اپنے بچے قتل کرنے کا الزام: رہائی پر ماں ’سائنس‘ کی شکر گزار

ویب ڈیسک

آسٹریلیا میں اپنے چار بچوں کو ’قتل کرنے کے جرم‘ میں بیس سال سزا کاٹنے والی ماں کو منگل کے دن رہا کر دیا گیا ہے۔ خاتون نے اس فیصلے کو ’سائنس کی فتح‘ قرار دیا، جنہیں ایک سائنسی تحقیق میں غیر متوقع پیش رفت کے بعد رہائی ملی

کیتھلین فولبگ کو 2003 میں اپنے چار نوزائیدہ بچے ’قتل کرنے کے جرم‘ میں جیل بھیج دیا گیا تھا، جن کی 1989 اور 1999 کے درمیان الگ الگ موت واقع ہوئی تھی

فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق اموات سے ان کا تعلق جوڑنے والے فرانزک شواہد کی کمی کے باوجود انہیں قصوروار ٹھہرایا گیا تھا۔ وہ ثابت قدم رہیں اور بیس سال کی سزا کے دوران وہ جرم قبول نہیں کیا، جس میں انہیں سزا سنائی گئی تھی

حالیہ برسوں میں ہونے والی سائنسی پیش رفت میں چند جینیاتی تبدیلیوں کا انکشاف ہوا ہے، جن کے باعث بعض نوزائیدہ بچوں کی موت کی وضاحت کرنے میں سائنس کو مدد ملی۔ کیتھلین فولبگ کو جیل سے رہا کرنے کی راہ اسی تحقیق کی وجہ سے ہموار ہوئی

ان کی مقدمے پر کی گئی ایک انکوائری میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ نئے شواہد سے یہ معلوم ہوا کہ ان کے جرم کے بارے میں اتنے شکوک موجود ہیں کہ انہیں بری کیا جا سکتا ہے

رہائی کے بعد اپنے پہلے بیان میں کیتھلین فولبگ نے کہا ”میں معافی ملنے اور جیل سے رہا ہونے پر انتہائی شکر گزار ہوں۔ آج سائنس اور خاص طور پر سچائی کی فتح ہوئی ہے“

پچپن سالہ خاتون نے ایک مختصر وڈیو پیغام میں یہ بھی کہا کہ وہ اپنے بچوں کے لیے ہمیشہ اداس رہیں گی، وہ انہیں یاد کرتی ہیں اور ان سے بے حد پیار کرتی ہیں

فولبگ نے اپنے دوستوں اور حامیوں کا شکریہ ادا کیا جنھوں نے گذشتہ چند سالوں میں مقدمے کا دوبارہ جائزہ لینے حوالے سے مہم چلائی ہے۔ ”میں اس اذیت سے ان کے بغیر کبھی بھی نہ بچ سکتی“

نیو ساؤتھ ویلز کی گورنر مارگریٹ بیزلے نے کیتھلین فولبگ کو اس وقت معاف کر دیا، جب طویل عرصے سے جاری تحقیقات میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ اس امر میں ’معقول شک‘ کی گنجائش موجود تھی کہ انہوں نے اپنے بچوں کو قتل کیا تھا

ان پر آغاز میں اپنے بچوں کو کچلنے کا الزام تھا تاہم شواہد کے مطابق بچوں کی موت ایک نایاب جینیاتی عارضے کے باعث ہوئی

اگرچہ انہیں آزادی مل گئی ہے، لیکن کیتھلین فولبگ کو اب اپنی سزائیں باضابطہ منسوخ کروانے کے لیے ایک علیحدہ قانونی عمل سے گزرنا ہوگا

کیتھلین فولبگ کی وکیل رینی ریگو کا کہنا تھا کہ آسٹریلیا کے عدالتی نظام نے انہیں ہر قدم پر ناکام کیا اور اس کیس کو دوبارہ کھولنے میں حکام کو بہت زیادہ وقت لگا

انہوں نے نامہ نگاروں کو بتایا ”اگر آسٹریلیا واقعی اس المناک کہانی سے کچھ سیکھنا چاہتا ہے تو وہ سزا کے بعد نظر ثانی کے قانونی نظام پر سنجیدگی سے غور کرے۔ ممکنہ تفتیش کے ذریعے۔۔۔ ان کے بچوں کی موت کی وجہ سمجھنے کی کوشش کرنے کی بجائے ہم نے انہیں جیل میں ڈال دیا، انہیں قید کر دیا، انہیں آسٹریلیا کی بدترین خاتون سیریل کلر کہا“

رینی ریگو نے کہا کہ کیتھلین فولبگ کی قانونی ٹیم ان کا مجرمانہ ریکارڈ ختم کروانے کی کوشش کرے گی

آسٹریلین اکیڈمی آف سائنس، جس نے کیتھلین فولبگ انکوائری میں اہم کردار ادا کیا، نے ان سزاؤں کو ’آسٹریلیا میں انصاف کی سب سے بڑی خلاف ورزی‘ قرار دیا

