یحییٰ خان اور میرا استعفیٰ (تیسرا حصہ)

قدرت اللہ شہاب

اگلے روز صبح سویرے راجہ صاحب محمود آباد ہمارے ہاں تشریف لائے۔ ان کے ساتھ میرے دیرینہ برادرانہ تعلقات تھے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ کل رات یحییٰ خاں نے انہیں اور اسٹینڈرڈ بینک کے مسٹر علوی کو ڈنر پر مدعو کیا ہوا تھا۔ جوں جوں وہسکی کا نشہ تیز سے تیز ہوتا جاتا تھا، یحییٰ خاں گفتگو کے باقی تمام موضوع چھوڑ کر اس خاکسار پر برسنا شروع کر دیتا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ صبح کی میٹنگ میں لب کشائی کر کے میں نے مارشل لاء اور حکمران ٹولے کے خلاف مزاحمت کا جذبہ اکسانے کی کوشش کی ہے۔ راجہ صاحب نے مجھے مشورہ دیا کہ میں صبر و تحمل سے کام لوں اور اپنی ملازمت کے بارے میں کسی جلد بازی کا مظاہرہ نہ کروں۔

اسی روز اسٹینڈرڈ بینک کے مسٹر علوی بھی ہمارے ہاں آئے۔ ان ذات شریف سے میرے کوئی مراسم نہ تھے۔ کئی برس پہلے فقط ایک بار کراچی میں سرسری سی ملاقات ہوئی تھی، لیکن انہوں نے آتے ہی بڑے بے تکلفانہ اور مربیانہ انداز میں گلہ شروع کر دیا۔ ”بھائی صاحب یہ آپ نے کیا غضب کیا؟ بڑے صاحب کو اس قدر ناراض کر دیا۔ ہم نے تو آپ سے بہت کچھ کام لینا ہے۔ آپ کے لیے ہم نے ایک نہایت اہم پوسٹنگ سوچ رکھی تھی۔ خیر اب بھی وقت ہے۔ ہم ہر قسم کی خدمت کے لیے حاضر ہیں۔“

علوی صاحب کے انداز سے محسوس ہوتا تھا کہ میں حکومتِ پاکستان کا نہیں بلکہ اسٹینڈرڈ بینک کا ملازم ہوں۔ اُن کی باتوں سے یہ اعتماد بھی ٹپکتا تھا کہ حکومت کا کچھ کاروبار اب غالباً اسٹینڈرڈ بینک کے اشاروں پر چلا کرے گا۔ میں نے کسی قدر رکھائی سے علوی صاحب کو ٹال دیا کہ وہ میری ملازمت اور پوسٹنگ کے بارے میں فکر مند نہ ہوں۔ میں یہ معاملات خود ہی طے کرنے کی صلاحیت رکھتا ہوں۔

اس کے بعد غالباً دو بار پھر یحییٰ خاں کے ساتھ میرا آمنا سامنا ہوا۔ ہر بار کی ملاقات پہلے سے بھی زیادہ ناخوشگوار ثابت ہوئی۔ اُس کے وجود کی ساری نحوست اور کثافت سنڈاس کی بدبو کی طرح اس کے روئیں روئیں سے بے برکتی کی سڑاند چھوڑتی تھی۔ میجر جنرل پیرزادہ کی بیساکھیوں کا سہارا لے کر جب وہ سربراہِ مملکت کی کرسی پر متمکن ہوا تو ایوانِ صدر کی ہر دیوار پر نوشتہِ تقدیر کی صورت میں ذلت اور تخریب کے اٹل اور ناگزیر کتبے آویزاں ہو گئے۔ میرے لیے وہ ساعت نیک تھی، جب ایک روز میں نے اچانک ایئر مارشل نور خاں سے کہا کہ میرا ارادہ ہے کہ میں ملازمت سے سبکدوش ہو کر اب زندگی کے بقیہ ایام لکھنے پڑھنے میں صرف کروں۔ میرا خیال ہے کہ میرا یہ ارادہ سن کر ایئر مارشل نور خاں کی طبیعت باغ باغ ہو گئی اور یہ خبر ان کے چہرے پر یوں لگی جیسے ڈاک خانے کی مہر لفافے کے ٹکٹ پر ثبت ہوتی ہے۔

