہ ہے کہ اپنے آج کو اس تصور اور زاویہ نظر کے ساتھ شروع کریں کہ آپ کے سامنے اپنی زندگی کا اخیر رہے اور یہی ہمیشہ آپ کے مد نظر رہے اور اسی معیار کو سامنے رکھتے ہوئے آپ زندگی کی ہر چیز کو پرکھیں۔ زندگی کے ہر پہلو، آپ کا آج کا رویہ کل کا رویہ، اگلے ہفتے میں آپ کا رویہ یا اگلے مہینے میں آپ کا رویہ، ان سب کی پرکھ تمام تر زندگی کے حوالے سے کی جانی چاہیے یا دوسرے لفظوں میں یہ سب آپ کی اپنی سوچ میں رہے تو آپ اس بات کو یقینی بنا سکتے ہیں کہ آپ کسی بھی دن جو کچھ بھی کریں گے، وہ آپ کے اپنے بنائے ہوئے اعلیٰ معیار کے خلاف نہیں ہوگا اور آپ کا ہر دن ایک بامعنی انداز میں آپ کے اپنی زندگی کے بارے میں معیار اور اس کے مجموعی تصور کو مزید تقویت بخشے گا۔

اکثر لوگ اپنی حاصل کردہ کامیابیوں کو اندر سے خالی پاتے ہیں، انہیں اچانک احساس ہوتا ہے کہ یہ تمام کامیابیاں ان چیزوں سے کہیں چھوٹی ہیں جن کی قیمت پر انہیں حاصل کیا گیا ہے۔ زندگی کے ہر شعبے سے لوگ، ڈاکٹر، ماہر تعلیم، ایکٹر، سیاست دان، کاروباری لوگ، کھلاڑی، مزدور، تمام زندگی، مزید آمدن، شہرت اور مہارت کے حصول کی کوشش میں گزار دیتے ہیں اور آخر میں انہیں پتا چلتا ہے کہ ان کی اس تمام جدوجہد نے انہیں ان چیزوں کی طرف سے اندھا کر دیا تھا کہ جو زندگی میں دراصل کہیں زیادہ اہم تھیں اور اب کہیں کھو چکی تھیں۔

زندگی کس قدر مختلف ہو سکتی ہے اگر ہمیں یہ گہرا شعور نصیب رہے کہ ہمارے لیے کیا زیادہ اہم ہے اور اس آگہی کے ساتھ پھر ہم اپنے ہر دن کو گزاریں۔ ویسے ہی رہیں کہ جیسے ہمیں رہنا چاہیے اور وہی کریں کہ جو ہمارے لیے زیادہ اہم ہے۔

ہم بھلے بہت مصروف ہوں، بہت مستعد ہوں لیکن ہم صحیح معنوں میں پر اثر صرف اسی صورت میں بن سکتے ہیں کہ جب ہم آخر کو ذہن میں رکھ کر شروع کریں۔ اگر آپ محتاط طریقے سے غور کریں گے کہ آپ حقیقتاً اپنی آخری رسومات کے دوران لوگوں کے منہ سے اپنے بارے میں کیا سننا چاہیں گے تو پھر آپ کو اپنی کامیابی کی تعریف مل جائے گی اور یہ ممکن ہے کہ یہ تعریف آپ کے ذہن میں اس سے پہلے موجود تعریف سے مختلف ہو۔ ہماری تمام جدوجہد کے مطمع ہائے نظر یعنی شہرت، کامیابی، دولت اور ایسی ہی دوسری چیزیں شاید صحیح دیوار کا حصہ بھی نہ نکلیں۔

جب آپ آخر کو ذہن میں رکھ کر شروع کرتے ہیں تو آپ کی سوچ کا انداز ہی مختلف ہوتا ہے۔ ایک شخص نے دوسرے سے ایک باہمی دوست کے جنازے پر پوچھا: ”اس نے کیا چھوڑا ہے؟“ تو پہلے دوست نے جواباً کہا: ”اس نے سب کچھ چھوڑ دیا ہے۔“

● 3. اہم ترین چیزوں کو پہلے کریں:

عادت نمبر 3 دراصل عادت نمبر 1 اور عادت نمبر 2 کا ذاتی پھل ہے۔

عادت نمبر 1 کہتی ہے کہ کنٹرول آپ ہی کے پاس ہے۔ اس کی بنیاد چار انسانی منفرد اثاثوں پر ہے یعنی تخیل، ضمیر، خود مختار خواہش اور خاص طور پر خود آگہی ۔ یہ آپ کو طاقت بخشتی ہے کہ آپ کہہ سکیں ‘مجھے بچپن سے میرے معاشرتی آئینے نے جو پروگرام دیا ہے وہ غیر صحت مند ہے۔ میں اس غیر موثر تحریر کو پسند نہیں کرتا اور میں اسے تبدیل کر سکتا ہوں۔‘

