یحییٰ خان اور میرا استعفیٰ (پہلا حصہ)

قدرت اللہ شہاب

جنرل یحیٰی کے اقتدار میں آتے ہی حالات نے کچھ ایسا رنگ اختیار کیا کہ میں نے سول سروس آف پاکستان سے استعفیٰ دے دیا۔ عمر کے لحاظ سے اس وقت میری ملازمت کے ابھی آٹھ یا نو برس باقی تھے۔

جب یحییٰ خاں اپنے بے ضمیر باطن کی اندھیر نگری سے چوپٹ راجہ بن کر ارضِ پاک پر نازل ہوا تو میرے اندر کسی دبے ہوئے جنون نے بھی کروٹ لی۔ اس شخص کو میں مدت سے پہچانتا تھا۔ اُس کی پیشانی پر بے برکتی اور بد توفیقی کی ایک واضح مہر ثبت تھی۔ جن دنوں آزاد کشمیر کا جہاد زوروں پر تھا یحییٰ خاں کسی سلسلے میں پونچھ فرنٹ کی طرف آیا۔ میں آزاد کشمیر حکومت کا سیکرٹری جنرل تھا۔ پلندری اور تراڑ خیل کے درمیان ایک پہاڑی جنجال ہل پر ہمارا سیکریٹریٹ واقع تھا۔ یہاں پر چند کچے مکان تھے، جن میں آزاد کشمیر کے صدر، وزراء اور دوسرے ملازمین کی رہائش گاہیں اور دفاتر تھے۔ دن کے وقت سیکرٹیریٹ کا کام عموماً درختوں کے سائے میں ہوتا تھا۔ کسی کے پاس لوہے کی کرسی تھی، کسی کے پاس چوبی اسٹول، کوئی پتھروں کا چبوترہ بنا کر بیٹھتا تھا، کوئی گھاس پر نیم دراز ہو کر فائلیں چلاتا تھا۔ دن میں کئی بار ہندوستان کے بمبار طیارے ہمارے اوپر سے گزرتے تھے۔ کبھی کبھی ان کی پرواز اس قدر نیچی ہوتی تھی کہ پائلٹ کا چہرہ تک نظر آنے لگتا تھا۔

ایک روز ہم کوئی میٹنگ کر رہے تھے کہ ایک گول مٹول سا فوجی جیپ سے اتر کر ہمارے پاس آیا۔ چہرے پر سوجن اور آنکھوں میں گندے انڈے کی ابلی ہوئی زردی سی تھی۔ اس کے ایک ہاتھ میں بید کی چھڑی اور دوسرے ہاتھ میں چمڑے کا گول تھیلا تھا۔ آتے ہی اُس نے اپنی چھڑی میری ناک کے عین سامنے گھمائی اور قدرے ڈانٹ کر پوچھا۔ ”یہاں کیا تماشا ہو رہا ہے؟“

میں نے عرض کیا کہ یہ آزاد جموں و کشمیر گورنمنٹ کا سیکرٹیریٹ ہے۔

یہ سن کر اس کی توند تسلے میں پڑی ہوئی باسی اوجھڑی کی طرح گدگدائی اور گلے سے غوغو غاغا کی کچھ رندھی ہوئی آوازیں بر آمد ہوئیں۔ یہ اس بات کی دلیل تھی کہ آغا محمد یحییٰ خاں صاحب از راہِ تمسخر قہقہہ فرما رہے ہیں۔ ہمارے سیکرٹیریٹ کی ہئیتِ کذائی پر چند تحقیری اور تضحیکی پھبتیاں کسنے کے بعد آغا صاحب بور ہو گئے اور کچھ دور پرے جا کر درختوں کی اوٹ میں ایک چٹان پر بیٹھ گئے۔ اپنا تھیلا کھول کر انہوں نے کچھ سینڈوچ نوش فرمائے اور پھر پیاس بجھانے کے لیے غالباً بیئر کی بوتل نکالی۔ رمضان کے دن تھے۔ یہ دیکھ کر میرا پونچھی اردلی جلال میں آگیا اور اس نے دور ہی دور سے انہیں للکارا۔ ”خبردار صاحب! یہ حرام بند کرو۔ ابھی ابھی مینڈھر کی وادی ہمارے ہاتھ سے نکل کر ہندوستان کے قبضے میں چلی گئی ہے۔ اب خدا کے غضب کو اور نہ بلاؤ، بوتل توڑ دو ورنہ خون خرابہ ہو جائے گا۔“


