دروازے پہ دستک جب گھنٹی میں بدلی تو مہمان زحمت ہونا شروع ہو گئے؟

حسنین جمال

سردیاں ہوتی تھیں، دھوپ کے آنے میں تھوڑی دیر ہوا کرتی اور اس وقت پہلی دستک اخبار والے کی سنائی دیتی تھی۔

ان دنوں اخبار والے سائیکل پہ آیا کرتے اور اخبار دروازے کے نیچے سِرکانے کے بعد باقاعدہ ایک تھاپ دروازے پہ دیا کرتے کہ بھئی جاگتے ہیں تو اٹھا لیجے۔

ڈور بیل کا منحوس رواج ابھی نہیں ہوا تھا۔ گھروں میں کمرے ہوتے، ان کے سامنے برآمدہ، اس کے بعد صحن، پھر ایک ڈیوڑھی اور آخر میں ایک مناسب سا لکڑی کا دروازہ۔

دروازے پر دستک دینے کے لیے اسی پہ لگی کنڈی استعمال کی جاتی تھی، بیس تیس سال بعد اس کُنڈی کا ایک الگ ہی کیریکٹر لکڑی پہ نقش ہوا کرتا تھا۔ کچھ دروازے ایسے بھی تھے، جن سے ہوڑا اور زنجیر نکلوا کے بعد ان پہ کنڈیاں لگائی گئی تھیں، تو ان پہ عمر کے دوہرے ثبوت ہوا کرتے۔ اوپری حصے پہ آدھے دائرے کی صورت میں ہوڑے کا نشان ہوا کرتا، چونکہ وہ زنجیر سے لٹکتا تھا، جس کا جہاں ہاتھ پڑا اس نے وہیں بجا کے دستک دے دی، اور نیچے وہ نئی کنڈی کا نشان۔ ٹک ٹک ٹک، جو کئی برس کی متواتر کھٹکھٹاہٹ کے بعد نمودار ہوتا۔

میری یادداشت کے مطابق سب سے پہلے ایک کرخت آواز کی بیل پاکستان میں آئی تھی۔ ٹرررررر، باہر آنے والا دروازے پہ لگا بٹن دباتا اور اندر پورے گھر میں بھونچال آ جاتا۔ دستک کا مزہ یہ تھا کہ آواز کسی کو آئی، کسی کو نہیں آئی، جسے آئی اس نے بڑھ کے دیکھ لیا، یہ آواز؟ یہ تو صور تھا اور مسلسل پھونکا جاتا تھا۔ سب ہڑبڑا جاتے اور ایک دوسرے کو آواز دیتے کہ بھئی دیکھو کون ہے، سب سے چھوٹا بچہ باہر جا کے جھانکتا اور مہمان کی آمد کا سلسلہ ایک عجیب نحوست سے جڑ جاتا۔

کہاں دستک، اب سوچیے، ٹک ٹک ٹک، اور کہاں یہ مشینی قسم کی چیختی ہوئی آواز، تو شاید وہ دن تھے جب مہمانوں کا آنا زحمت میں بدلنا شروع ہوا ہو گا۔

یہ بڑی باریک بات ہے، لکھ رہا ہوں تو بہت کچھ یاد آ رہا ہے، دستک کی آواز ہی کئی دفعہ طے کر دیتی تھی کہ آیا کون ہو گا، ننانوے فیصد وہ آئیڈیا ٹھیک ہوا کرتا تھا۔ کئی مرتبہ آنے والا باہر سے آواز بھی دے دیا کرتا تھا، سہولت اس سے یہ ہوتی کہ مطلوبہ بندہ ہی دروازے پہ جایا کرتا، لیکن شرفا میں یہ چلن نہیں تھا، صرف بے تکلف دوست یا فیملی فرینڈز کی آواز باہر سے جائز سمجھی جاتی، اور اس بندے کو بھی پورا محلہ جانتا ہوتا تھا کہ یہ جو صاحب آواز لگاتے ہیں، یہ فلاں صاحب کے قریبی دوست ہیں، اور وہ آواز بھی مختصر ہوا کرتی تھی۔

