سوشل میڈیا کے جہاں بہت سے فوائد ہیں، وہیں بہت سے نقصانات بھی ہیں۔ ہم اپنے لیے کوئی بھی فیصلہ سوشل میڈیا کے اثرات سے آزاد ہو کر نہیں لے سکتے۔ ہم وہاں جو ہوتا دیکھتے ہیں، اپنی زندگی میں وہی کرنا چاہتے ہیں۔ اب چاہے وہ کوئی ٹرینڈ فالو کرنا ہو یا دوستوں کی دیکھا دیکھی اپنی زندگی کی ہر تفصیل وہاں بتانا ہو یا کسی پوسٹ کے اثر میں خریداری کرنا ہو۔
ہم گھنٹوں اپنے موبائل پر ریلز دیکھتے ہوئے گزار دیتے ہیں۔ پہلی ریل میں کوئی ناچ رہا ہوگا، دوسری میں کوئی گنگنا رہا ہوگا، تیسری میں کوئی اپنے خوبصورت برتنوں میں کھانا بنا رہا ہوگا، چوتھی میں کوئی کپڑوں کو اسٹائل کرنا سکھا رہا ہوگا اور پانچویں میں کوئی گھر کے مختلف حصوں کو آرگنائز کرنا سکھا رہا ہے۔ یہ ریلز دیکھ کر کہیں نہ کہیں ہم بھی ویسی ہی چیزیں یا ماحول اپنے اردگرد دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہماری یہ خواہش ہمیں آن لائن اور آف لائن اسٹورز تک لے جاتی ہے، جہاں ہم اپنی اس خواہش کے زیرِ اثر چیزیں دیکھتے رہتے ہیں اور آخر میں کچھ نہ کچھ خرید ہی لیتے ہیں۔
کچھ ہفتے پہلے میری امی مجھے لاہور کے دوسرے کونے میں موجود ایک حکیم کے آستانے پر لے گئیں، جہاں وہ بالوں کے لیے ایک تیل بیچ رہا تھا۔ ان کا آستانہ لوگوں سے بھرا پڑا تھا۔ میری امی کی طرح وہ لوگ بھی حکیم صاحب کی ٹک ٹاک پر ویڈیوز دیکھ کر وہاں آئے تھے۔ حکیم صاحب کے پاس ایک ہی تیل کی کئی بوتلیں موجود تھیں۔ وہ ہر ایک کے سر کا سرسری معائنہ کر کے اسے تین چار تیل کی بوتلیں پکڑا دیتے تھے۔ ہمیں بھی آٹھ دس بوتلیں پکڑا دیں اور ان کے عوض پنتالیس ہزار پاکستانی روپے ادا کرنے کا کہا۔ میں اپنی امی کے ساتھ نہ ہوتی تو غالباً وہ رقم ادا بھی کر دیتیں۔ میں نے انہیں سمجھایا کہ حکیم صاحب بس اپنا بینک اکاؤنٹ بھرنے کے لیے سنجیدہ ہے، لوگوں کے بالوں سے انہیں کوئی سروکار نہیں ہے، اگر ہوتا تو وہ ہر ایک کے بالوں کے لیے ایک ہی تیل تجویز نہ کر رہے ہوتے۔ انہوں نے بڑی مشکل سے میری بات سنی اور میں اپنے بینک اکاؤنٹ سے پنتالیس ہزار روپے کا نقصان کیے بغیر انہیں اپنے ساتھ کامیابی سے گھر واپس لے آئی۔
لیکن اس دن میں یہ سوچتی رہی کہ جو خاتون مشکل سے کہیں جاتی ہیں اور ہمیں پیسے بچا بچا کر رکھنے کا کہتی ہیں، وہ کیسے کچھ ٹک ٹاک ویڈیوز کے اثر میں اپنے گھر سے اتنی دور ایک ایسی چیز خریدنے پہنچ گئیں، جس کے بارے میں انہیں کچھ زیادہ معلوم نہیں تھا۔