قدرت اللہ شھاب کی یہ کالم بھی پڑھیں:

وہ، جو ہم پر مسلط رہے۔۔

میرے (بطور سیکریٹری ٹو گورنر جنرل) چارج لینے کے چند روز بعد نومبر میں کراچی میونسپل کارپوریشن نے گورنر جنرل (ملک غلام محمد) کو ایک استقبالیہ پر مدعو کیا۔ استقبالیہ سے چند


یحییٰ خاں نے بوتل تو نہ توڑی، لیکن جلدی جلدی سامان سمیٹ کر زیرِ لب بُڑ بُڑاتا ہوا نو دو گیارہ ہو گیا۔

کئی برس بعد مجھے یحییٰ خاں کی زیارت ایک اور رنگ میں نصیب ہوئی۔ جب پاکستان کا دارالخلافہ راولپنڈی اور اسلام آباد منتقل ہو رہا تھا تو اربابِ پنڈی کلب نے کراچی سے تازہ واردانِ بساطِ ہوائے دل کی خیر سگالی کے لیے ایک زبردست محفلِ ناؤ نوش منعقد کی۔ مارشل لاء کا بول بالا تھا۔ کئی سول سرونٹ چند کلیدی فوجی حکام کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے تھے۔ کچھ بیگمات بھی اس مہم میں اپنے خاوندوں کا ہاتھ بٹانے کے لیے سج دھج کر شریکِ محفل تھیں۔ اس انجمن میں یحییٰ خاں چہک چہک کر، پُھدک پُھدک کر کبھی ایک بیگم، کبھی دوسری بیگم سے ٹکراتا تھا۔ بڑی محنت مشقت کے بعد اس نے ایک طرحدار خاتون کو پھانسا اور اسے گھیر گھار کر باہر لان میں لے گیا۔ کچھ دیر آنکھ مچولی کا کھیل ہوتا رہا۔ بدمستی کے عالم میں یحییٰ خاں کی بہیمانہ ہنہناہٹ اور طرحدار خاتون کے نرم و نازک قہقہے اندر بیٹھے ہوئے دوسرے امیدواروں کی چھاتی پر مونگ دلتے رہے۔ پھر زور کا دھماکا ہوا اور سب لوگ بھاگ کر باہر آ گئے۔ خاتون تو ایک میز پر ٹانگیں لٹکائے بیٹھی بڑے آرام سے شمپین کا جام پی رہی تھی لیکن غریب یحییٰ خاں کسی کرسی سے ٹکرا کر آدھ موئے دنبے کی طرح زمین پر چاروں شانے چت گرا پڑا تھا۔ یار لوگوں نے دھکیل دھکال کر اُسے اٹھایا۔ وہ حنوط شدہ اکڑی ہوئی لاش کی طرح بے حس و حرکت کھڑا ہو گیا اور کسی نے اس کی پتلون اوپر کھینچ کر توند کے نشیب پر راز سرِ نو فٹ کی۔

جس زمانے میں فیلڈ مارشل ایوب خاں نے یحیٰی خاں کو فیڈرل کیپیٹل کمیشن کا چیئر مین نامزد کیا تو میں اس حسنِ انتخاب پر عش عش کر اٹھا۔ میں نے سوچا کہ فیلڈ مارشل نے غضب کی مردم شناسی سے کام لیا ہے اور بڑی حکمتِ عملی سے اس شخص کو فوج سے الگ کر کے کیپیٹل کمیشن کی پول میں دھانس دیا ہے، لیکن دیکھتے ہی دیکھتے جب سابق صدر ایوب نے اس مخمور اور بد مست شخص کو پاکستانی فوج کا کمانڈر انچیف بناڈالا تو یہ راز کھلا کہ یہ مردم شناسی کا اعجاز نہیں بلکہ خود حفاظتی کی ڈھال کے طور پر کوئی معشوق ہے اس پردہِ زنگاری میں!