دروازے پہ مختصر آواز، یہ بھی ایک آرٹ تھا، دیکھیے ذرا۔۔۔

ڈاکٹر صاحااااااب، ایسی طویل آواز دادا کے شاگرد یا ان کے قریبی دوستوں کی ہوا کرتی۔

جمال ۔۔۔ یہ آواز دستک کے بعد حسن انکل کی ہوتی، جو ابو کے بیسٹ فرینڈ ہیں۔

نئے آنے والے ایک دو بار دستک کے بعد دروازے پہ منہ گُھسا کے کہتے، ’کوئی ہے۔‘

میرے دوست ہمیشہ چونکہ مجھ جیسے ہوتے، اس لیے دستک کے ساتھ ایک ’اوئے‘ کی آواز آتی، انہیں پتہ ہوتا تھا میں دروازے کے ساتھ والی بیٹھک میں ہوں گا، اس لیے ہلکی سی ’اوئے‘ دراصل کنفرمیشن سائن ہوتا تھا کہ بھائی تُو خود باہر آ، ابا اماں کے سامنے پیش ہونے والا حلیہ نہیں ہے ہمارا۔

فقیر تک مہذب ہوا کرتے تھے یار، دروازے پہ رکتے، اونچی ایک آواز لگاتے، پانچ منٹ دیکھتے، کوئی باہر نہ آتا تو بڑھ جایا کرتے تھے۔ اس زمانے میں لیکن دروازے پہ آواز لگانے والا خالی بھی تو نہیں جاتا تھا۔

خیر، اب یقین کرنا مشکل ہو گا آپ لوگوں کے لیے، مگر پہلی مرتبہ پیچھے پڑ کے بھیک مانگنے والے فقیر بھی میں نے کوئی تیرہ چودہ برس کی عمر میں دیکھے تھے۔ خدا رحم کرے، نوے کی دہائی تھی، راوی بے چینی لکھنا شروع ہو چکے تھے۔

ہمارے گھر غالباً ستاسی اٹھاسی میں گھنٹی لگی تھی، اس کی آواز ’ٹِنگ ٹانگ‘ تھی۔ ابا نے شاید اُسی ٹرررر والی کرختگی سے بچنے کے لیے نسبتاً مہذب آواز کی گھنٹی لگوائی ہو گی لیکن، آواز اس کی زیادہ تھی اور لگی بھی ڈیوڑھی میں ہوئی تھی اور دروازے پہ آنے والے شاید میوزک خود بھی انجوائے کرنا چاہتے ہوں گے، اب جو اسے بجاتا تھا تو کم از کم تین بار ضرور بجاتا، اور تین کا نمبر کم از کم ہے، دس مرتبہ بجانے والے مہربان آج تک موجود ہیں، فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ پولیس ہمیں اٹھانے آئی ہے یا وہ کسی چھاپے سے پناہ مانگنے کے لیے گھنٹی پیٹ رہے ہیں۔

وہ خراب ہوئی تو چوں چوں چوں چوں والی گھنٹی لگوائی مگر سب سے پریشان کن بیل یہی ثابت ہوئی، کوئی مہربان چوزے کا گلا چھوڑنے پہ ہی نہیں آتا تھا، جب تک دروازہ نہیں دیکھیں گے، تب تک چوں چوں چوں چلتی رہے گی۔ وہ بیل جلدی نکلوا دی گئی۔ اِس کے بعد اُسی ’ٹِنگ ٹانگ‘ کا ایک مہذب سا نعم البدل لگوایا گیا، جو آج تک چل رہا ہے۔

میں یہاں جس فلیٹ پہ رہتا ہوں، اس کی گھنٹی پہلے دن فارغ کر دی تھی۔ نئے لوگ بہت کم اتنا اوپر آتے ہیں، پرانے آنے والے فون پر پوچھ لیتے ہیں پہلے ہی، باقی اگر کوئی آتا ہے اور فقیر نیند میں ہو تو کم از کم گھنٹی کی آواز پہ آنکھ نہیں کھولنا پڑتی، اس سے بڑی نعمت خدا کوئی دے سکتا ہے؟

بشکریہ انڈیپینڈنٹ اردو۔
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close