انہی دنوں پیرس میں یونیسکو کے ایگزیکٹو بورڈ کا ایک اجلاس منعقد ہونے والا تھا۔ چند ماہ پیشتر میں اس بورڈ کارکن منتخب ہو چکا تھا۔ اُس زمانے میں یونیسکو ایگزیکٹو بورڈ کے ممبر اپنی ذاتی حیثیت سے منتخب ہوا کرتے تھے۔ اس میٹنگ میں شامل ہونے کے لیے میں نے رختِ سفر باندھا تو میجر جنرل پیرزادہ نے کئی طرح کی رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی لیکن اس کی ہر کوشش ناکام رہی۔ پیرس پہنچ کر میں نے خاموشی سے عفت (بیگم) اور ثاقب (بیٹا) کو بھی اپنے پاس بلا لیا اور جنرل یحیٰی کو سی۔ ایس۔ پی سے اپنا استعفیٰ بھیج دیا۔

میرا خیال تھا کہ میرا استعفیٰ چشم زدن میں منظور ہو جائے گا لیکن ایسا نہ ہوا۔ ہر کوئی اپنے اپنے اقتدار اور غرور کے گھوڑے پر چڑھا بیٹھا اس بات کا منتظر تھا کہ پہلے میں واپس آ کر اُن کے حضور میں سر تسلیم خم کروں تو اس کے بعد وہ میرے استعفیٰ پر غور فرمائیں گے۔ یہ ان کی ناجائز ہٹ دھرمی تھی۔ میں ان سے کچھ مانگ تو نہیں رہا تھا، بلکہ اپنی ملازمت کے آٹھ نو سال برضا و رغبت چھوڑ رہا تھا، اس لیے میں نے اُن کی یہ طفلانہ ضد ماننے سے صاف انکار کر دیا۔

خدا خدا کر کے ایک برس کی کشاکشی اور ضدا ضدی کے بعد میرا استعفیٰ تو منظور ہو گیا، لیکن میری پنشن تین برس تک بند رہی۔ تین برس کے بعد مجھے پنشن اس وقت ملنا شروع ہوئی، جب ملک کو ایک عظیم تباہی اور ذلت کے کنویں میں گرا کر یحیٰی خاں اور پیرزادہ ایوان صدر سے نکل بھاگنے پر مجبور ہو گئے۔