کمانڈر انچیف کے عہدے پر فائز ہوتے ہی آغا صاحب نے فوج کی قیادت کے علاوہ ملک کی صدارت کی ریہرسل بھی شروع کر دی۔ اس ریہرسل کا پہلا زریں موقع یحییٰ خاں کو اس وقت ملا، جب 1968ء کی جنوری میں ایک رات فیلڈ مارشل ایوب خاں پر اچانک عارضہ قلب کا شدید حملہ ہوا۔ وہ تو رفتہ رفتہ صحت یاب ہو گئے لیکن یحییٰ خاں کو صدارت کی اس ریہرسل کا کچھ ایسا چسکا پڑا کہ اب اس نے برسرِ اقتدار آنے کی باضابطہ منصوبہ بندی شروع کر دی۔ اس جوڑ توڑ کو پروان چڑھانے کے لیے اُسے بڑی آسانی سے ایک سیدھا سیدھایا بھاڑے کا ٹٹو بھی پاس ہی مل گیا۔ اس شخص کا نام میجر جنرل ایس جی ایم ۔ ایم۔ پیرزادہ تھا۔ جس زمانے میں وہ صدر ایوب کا ملٹری سیکرٹری بن کر آیا تھا، اس کی سب سے نمایاں خصوصیت یہ تھی کہ وہ ہر وقت بلاوجہ مسکرانے کی کوشش میں رہا کرتا تھا۔ ریاکاری کے اس رندے نے اس کے چہرے پر دو ایسی مستقل سلوٹیں تراش رکھی تھیں کہ دیکھنے والے کو یہ محسوس ہوتا تھا کہ وہ کسی نہ کسی کا منہ چڑا رہا ہے۔ یوں بھی اُس کے کان کی لوؤں اور چہرے بشرے کے مساموں سے گنجلک، روباہی، چکمہ سازی، حیلہ گری اور ہچر مچر کا گدلا سا لعاب اس طرح رس رس کر ٹپکتا تھا، جیسے چیڑ کے تنے سے لٹکے ہوئے بدھنے میں لیسدار گنده بیروزه قطره قطرہ پھسل کر گرتا ہے۔ کبھی کبھی جب وہ میرے کمرے میں داخل ہوتا تھا تو خبثِ باطن کا تعفن پھٹے ہوئے گٹر کی سڑاند کی مانند چاروں طرف پھیل جاتا تھا اور بے اختیار جی چاہتا تھا کہ لپک کر بہت سی کھڑکیاں کھول دی جائیں اور باہر کی صاف ہوا کو اندر آنے دیا جائے۔

ملٹری سیکرٹری کے طور پر کام کرتے ہوئے میجر جنرل پیرزادہ کو زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ اُس پر دل کا دورہ پڑا۔ چند ماہ بعد صدر ایوب نے اسے جی ایچ کیو واپس بھیج دیا۔ یہ واپسی اُس کی خواہش اور توقع کے خلاف تھی، اس لیے جاتے وقت وہ علی بابا چالیس چور کی مرجینا کی طرح ایوانِ صدر کے پھاٹک پر اپنی ناکام آرزوؤں کی کالک سے اپنی مراجعت کے عزم کا نشان ڈالتا گیا۔

اس کے بعد جنرل پیرزادہ سے میری ملاقات چند بار بریگیڈئیر ایف آر۔ خان کے گھر پر ہوئی، جہاں وہ مفت شراب پینے بالالتزام آیا کرتا تھا۔ شراب کے نشے میں دھت ہو کر وہ اکثر قالین پر ٹانگیں پسار کر بیٹھ جاتا تھا اور ملک کے بگڑتے ہوئے حالات پر بے ربط قسم کا تبصرہ شروع کر دیتا تھا۔

ایوب خاں کے زوال پر جس روز یحییٰ خاں نے زندہ ناچ گانے کے ساتھ اپنا جشنِ تاجپوشی منایا، اسی روز جنرل پیرزادہ نے بھی ایوان صدر پر قبضہ کر کے اُس میں اپنا آسن جما لیا۔ اس گھر کی غلام گردشوں سے وہ پہلے ہی بخوبی واقف تھا۔ یہ ایک ایسے بے برکت دور کی ابتداء تھی، جس کی بسم اللہ ہی الٹی پڑی۔ اگلے روز اس کے ایما پر ایک حکم نامہ جاری ہوا کہ ایڈ مرل اے۔ آر۔ خاں، سید فدا حسین شاہ اور میاں ارشد حسین کو صدرِ پاکستان کا مشیر مقرر کیا گیا ہے۔ یہ خبر پا کر فضائیہ اور بحریہ کے کمانڈر انچیف یحیٰی خاں پر چڑھ دوڑے اور ایک ہنگامی میٹنگ میں انہوں نے مارشل لاء کے مالِ غنیمت میں اپنا اپنا حصہ طلب کیا۔ یہ میٹنگ اس قدر طوفانی تھی کہ ایک کمانڈر انچیف نے، جو عام طور پر شراب نہیں پیتے تھے، برانڈی کا آدھا گلاس منگوایا اور اسے ایک ہی سانس میں غٹاغٹ چڑھا گئے۔