چیف ایگزیکٹیو انا ماریا عرابیہ نے قومی نشریاتی ادارے اے بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ”اس کیس نے واضح طور پر ظاہر کیا ہے کہ نظام انصاف کے پاس نئی معلومات، بالخصوص سائنسی معلومات پر غور کرنے کے لیے کوئی طریقہ موجود نہیں ہے“

کیتھلین فولبگ کو پیر کو ریاست نیو ساؤتھ ویلز کے شمال میں واقع گرافٹن کی ایک جیل سے رہا کیا گیا، جہاں وہ کم از کم پچیس سال کی سزا کاٹ رہی تھیں

فولبگ کو جیل کے دروازے پر ان کی دیرینہ دوست ٹریسی چیپمین ملنے آئی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ فولبگ نے رہائی کا پہلا دن معمول کی آسائشوں سے خوشی حاصل کرتے ہوئے گزارا

ان میں ایک آرام دہ بستر، پیزا، گارلک بریڈ، کاہولا اور کوک شامل ہیں۔ چیپمین نے صحافیوں کو بتایا کہ فولبگ کو سمارٹ فون اور جدید ٹیکنالوجی دیکھ کر بہت حیرت ہوئی۔ ”کیتھلین فولبگ آہستہ آہستہ سمارٹ فونز اور آن ڈیمانڈ ٹیلی ویژن جیسے جدید ٹیکنالوجی کے عجائبات کو سمجھنے کی کوشش کر رہی ہیں“

ٹریسی چیپمین نے نامہ نگاروں کو بتایا ”وہ پہلی بار ایک اصلی بستر پر سوئیں، انہوں نے ایک اصلی کراکری کپ میں چائے پی، جس کے ساتھ ہلانے کے لیے چمچ بھی اصلی تھے۔۔ آپ سب کو یہ عام سی بات لگتی ہے لیکن وہ بہت شکر گزار ہیں۔ جدید ٹیلی فونز نے انہیں تھوڑا سا پریشان کر دیا ہے۔“

انھوں نے کہا ”ان کے دل میں کسی کے لیے نفرت نہیں ہے۔ وہ صرف ایسی زندگی گزارنا چاہتی ہیں جو وہ 20 برس سے نہیں گزار سکیں۔ وہ آگے بڑھنا چاہتی ہیں“

فولبگ نے ہمیشہ سے ہی اپنی بے گناہی کی بات کی ہے اور اپنی سزا کے خلاف دو ناکام اپیلیں بھی کی ہیں۔ اس سے قبل ایک انکوائری میں ان کی سزا برقرار رکھی گئی تھی۔

تاہم پیر کو نیو ساؤتھ ویلز کے اٹارنی جنرل نے کہا کہ فولبگ کو غیرمشروط معافی دے دی گئی ہے کیونکہ ان کے مقدمے میں ایک اور انکوائری ان کے حق میں آئی ہے۔

اس انکوائری میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ چاروں بچے طبعی موت مر سکتے ہیں۔

امیونولجسٹ کی ایک ٹیم کو معلوم ہوا کہ فولبگ کی بیٹیوں سارہ اور لورا میں ایک جینیاتی میوٹیشن تھ جو اچانک دل کا دورہ پڑنے کا باعث بن سکتی ہے۔

اس دل کے عارضے کو کالموڈولینوپیتھی کہا جاتا ہے کہ یہ اتنی نایاب بیماری ہے کہ پوری دنیا میں صرف 134 ایسے کیسز کی تشخیص ہوئی ہے۔

اس حوالے سے بھی شواہد سامنے آئے کہ ان کے بیٹے میں ایک ایسی جینیاتی میوٹیشن تھی جو اچانک مرگی کا دورہ پڑنے کا سبب بن سکتی ہے۔ عدالت کو بتایا گیا کہ ان کے بیٹے پیٹرک کو موت سے قبل دورے پڑنا شروع ہو گئے تھے۔ یہ بھی کہا گیا کہ فولبگ کی جانب سے ڈائری میں لکھی گئی عبارتوں کو ان کی جانب سے اقرارِ جرم کے طور پر نہیں دیکھنا چاہیے۔

ان کے سابق شوہر کریگ فولبگ نے ان کی ڈائری میں عبارتیں پڑھنے کے بعد پولیس سے رابطہ کیا تھا، جن سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ فولبگ نے بچوں پر تشدد کیا تھا۔

وہ اب بھی یہی سمجھتے ہیں کہ ان کی اہلیہ ان کے بچوں کی موت کی ذمہ دار تھیں اور ان کے وکیل کا کہنا تھا کہ فولبگ کی رہائی نے ’دو دہائیوں سے ان کے موکل کو ہونے والی اذیت میں اضافہ کیا ہے۔‘

فولبگ کی سزائیں ختم ہونے کی صورت میں وہ ریاست سے بھاری ہرجانہ مانگ سکتی ہیں۔

اگر ان کی اپیل کامیاب ہوتی ہے تو نیو ساؤتھ ویلز حکومت کے خلاف قانونی کارروائی کی جا سکتی ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close