یہ طویل عرصہ ہم نے انگلستان کے کئی چھوٹے چھوٹے دیہات میں رہ کر بسر کیا۔ ہر سال اپریل اور اکتوبر کے مہینوں میں پیرس میں یونیسکو کے ایگزیکٹو بورڈ کا اجلاس منعقد ہوا کرتا تھا۔ ہر اجلاس چار سے پانچ ہفتے تک جاری رہتا تھا۔ وہاں پر کسی نہ کسی طرح تنگی ترشی سے گزارہ کر کے میں اپنے روزانہ الاؤنس کا کچھ حصہ بچا لاتا تھا اور واپس آکر یہ رقم عفت کے حوالے کر دیتا تھا، جس سے وہ اگلے چھ ماہ تک گھر کا کاروبار چلاتی تھی۔ ان تھوڑے سے پیسوں میں وہ گھر بھی سنبھالتی تھی اور آنے جانے والے مہمانوں کو بھی کسی نہ کسی طرح بھگتاتی رہتی تھی۔ ثاقب کی عمر ان دنوں آٹھ برس کے قریب تھی۔ اسکول آنے جانے کے لیے عفت ہر صبح اُسے بس کا کرایہ دیا کرتی تھی۔ ایک روز باد و باراں اور برفباری کا شدید طوفان تھا۔ جب اسکول بند ہونے کا وقت ہوا تو میں بس کے اسٹاپ پر جا کھڑا ہوا تا کہ ثاقب کو اپنے ساتھ حفاظت سے گھر لے آؤں۔ کئی بسیں گزر گئیں لیکن ثاقب کسی بس سے نہ اترا۔ کچھ دیر بعد میں نے دیکھا کہ دور فٹ پاتھ پر وہ افتاں و خیزاں طوفان کے تھپیڑوں میں لڑھکتا ہوا پیدل چلا آرہا ہے۔ تیز و تند آندھی میں پھسل پھسل کر گرنے سے اُس کے دونوں گھٹنے زخمی ہو گئے تھے، جن سے خون رس رس کر بہہ رہا تھا۔ میں نے اُس سے پوچھا کہ وہ بس میں کیوں نہیں سوار ہوا؟ اُس نے جواب دیا کہ وہ ہر روز اسکول سے پیدل ہی آیا کرتا ہے اور بس کا کرایہ بچا کر ہر ہفتے بچوں کا ایک پسندیدہ رسالہ خرید لیتا ہے۔ میں نے عفت کو یہ بات بتائی تو لمحہ بھر کے لیے تو وہ خوش ہوئی لیکن پھر بے اختیار رو پڑی۔ پہلے میرا خیال تھا کہ تھوڑے سے پیسوں میں پورا گھر چلانا عفت کی کوئی خاص مہارت تھی، لیکن رفتہ رفتہ یہ عقدہ کھلا کہ وہ مجھے اور ثاقب کو اور ہمارے مہمانوں کو تو خوب کھلاتی پلاتی رہتی تھی لیکن مشرق کی روائتی خواتین کی طرح اپنی ذات پر شدید نفس کشی اور ایثار سے کام لیتی رہی تھی۔ یہ راز مجھ پر یوں افشا ہوا کہ اچانک اُس کی صحت گرنے لگی۔ میں نے ہسپتال میں جا کر اس کا طبی معائنہ کرایا تو معلوم ہوا کہ اس کے گردوں کا نظام بری طرح بگڑ گیا ہے۔ پے در پے آپریشنوں کی وجہ سے اس کے گردے پہلے ہی سے کمزوری کی زد میں غیر محفوظ تھے لیکن اب ڈاکٹروں کی تشخیص تھی کہ مرض کی یہ پیچیدگی غذا کی کمی کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے۔

میرا معمول تھا کہ یونیسکو کے ایگزیکٹو بورڈ کی میٹنگوں میں شامل ہونے کے لیے میں ہمیشہ لندن اور پیرس کے درمیان پی آئی اے سے سفر کیا کرتا تھا۔ غریب الوطنی میں پی آئی اے کا یہ چھوٹا سا سفر بڑا تسکین بخش ثابت ہوتا تھا۔ ایک روز میں پکاڈلی اسٹریٹ میں پی آئی اے کے دفتر اپنا ٹکٹ بنوانے گیا۔ کاؤنٹر پر کام کرنے والی لڑکی کے پاس اس کی ایک سہیلی بھی بیٹھی تھی جو ایئر ہوسٹس کی وردی میں ملبوس تھی۔ جب میں نے اپنا نام لکھوایا تو ایئر ہوسٹس چونک کر میری طرف متوجہ ہوئی اور بولی میں کچھ عرصہ عفت کی ہم محلہ رہی ہوں۔ آپ سے آج پہلی بار ملاقات ہوئی ہے۔ اب ٹکٹ تو بعد میں بنوائیں، پہلے مجھے چائے پلائیں۔

یہ کہتے ہی وہ کاؤنٹر سے اٹھ کر میری طرف آگئی اور کہنے لگی، ”آپ یہ ہرگز نہ سوچیں کہ میں کوئی فارورڈ قسم کی لڑکی ہوں۔ جو مان نہ مان میں تیرا مہمان بن کر ہر کسی کے ساتھ چائے پینے اُٹھ کھڑی ہوتی ہوں۔ دراصل میں آپ کو ایک ضروری بات بتانا چاہتی ہوں۔“

