سیاہ گڑھے (افسانہ)

عامر صدیقی

وہ ایک خونی لٹیرا تھا۔ اس کے سر پر انعام تھا، اس کی موت یقینی تھی اور اس وقت وہ کسی انجان راستے پر لگاتار کئی دنوں سے بھاگا چلا جا رہا تھا۔ اس کے پیچھے تھے مسلح سپاہی اور ان کے خونخوار کتے۔ یہ اس کی بقا کا سوال تھا۔ رکنا مطلب موت۔ وہ رک نہیں سکتا تھا۔ مگر اسے اچانک رکنا پڑا۔ اچانک سامنے آئے دو گہرے سیاہ گڑھوں نے اس کا راستہ روک لیا تھا۔ وہ ٹھٹک گیا، اس نے ان سیاہ گڑھوں اور ان کو پار کر کے آنے والی گھاٹی میں رہنے والے لوگوں کے متعلق مبہم مگر کچھ پراسرار سا سن رکھا تھا۔ سپاہیوں اور کتوں کی آوازیں قریب آتی جا رہی تھیں۔ اس کے پاس کوئی اور چارہ نہیں تھا۔ وہ دونوں گڑھوں کے بیچ بنے تنگ راستے پر چڑھ گیا اور جیسے ہی اس کے پار اترا، اس کے سر پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ اور وہ بیہوش ہو گیا۔

اس کی آنکھ کھلی تو روشن دان سے چھن چھن کر آتی روشنی میں پایا کہ وہ کسی کوٹھری میں بند ہے۔ ابھی وہ صورت حال کا جائزہ لے ہی رہا تھا کہ تبھی کوٹھری کا دروازہ کھلا اور ایک با رعب بوڑھا اندر آیا۔ جو قدیم طرز کا لبادہ پہنے تھا، جس نے اس کا پورا منہ ڈھانپ رکھا تھا۔ وہ اسے دیکھتے ہی کھڑا ہو گیا اور معذرت خواہانہ لہجے میں کہا۔ ’’میں معافی چاہتا ہوں میرا قطعی ارادہ یہاں آنے کا نہیں تھا۔ پر میرے پیچھے سپاہی پڑے تھے۔ میں جلد ہی یہاں سے چلا جاؤں گا۔‘‘

’’اب تک تو ایسا ہوا نہیں کہ کوئی یہاں سے زندہ واپس گیا ہو۔ تم بھی نہیں جا سکو گے۔ کل صبح تمہیں مار دیا جائے گا۔ ویسے بھی واپس جا کر تمہیں مرنا ہی ہے۔‘‘

’’مجھ پر رحم کرو۔ کوئی تو حل ہوگا کہ میں زندہ بھی رہوں اور یہاں بھی رہوں۔ کیونکہ اب میرے لئے واپسی کی راہ مفقود ہو چکی ہے۔‘‘

’’پھر تو ایک ہی حل ہے کہ تم ہمارے جیسے ہو جاؤ۔‘‘

’’تمہارے جیسے؟ میں تمہارا جیسا ہی ہوں۔‘‘

’’نہیں تم ہمارے جیسے نہیں ہو۔ لیکن اگر تم راضی ہو، ہمارا جیسا بننے پر تو خوش آمدید۔‘‘

’’میں راضی ہوں۔ مجھے تمہاری ہر شرط منظور ہے۔‘‘ اس نے بیتابی سے کہا

ابھی اس کی بات ختم ہی ہوئی تھی کہ گھنٹا بجنے کی تیز آوازیں آنے لگیں

’’یہ آواز کیسی؟‘‘

’’اس کا مطلب کہ بارہ بج گئے اور دوپہر کے کھانے کا وقت ہو گیا۔ میں تمہارے لئے کھانا لاتا ہوں۔ ویسے یہ گھنٹا صرف دن میں کھانے پر بلانے کے لئے بجایا جاتا ہے۔ جب سب کام پر دور دور ہوتے۔ رات کو اس کی ضرورت نہیں پڑتی۔‘‘

سوچوں میں ڈوبے ہوئے اس نے کھانا کھایا اور کھاتے ہی اس پر غنودگی سوار ہو گئی۔ نیم بیداری، نیم بیہوشی کی حالت میں وہ ایک سپنا دیکھ رہا تھا کہ اس کے پیچھے پیچھے سپاہی اور کتے ہیں اور وہ بھاگتا چلا جا رہا ہے۔ بھاگتے بھاگتے اچانک دو سیاہ گڑھے آ جاتے ہیں اور وہ ان میں گر جاتا ہے۔ اور گرتا چلا جاتا ہے۔۔۔ درد کے شدید احساس کے ساتھ گڑھوں کی کبھی نا ختم ہو سکنے والی تاریکی، اسے ڈرا دیتی ہے۔ وہ چیخنا شروع کر دیتا ہے اور ہڑبڑا کر بیدار ہو جاتا ہے۔ کوٹھری میں گھپ اندھیرا تھا۔ اور گھنٹے کی آواز کوٹھری میں گونج رہی تھی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close