جنرل پیرزادہ نے ہاتھ پاؤں تو بہت مارے لیکن مشیروں کی تقرری کا پروانہ منسوخ ہو گیا اور ان کی جگہ ایک مشترکہ انتظامی کونسل قائم ہوئی جو جنرل عبد الحمید ائیر مارشل نور خاں اور ایڈمرل احسن پر مشتمل تھی۔ مرکزی حکومت کی وزارتیں ان تینوں میں بٹ گئیں اور میجر جنرل پیرزادہ یحییٰ خاں کو سنبھال کر بیٹھ نہیں گیا بلکہ انتظامیہ کونسل کو درہم برہم کرنے کی سازش میں مصروف ہو گیا۔

مارشل لاء نافذ ہونے کے بعد دس دن تک مرکزی سیکریٹریٹ کا کام کم و بیش معطل رہا، کیونکہ نیا حکمران ٹولہ کاروبارِ سلطنت کی بندر بانٹ میں ہمہ تن مصروف تھا۔ ہم لوگ دفتر جاتے تھے چائے پیتے تھے، قیاس آرائیاں کرتے تھے اور اس طرح دن بھر کی روزی حلال کر کے گھر آجاتے تھے۔ ان ایام میں سول سیکریٹریٹ کا اپنی حکومت کے ساتھ واحد رابطہ روزانہ اخبارات کے ذریعہ تھا۔

ان دس دنوں میں ملک پر بلا شرکتِ غیرے نظام سقہ کا راج تھا، جس نے سالہا سال کی سازشوں کے آواگونی چکر سے نکل کر میجر جنرل پیرزادہ کی صورت میں نیا جنم لیا تھا۔ چام کے دام تو اُس نے بعد میں قوم کی کھال سے چلائے لیکن اس دس روز کی بادشاہی میں اس کے زریں کارنامے جو ہم تک مختلف ذرائع سے پہنچتے رہے، کچھ اس طرح کے تھے:

آج فلاں دفتر کے دروازے سات بج کر بیس منٹ پر بند کر دیئے گئے۔ دیر سے دفتر پہنچنے والوں کو فٹ پاتھ پر دھوپ میں کھڑا کر دیا گیا۔

آج ایک دفتر کی اچانک حاضری بلائی گئی۔ غیر حاضر ملازمین کی جواب طلبی۔

آج سڑکوں پر جھاڑو پھر گئی۔ کوڑے کرکٹ کے ڈھیر غائب۔

آج نالیوں کی صفائی کا حکم نامہ جاری ہو گیا اور فینائل چھڑکی گئی۔

آج مکھی مارنے کی مہم کا آغاز ہو گیا۔

آج دودھ دہی اور مٹھائی کی دکانوں پر جالی لگانے کے احکام صادر ہو گئے۔

آج یہ۔۔ آج وہ۔۔۔

پھر اچانک ایک حکم نامہ آیا کہ کل مورخہ 4 اپریل صبح دس بجے صدرِ پاکستان اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر آغا جنرل محمد یحییٰ خاں پریذیڈنٹ گیسٹ ہاؤس میں مرکزی سیکرٹریوں اور دیگر اعلیٰ سول حکام سے خطاب فرمائیں گے۔ بارے مارشل لاء ٹولے کو یاد تو آیا کہ پاکستان میں سول سیکرٹریٹ نام کی کسی شے کا بھی کوئی وجود موجود ہے۔

(جاری)

قدرت اللہ شہاب کی سوانح حیات ’شہاب نامہ‘ سے ماخوذ۔
انتخاب، تلخیص و عنوان: امر گل۔

یہ بھی پڑھیں

پی آئی اے کا اشتہار، امریکہ سفیر اور ہم

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close