باہر نکل کر ہم ایک قریبی کافی ہاؤس میں جا بیٹھے۔ وہاں پر اس نے مجھے بتایا کہ چند ہفتے قبل وہ اسلام آباد سے کراچی والی فلائٹ پر اپنی ڈیوٹی ادا کر رہی تھی۔ اس فلائٹ میں یحییٰ خاں اور چند سینئر افسر بھی سفر کر رہے تھے۔ پرواز کے دوران اس نے یحیٰی خاں کو ایک سینئر پولیس افسر پر گرجتے برستے سنا کہ قدرت اللہ شہاب کو واپس لا کر اب تک ان کے حضور میں پیش کیوں نہیں کیا گیا؟ یحییٰ خاں نے پولیس افسر کو دھمکی دی کہ اگر اس حکم کی تعمیل میں مزید تاخیر ہوئی تو وہ اس افسر کی چمڑی اتار دیں گے۔

اتنی بات بتا کر لڑکی نے مجھے مشورہ دیا کہ مناسب یہی ہے کہ میں لندن اور پیرس کے درمیان پی آئی اے سے سفر کرنے کا خطرہ مول نہ لوں۔ اس نے اپنا نام بتانے سے انکار کر دیا اور یہ کہہ کر پی ۔ آئی اے کے دفتر واپس چلی گئی کہ ”اگر عفت کو کوپر روڈ پر اپنی کوئی ہمسایہ سہیلی یاد ہے تو وہ شاید مجھے پہچان جائے۔“

گھر آ کر میں نے عفت کو یہ واقعہ سنایا۔ اُس نے اپنی بہت سی ہمسایہ سہیلیوں کے نام اور حلیے بتائے لیکن ہماری یہ فرشتہِ رحمت ہمیشہ گمنام ہی رہی۔

جس چھوٹے سے گاؤں میں ہم رہتے تھے، وہاں سے کچھ فاصلے پر جانگھم کا بارونق شہر تھا۔ اُس کی ہائی اسٹریٹ میں خودکار واشنگ مشینوں والی ایک لانڈری تھی۔ میں ہر پیر کے روز میلے کپڑوں کا ایک بنڈل وہاں لے جا کر دھو لایا کرتا تھا۔ ایک دن میں لانڈری پہنچا تو باہر فٹ پاتھ پر بڑی بڑی مونچھوں والا ایک لمبا تڑنگا پاکستانی جناح کیپ اوڑھے کھڑا تھا۔ اُس نے زور سے کھنکار کر مجھے اپنی طرف متوجہ کیا اور پھر اپنا ادھ بجھا سگریٹ میرے کندھے پر پھینک کر پنجابی زبان میں بولا۔ ”ارے دھوبی کے بچے۔ کپڑے مشین میں ڈال کر باہر آؤ، تمہارے ساتھ باتیں کرنی ہیں۔“

یہ شخص میرے لیے قطعی اجنبی تھا۔ اُس کی بے تکلفی کے انداز میں ایک خوفناک جارحیت کا عزم جھلک رہا تھا۔ مجھے فوراً ایئر ہوسٹس کی بات یاد آگئی۔ لانڈری کی دیکھ بھال کرنے والی خاتون مجھے جانتی تھی۔ مشین میں کپڑے ڈالتے ہوئے میں نے اُس کو بتایا کہ باہر فٹ پاتھ پر جو شخص منڈلا رہا ہے، غالباً وہ یہاں پر میرے خلاف کوئی واردات کرنے آیا ہے۔ تم فوراً پولیس کو ٹیلیفون پر خبردار کر دو۔

میں لانڈری سے باہر آیا تو وہ شخص لپک کر مجھ سے بغل گیر ہوا۔ میں نے پوچھا۔ ”آپ کی تعریف؟“

اس نے دو چار مغلظات سنا کر کہا۔ ”میری تعریف باتوں سے نہیں بلکہ ہاتھوں اور لاتوں سے ہوتی ہے۔“

اس نے دوستانہ طور پر میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر دبایا اور کہا۔ ”بیٹا اب سے تم میرے قبضہ میں ہو، اب کسی اور کی طرف آنکھ اٹھا کر نہ دیکھنا۔ کسی کی جانب کوئی اشارہ نہ کرنا۔ جو کچھ میں کہوں اس پر عمل کرنا ور نہ یاد رکھو ہمارا ایک آدمی تمہارے گھر کے اندر متعین ہے۔ دوسرا آدمی اسکول کے باہر بیٹھا تمہارے بیٹے کا انتظار کر رہا ہے۔ ہم رحم دلی سے کام لے رہے ہیں۔ ہماری بے رحمی کو بیدار کرنے کی غلطی نہ کر بیٹھنا۔“