عادت نمبر 2 پہلی یا ذہنی تخلیق سے متعلق ہے۔ اس کی بنیاد ’تخیل‘ پر کھڑی ہے۔ تخیل کہ جس کی بدولت ہم تصور کی آنکھ پیدا کر سکتے ہیں اور جس کی بدولت ہم اپنی صلاحیت دیکھ سکتے اور ذہنی طور پر وہ کچھ تخلیق کر سکتے ہیں کہ جسے ہم حال میں اپنی آنکھوں سے دیکھ نہیں سکتے اور پھر ضمیر ہے کہ جس کی وجہ سے ہم اپنی انفرادیت کا شعور حاصل کرتے ہیں اور ذاتی اور اخلاقی رہنمائی حاصل کرتے ہیں اور جن کے اندر رہتے ہوئے ہم اسے کام میں لا سکتے ہیں۔

عادت نمبر 3 دوسری یا طبعی تخلیق سے متعلق ہے۔ یہ عادت نمبر 1 اور 2 کو عمل میں لاتی ہے اور ان کا قدرتی ثمر ہے۔ یہ ’خود مختار خواہش‘ کے اصولوں پر مبنی مرکز پر عمل ہے۔ اور روز مرہ زندگی میں لمحہ بہ لمحہ اس پر کام کرنے کا نام ہے۔ عادت نمبر 3 پر عمل کرنے کے لیے عادت نمبر 1 اور 2 پر عمل ضروری شرط ہے۔

اصولوں پر مرکزیت قائم کرنے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ نظر پیدا کریں کہ جس کے موجب ہمیں یہ احساس مل سکے کہ ہم زندگی کو کیا دے سکتے ہیں جو کہ صرف ہم ہی دے سکتے ہیں۔

اور اگر یہ بنیاد فراہم ہو جائے تو پھر اصولوں کو اپنا مرکز بنا سکتے ہیں۔ روزانہ اور لمحہ بہ لمحہ اور یہ عادت نمبر 3 پر عمل کرنے سے ممکن ہوتا ہے۔

عادت نمبر 3 ہمیں ذاتی تنظیم کو پُر اثر طریقے سے عمل میں لانا سکھاتی ہے۔ یہ عادت وقت کے مؤثر استعمال اور ترجیحات کے تعین کے بارے میں ہے۔ کووے اس عادت میں یہ سمجھاتے ہیں کہ ہمیں اپنی زندگی میں ان چیزوں کو پہلے کرنا چاہیے جو سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہیں، بجائے اس کے کہ ہم فوری ضروریات کو ترجیح دیں۔

● 4۔ جیت کے لیے ’اجتماعی فتح‘ Win-Win کی سوچ اپنائیں:

یہ عادت تعلقات کے معاملے میں جیت کے اصول کو اپنانے کے بارے میں ہے۔ کووے کہتے ہیں کہ ہمیں ایسے مواقع پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے جن میں تمام افراد کو فائدہ ہو۔ یہ عادت کامیاب تعلقات اور مؤثر ٹیم ورک کے لیے ضروری ہے۔

’جيت/جيت‘ Win-Win دل اور دماغ کی ایک کیفیت یا سوچ کا ایک انداز ہے جو ہر انسانی تعلق میں باہمی فائدے کی تلاش میں رہتا ہے۔ جیت/جیت کا مطلب یہ ہے کہ معاہدے یا مسئلوں کے حل اپنے اندر باہمی فائدے اور اطمینان لیے ہوں۔ تمام متعلقہ لوگ فیصلے کے بارے میں اچھا محسوس کریں اور طے ہو جانے والی چیزوں کو اپنی ذمہ داری سمجھیں۔ جیت/ جیت زندگی کو تعاون کے حوالے سے دیکھتی ہے، مقابلہ کی نظر سے نہیں۔ زیادہ لوگ چیزوں کو قطعیت کے انداز میں دیکھتے ہیں: طاقتور یا کمزور، سخت یا نرم جیت یا ہار ۔ لیکن اس قسم کی سوچ بنیادی طور پر کمزور ہوتی ہے، اصول کی بجائے طاقت اور رتبے کی بنیاد پر کھڑی ہوتی ہے ۔ جیت/جیت کے زاویہ نظر کی بنیاد اس بات پر ہوتی ہے سب کے لیے بہت کچھ میسر ہے کہ ایک بندے کی جیت کا مطلب دوسروں کی محرومی نہیں ہوتا یا یہ کہ ایک بندے کی جیت دوسروں کے ہار جانے پر منحصر نہیں ہوتی۔