یہ سوشل میڈیا کا اثر ہے جو اس دور میں ہم پر بری طرح حاوی ہو چکا ہے۔ ہمارے گھر ایسی چیزوں سے بھرے پڑے ہیں، جو ہماری ضرورت نہیں تھی لیکن بس سوشل میڈیا کے اثر میں ہم نے وہ چیزیں خرید لیں، ایک دوبار استعمال کیں اور پھر گھر کے کسی کونے کھدرے میں سنبھال کر رکھ دیں۔ ہم نے جیسے اپنی فیصلہ سازی کی صلاحیت سوشل میڈیا کے حوالے کر دی ہے۔ سوشل میڈیا اس صورتحال کا فائدہ اٹھا کر ہمارے بینک اکاؤنٹس خالی کر رہا ہے۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارمز ہمیں مسلسل اسکرول کرنے پر مجبور کرنے کے لیے ڈیزائن کیے گئے ہیں۔ ہم ہر پلیٹ فارم پر سینکڑوں اشتہارات اور اثر انداز مواد دیکھتے ہیں، جو ہماری استعمال کرنے کی خواہش کو بڑھا رہے ہیں۔ ہمارے پسندیدہ انفلوئنسر جو استعمال کرتے ہیں، ہم وہ خریدنا چاہتے ہیں۔ اب وہ چاہے میک اپ ہو، برتن ہوں، کپڑے ہوں، جوتے ہوں، زیورات ہوں، یا گھر اور دفتر کا کوئی سامان ہو۔ ہم اپنا محنت سے کمایا ہوا پیسہ فضول میں خرچ کر دیتے ہیں۔ دوستوں کی چھٹیوں کی تصاویر، ان باکسنگ ویڈیوز، اور لائف اسٹائل پوسٹس کا مسلسل سلسلہ ہمارے اندر کسی چیز سے محروم رہ جانے کا خوف پیدا کرتا ہے، جو ہمیں اپنی حیثیت سے زیادہ خرچ کرنے پر مجبور کرتا ہے۔
مسلسل موازنے اور اس سے پیدا ہونے والی بےچینی کا ذہنی بوجھ بالواسطہ طور پر ہمارے مناسب مالی فیصلے کرنے کی صلاحیت کو متاثر کر رہا ہے۔ اگرچہ سوشل میڈیا فطری طور پر منفی نہیں ہے لیکن ہمارے اخراجات کی عادات اور مالی حالات پر اس کے کافی مضبوط اثرات پڑ رہے ہیں۔
ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے بٹوے کی حفاظت کے لیے اور امیر ہونے کے لیے ان پلیٹ فارمز کو آگاہی کے ساتھ استعمال کریں۔ اپنے لیے سوشل میڈیا کے استعمال کے حوالے سے حدود مقرر کریں۔ اپنے آپ سے عہد کریں کہ آپ کچھ بھی خریدنے سے پہلے خود سے کم از کم تین بار پوچھیں گے کہ آپ وہ چیز کیوں خرید رہے ہیں۔۔ کیا آپ کو واقعی اس کی ضرورت ہے؟ ہے تو کتنی؟ ایک ہفتے، ایک مہینے، چھ مہینے اور ایک سال بعد وہ چیز آپ کے استعمال میں ہوگی بھی یا نہیں؟ کیا اسے خرید کر آپ کی زندگی میں کوئی مثبت تبدیلی آئے گی؟
ان سوالات کے جوابات آپ کو ڈجیٹل مواد کے ساتھ ایک صحت مند تعلق پیدا کرنے میں مدد دیں گے اور قوی امکان ہے کہ آپ کے بینک اکاؤنٹ کو بھی خالی ہونے سے بچائیں گے۔ ایسا کر کے آپ امبانی تو نہیں بن پائیں گے، تاہم زندگی میں کبھی کسی کے محتاج ہونے سے بچ جائیں گے۔ ورنہ غیر ضروری چیزوں پر پیسے خرچ کرتے کرتے آپ کسی دن شدید ضروری چیزوں کو بیچ کر پیسے حاصل کر رہے ہوں گے۔
بشکریہ: ڈی ڈبلیو اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)