”آخر آپ چاہتے کیا ہیں؟“ میں نے پوچھا۔

”میرے ساتھ ابھی اپنے گھر چلو۔ اپنا پاسپورٹ اور سامان اٹھاؤ۔ آج شام کی پرواز سے کراچی روانہ ہونا ہے۔“

میں کچھ سوچ میں پڑ گیا تو اس نے پھر چند مغلظات بک کر کہا، ”دیکھو اب کوئی چالبازی نہ سوچنا، ورنہ ہم آج شام کو تمہاری بیوی اور بچے کو اپنے ساتھ لے کر کراچی چل دیں گے۔ پھر تم خود ہی سر کے بل ان کے پیچھے پیچھے آؤ گے۔“

میں نے کہا ”مجھے منظور ہے۔ میں تمہارے ساتھ چلوں گا۔ آؤ اب گھر چلیں۔“

”گھر کیسے چلیں؟“ اس نے بگڑ کر کہا ”تم اس شہر سے واقف ہو۔ ایک ٹیکسی منگاؤ۔“

میں نے اسے بتایا کہ یہاں پر ٹیکسی ٹیلی فون کر کے ہی منگوائی جا سکتی ہے۔ چنانچہ ہم دونوں لانڈری کے اندر گئے۔ لانڈری والی خاتون کو میں نے اپنا ایڈریس دیا اور درخواست کی کہ وہ ٹیلی فون کر کے ایک ٹیکسی بلا دے، جو ہمیں اس ایڈریس پر پہنچا آئے۔ خاتون نے ٹیلی فون کرنے کے بعد بتایا کہ ٹیکسی پانچ سات منٹ میں آجائے گی۔

ہم دونوں باہر آکر فٹ پاتھ پر ٹیکسی کے انتظار میں کھڑے ہی ہوئے تھے کہ ایک پولیس کار لانڈری کے عین سامنے آکر رک گئی۔ اس میں تین باوردی پولیس کانسٹیبل سوار تھے۔ ان میں سے ایک کار سے اتر کر لانڈری میں چلا گیا۔ انہیں دیکھ کر میرا پاکستانی ساتھی شدید گھبراہٹ میں مبتلا ہو گیا اور بولا ”یہ حرامی یہاں کیا لینے آئے ہیں ؟“

میں نے ہنس کر جواب دیا ”ان کے کپڑے بھی میلے ہو جاتے ہیں، شاید دھلوانے آئے ہوں۔“

چند منٹ بعد ہماری ٹیکسی آ گئی اور ہم دونوں اس میں سوار ہو کر گھر کی جانب روانہ ہو گئے۔ گھر پہنچ کر میں نے دیکھا کہ ایک اسی وضع قطع کا لمبا تڑنگا پاکستانی کالے رنگ کی جناح کیپ پہنے ہمارے ڈرائنگ روم میں بیٹھا چائے پی رہا ہے۔ عفت کا رنگ ہلدی کی طرح پیلا پڑا ہوا تھا۔ اُس نے بھرائی ہوئی آواز میں مجھے بتایا کہ ان لوگوں کا ایک ساتھی ثاقب کے اسکول کے باہر بھی اس کے انتظار میں بیٹھا ہے۔ یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ لانڈری والی وہی پولیس کار ہمارے گھر کے سامنے آ رکی۔ دو کانسٹیبل گھنٹی بجا کر ہمارے گھر میں داخل ہوئے تو عفت نے واویلا مچایا کہ ان غنڈوں کا ایک ساتھی ہمارے بیٹے کی تاک میں اُس کے اسکول کے باہر بیٹھا ہے۔ یہ سنتے ہی تیسرے کانسٹیبل نے عفت کو اپنے ساتھ پولیس کار میں بٹھایا اور چند منٹ بعد وہ اسکول کے باہر منڈلاتے ہوئے ایک مشٹنڈے کو، جو کالی جناح کیپ پہنے تھا، اپنے ساتھ ہمارے ہاں لے آئے۔