جیت / جیت کا نظریہ ایک تیسرے حل کا نظریہ ہے۔ یہ تمہارا یا میرا طریقہ نہیں، یہ بہتر طریقہ ہے اور ایک اعلیٰ طریقہ ہے۔

کووے ذاتی یا انفرادی جیت کے لیے ’خود انحصاری‘ اور اجتماعی فتح کے لیے ’باہمی انحصار‘ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم ذاتی جیت کے بغیر اجتماعی فتح نہیں حاصل کر سکتے۔ یعنی ہمیں دوسروں کے لیے کارآمد بننے کے لیے پہلے خود کامیاب ہونا پڑے گا۔ دوسرے الفاظ میں، ذاتی جیت کا مطمع نظر اجتماعی فتح ہونا چاہیے، محض اپنی ذات نہیں۔۔ یعنی ہمیں اس لیے جیت کی خواہش نہیں رکھنی چاہیے کہ دوسروں کو ہرانا ہے، بلکہ اپنی جیت کو دوسروں کی بھی فتح بنانا ہے۔

● 5۔ پہلے دوسروں کو سمجھیں، پھر اپنی بات سمجھائیں

آپ فرض کریں کہ آپ کو آنکھوں کی کوئی تکلیف ہو گئی ہے، جس سے آپ کی بینائی میں فرق پڑ گیا ہے اور آپ کسی ماہر عینک ساز کے پاس جاتے ہیں۔ آپ کی شکایت مختصر طور پر سننے کے بعد وہ اپنی عینک اتارتا ہے اور آپ کو تھما دیتا ہے۔

”اسے پہن لو“ وہ کہتا ہے ”میں نے یہ عینک دس سال تک پہنی ہے اور مجھے اس سے بہت فائدہ ہے۔ میرے پاس ایک فالتو عینک گھر پہ پڑی ہے، تم یہ پہن سکتے ہو۔“

لہٰذا آپ یہ عینک پہن لیتے ہیں، لیکن بینائی پہلے سے بھی خراب ہو جاتی ہے۔ ”یہ کیا بکواس ہے؟ آپ چیختے ہیں ”مجھے کوئی چیز نظر نہیں آرہی۔“

”بھئی کیا مسئلہ ہے؟“ وہ کہتا ہے ”مجھے تو اس سے بالکل صاف نظر آتا ہے۔ پھر کوشش کرو۔“

”میں کوشش کر رہا ہوں۔“ آپ اصرار کرتے ہیں ”لیکن ہر چیز دھندلی ہے۔“

”یار، آپ کے ساتھ کیا مسئلہ ہے؟ آپ مثبت انداز میں سوچیں۔“

”ٹھیک ہے، لیکن مثبت بات یہ ہے کہ مجھے کچھ نظر نہیں آ رہا۔“

”لڑکے تم بہت ناشکر گزار ہو۔۔“ وہ افسوس کے انداز میں کہتا ہے ”حالانکہ میں نے تو تمہاری مدد کی بہت کوشش کی ہے۔“

اس بات کا کتنا امکان ہے کہ اگلی مرتبہ جب آپ کو آنکھوں کی تکلیف ہو تو آپ اس عینک ساز کے پاس جائیں گے؟ میرے خیال میں کوئی امکان نہیں۔ آپ کسی ایسے انسان پر اعتماد نہیں کر سکتے جو تشخیص کرنے سے پہلے ہی علاج تجویز کر دے۔

لیکن ابلاغ کے دوران ہم کتنی مرتبہ علاج تجویز کرنے سے پہلے تشخیص کرتے ہیں، اس لیے پہلے دوسروں کو سمجھیں، پھر اپنی بات سمجھائیں۔۔ اس بنیادی اصول کو اپنی عادت بنائیں۔

اس عادت کا مطلب ہے کہ ہمیں سب سے پہلے دوسرے افراد کی بات سننی اور سمجھنی چاہیے، پھر اپنی رائے کا اظہار کرنا چاہیے۔ یہ عادت دوسروں کے ساتھ بہتر تعلقات بنانے اور مؤثر ابلاغ کے لیے اہم ہے۔