ایک کانسٹیبل نے میرے اور عفت کے بیانات لکھے۔ دوسرے نے پاکستانیوں کے کاغذات اور شناختی کارڈ وغیرہ دیکھ کر کچھ خانہ پُری کی اور پھر وہ تینوں پاکستانیوں کو اپنے ساتھ لے کر وہاں سے رخصت ہو گئے۔ اسی شام وہی تینوں انگریز پولیس کانسٹیبل پھر ہمارے ہاں آئے۔ انہوں نے معذرت کی کہ ان کے علاقے میں ہمارے ساتھ ایسا ناخوشگوار سانحہ پیش آیا اور ساتھ ہی یقین دلایا کہ ہم مطمئن رہیں کہ اب دوبارہ اس قسم کا کوئی واقعہ رونما نہ ہوگا۔ لیکن اُن کی اس یقین دہانی نے عفت پر کوئی اثر نہ کیا۔ اس واقعہ نے اُس کے دل کا سکون مکمل طور پر چھین لیا۔ وہ رات کو بار بار اٹھ کر ثاقب کو دیکھتی تھی کہ وہ صحیح سلامت اپنے بستر پر موجود ہے یا نہیں۔ جتنا عرصہ وہ اسکول میں رہتا تھا، وہ قریب کی ایک لائبریری میں بیٹھ کر یہ جائزہ لیتی رہتی تھی کہ اسکول کے آس پاس کوئی مشتبہ شخص منڈلا تو نہیں رہا۔ چند ہی روز میں اس کی آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے پڑ گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے مجھے یوں محسوس ہونے لگا جیسے ایمن آباد والی چندراوتی کی طرح عفت کے بدن کا کندن بھی سنار کی کھٹائی میں پگھل پگھل کر ریزہ ریزہ ہو رہا ہے۔ میں اُسے پھر ہسپتال لے گیا۔ طویل معائنہ کے بعد ڈاکٹروں نے بتایا کہ اُس کے گردوں نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے۔ ان کا مشورہ تھا کہ میں اُسے امریکہ لے جاؤں، جہاں اُن دنوں اس مرض کے کچھ کامیاب آپریشن ہوئے تھے۔

میں نے جنرل یحیٰی کو کئی خط لکھے اور تاریں بھیجیں کہ میری اپنی تنخواہ سے کاٹا ہوا پراویڈنٹ فنڈ حکومت کے پاس جمع ہے۔م، مجھے وہ فوراً ادا کر دیا جائے تاکہ میں اپنی بیوی کا علاج کروانے کے قابل ہو سکوں، لیکن جواب ندارد!

استعفیٰ دینے کے تین برس بعد جب مجھے میری پنشن ملنا شروع ہوئی اور میرا پراویڈنٹ فنڈ ادا ہوا تو اس وقت تک عفت کا مرض لا علاج ہو چکا تھا۔

انگلستان میں یہ تین برس میرے لیے بڑے سبق آموز ثابت ہوئے۔ بنی نوع انسان کی طوطا چشمی کے علاوہ اُس کی مروت، رواداری اور خلوص کا بیک وقت خوب تجربہ ہوا۔ خاص طور پر لندن میں پاکستانی سفارت خانے میں جب یہ خبر پھیلی کہ یحییٰ خان کی ناراضگی مول لے کر میں نے استعفیٰ دے دیا ہے تو ایمبیسی کے اسٹاف کی اکثریت میرے سائے سے بھی دور بھاگنے لگی۔ اُن میں کچھ افسر ایسے بھی تھے، ماضی میں جن کی میں نے کچھ نہ کچھ مدد کی تھی۔

قدرت اللہ شہاب کی سوانح حیات ’شہاب نامہ‘ سے ماخوذ۔
انتخاب، تلخیص و عنوان: امر گل۔

 


یحییٰ خان اور میرا استعفیٰ (پہلا حصہ)

یحییٰ خان اور میرا استعفیٰ (دوسرا حصہ)


Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close