● 6۔ تخلیقی تعاون: مل کر کام کریں

مل کر کام کرنا یا اتحادِ عمل زندگی کا سب سے اعلیٰ کام ہے اور باقی تمام عادات کے مجموعے کا اظہار بھی ہے اور اس کا امتحان بھی۔

مل کر کام کرنے کی اعلیٰ ترین شکلیں انسان کے چاروں منفرد اثاثوں کو مرکز بناتی ہیں، یہ جیت/جیت کا مقصد ہوتی ہیں اور زندگی کے مشکل ترین چیلنجوں میں ہم احساسی پر مبنی ابلاغ کی مہارت ہوتی ہیں۔ اس کے نتائج معجزانہ نوعیت کے ہوتے ہیں، ہم نئے متبادلات تخلیق کرتے ہیں۔ ایسے متبادلات، جن کا پہلے کوئی وجود ہی نہیں ہوتا۔

اصولوں پر مبنی لیڈر شپ کا نچوڑ اتحادِ عمل ہے۔ یہ لوگوں میں پنہاں بے پناہ طاقت کو سامنے لاتا ہے اور انہیں آپس میں مجتمع کرتا ہے۔ ہم نے ابھی تک جتنی بھی عادتیں پڑھی ہیں ان سب نے اتحاد عمل کے معجزے کی تخلیق کے لیے ہمیں تیار کیا ہے۔

کووے کے مطابق ‘مل کر کام کرنے (Synergize) کا مطلب یہ ہے کہ مختلف لوگوں کی مختلف قوتوں کو یکجا کر کے ایک بہتر نتیجہ حاصل کیا جائے۔ اس عادت کا مقصد ٹیم ورک اور تعاون کو فروغ دینا ہے، جس کے نتیجے میں تمام افراد کا مشترکہ کام انفرادی کاموں سے بہتر ہوتا ہے۔

● 7۔ کلہاڑی کو تیز کریں

تصور کریں کہ جنگل میں آپ کسی شخص کو دیکھتے ہیں کہ جو بڑی تندی سے ایک درخت کاٹنے میں مصروف ہے۔

”کیا کر رہے ہو بھئی؟“ آپ پوچھتے ہیں۔

”تم دیکھ نہیں رہے؟ میں درخت کاٹ رہا ہوں۔“ ایک بے صبری آواز میں جواب آتا ہے۔

”تم بہت تھکے ہوئے لگتے ہو.“ آپ کہتے ہو ”کتنی دیر سے یہ کام کر رہے ہو؟“

”پانچ گھنٹے ہو گئے ہیں۔“ وہ جواباً کہتا ہے ”اور میرا حشر ہو چکا ہے! یہ بہت سخت کام ہے۔“

”اچھا تم چند منٹ کے لیے رک کیوں نہیں جاتے اور اپنی کلہاڑی کی دھار تیز کیوں نہیں کر لیتے؟“ آپ پوچھتے ہیں۔

”مجھے یقین ہے کہ یہ بہت تیزی سے کاٹے گی۔ میرے پاس کلہاڑی کو تیز کرنے کا وقت نہیں ہے۔“ آدمی تیزی سے جواب دیتا ہے ”میں درخت کاٹنے میں بہت زیادہ مصروف ہوں۔“

عادت نمبر 7 کلہاڑی کو تیز کرنے کے لیے وقت نکالنا ہے۔ یہ تمام سات عادات کے زاویہ نظر کا احاطہ کرتی ہے۔ اس لیے کہ اس کی وجہ سے باقی عادات ممکن ہو پاتی ہیں۔

یہ عادت جسمانی، ذہنی، روحانی، اور سماجی ترقی کے بارے میں ہے۔ کووے کا کہنا ہے کہ ہمیں اپنی صلاحیتوں اور توانائی کو بہتر کرنے کے لیے مستقل بنیادوں پر کام کرنا چاہیے۔ یہ بنیادی طور پر ’صرف ہارڈ ورکنگ نہیں بلکہ سمارٹ ورکنگ‘ کا تصور ہے۔ اس عادت کا مقصد خود کو تروتازہ اور متحرک رکھنا ہے تاکہ ہم اپنی زندگی کے تمام پہلوؤں میں کامیابی حاصل کر سکیں۔

یہ سات عادات ہمیں ایک مکمل اور متوازن زندگی گزارنے کے لیے اہم رہنمائی فراہم کرتی ہیں اور ہمارے روزمرہ کے فیصلوں اور کاموں میں کامیابی حاصل کرنے میں مدد کرتی ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close