ملیر ایکسپریس وے اور شہروں کی نقشہ سازی

عارف حسن (ترجمہ: امر گل)

کراچی میں گزشتہ دو دہائیوں کے دوران بہت سا شاندار اور مہنگا انفراسٹرکچر تعمیر کیا گیا ہے۔ تاہم، اس میں سے زیادہ تر نے شہر کی تاریخ، گرین بیلٹ اور تعمیراتی ورثے کو مٹا دیا ہے۔ اس نے آثار قدیمہ کی جگہوں، صدیوں پرانی بستیوں، مذہبی اور تعلیمی اداروں، لوگوں کے گھروں کو تباہ کیا، اور بہت سے نوجوانوں کو ان کی تعلیم اور روزگار سے محروم کر دیا۔

جامعہ کراچی کے سامنے ’مرلی‘ پہاڑیاں کئی تہذیبوں کی تہوں پر مشتمل ہیں، جن کا تعلق قدیم پتھر کے دور، جدید پتھر کے دور اور وادیِ سندھ کی تہذیب سے ہے۔ یہ اب گلستانِ جوہر کی تعمیرات کے نیچے دفن ہو چکی ہیں۔

بحریہ ٹاؤن نے بدھ مت کے آثار کو نگل لیا ہے اور اس علاقے کی غیر محسوس ثقافت کو مٹا دیا ہے، ساتھ ہی زرعی زمینوں اور جنگلات کو بھی، جنہیں کراچی کے ہر ترقیاتی منصوبے میں محفوظ رکھنے کی سفارش کی گئی تھی۔ کراچی کے قدرتی نکاسیِ آب کے نظام پر بھی قبضہ کیا گیا ہے، جس سے شہر میں سیلاب کی شدت میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ علاقے اب ریئل اسٹیٹ کی ترقی کے لیے دستیاب ہیں۔

وہ شہر جن کی تاریخ نہیں ہوتی، وہ خود ایک تاریخ تخلیق کرتے ہیں۔ جبکہ ہم، اپنی موجودہ تاریخ کو مٹا رہے ہیں۔ یہی حال ملیر ایکسپریس وے کا بھی ہے، جو زیر تعمیر ہے اور جس کی گزرگاہ میں، ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق، اہم مقامات موجود ہیں۔

حکومت کا دعویٰ ہے کہ ایکسپریس وے کے ڈیزائن میں ایسی تبدیلی کی گئی ہے کہ ایک بھی عمارت مسمار نہیں کی جائے گی اور نہ ہی کسی ادارے کی عمارت متاثر ہوگی۔ تاہم، اس علاقے میں رہنے والی کمیونٹی تنظیموں اور این جی اوز کا کہنا ہے کہ ایکسپریس وے کی تعمیر کی وجہ سے بہت سی اداروں کی عمارتیں اور پوری کی پوری بستیاں مسمار ہو جائیں گی۔

عارف حسن کا یہ کالم بھی پڑھیں:

جب آپ ماڑی پور روڈ سے ہاکس بے کی طرف جاتے ہیں، تو سمندر سے تقریباً دو کلومیٹر دور ایک کنکریٹ کی دیوار سڑک کے بائیں جانب دکھائی دیتی ہے۔ یہ دیوار ہاکس بے ڈرائیو تک پہنچ کر بائیں جانب مڑ جاتی ہے اور تقریباً ایک کلومیٹر تک جاری رہتی ہے۔ دیوار سے

 

پہلے کے تجربات کو دیکھیں تو ہمارے پاس کمیونٹی اور این جی اوز کے تخمینوں کو درست ماننے کے لیے تمام وجوہات موجود ہیں، جبکہ حکومت کے تخمینے معروضی حقائق کے مطابق درست طریقہ سے ترتیب نہیں دیے گئے۔ بہت سی پرانی بستیاں بھی مسمار کی جائیں گی، ساتھ ہی ایک اہم لائبریری بھی۔

ایک بلوچ دانشور، پروفیسر غلام حسین نے ایک امرود کا باغ عطیہ کیا تھا، جہاں علمی اور ادبی محفلوں کا انعقاد ہوتا تھا۔ اس علاقے کے لوگوں نے اس عمل کو پروان چڑھایا۔ بعد میں، پروفیسر غلام حسین نے اس جگہ کو ایک لائبریری میں تبدیل کر دیا جسے اساتذہ، صحافی اور طلباء اور علاقے کے لوگ استعمال کرتے ہیں۔ لائبریری کا نام سید ہاشمی کے نام پر رکھا گیا، جو ایک قابلِ احترام مقامی استاد تھے۔ چاہے لائبریری مسمار نہ ہو، لیکن چونکہ یہ ٹریفک کے تبادلے کے مقام پر واقع ہے، اس کا استعمال تقریباً ناممکن ہو جائے گا۔ اس میں 25,000 سے زائد کتابیں موجود ہیں، جن میں سے بہت سی بلوچی زبان میں ہیں۔ یہ نہ صرف اس علاقے بلکہ سندھ کی بلوچی بولنے والی آبادی کے لیے بھی ایک بڑا نقصان ہوگا۔

بالآخر، ڈویلپرز لائبریری اور اس کے اردگرد کی زمین کو کثیر المنزلہ کنکریٹ ہاؤسنگ میں تبدیل کر دیں گے، جو حرارت کا ایک جزیرہ بنائے گا اور اس علاقے کی بھرپور حیاتیاتی تنوع کو تباہ کر دے گا، جسے اس علاقے کے نوجوانوں نے خوبصورتی سے دستاویزی شکل دی ہے۔

یہ خبر بھی پڑھیں:

ملیر ایکسپریس وے کی تعمیر کی راہ ہموار کرنے کے لیے سید ہاشمی ریفرنس لائبریری کو منہدم کیا جا رہا ہے۔ سرکاری حکام ملیر ٹاؤن پہنچے، جو ملیر ندی کے کنارے واقع ہے، اور لائبریری اور دیگر کئی دیہات کو مسمار کرنے کے لیے

ملیر ایکسپریس وے کی منظوری میں حکومت کی جانب سے سنگین بے قاعدگیاں ہیں۔ اس قسم کے انفراسٹرکچر کے لیے، ماحولیات پر اثرات کی جانچ (EIA) کی ضرورت ہوتی ہے، جو انفراسٹرکچر کی تعمیر سے پہلے کی جانی چاہیے۔ تاہم، ایکسپریس وے کا ڈیزائن اور تعمیر ای آئی اے کے بغیر ہی شروع ہو گئی اور عوامی سماعتیں منعقد نہیں کی گئیں۔ مزید یہ کہ یہ سوال کہ کیا واقعی اس ایکسپریس وے کی ضرورت تھی، جب کہ موجودہ سڑکوں کا نظام پہلے سے موجود ہے، اس پر بھی غور نہیں کیا گیا۔

اوپر دیے گئے مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے، کچھ اہم نکات سامنے آتے ہیں؛ سب سے پہلے، کسی بھی انفراسٹرکچر کی ترقیاتی منصوبہ بندی سے پہلے، پروجیکٹ کے علاقے میں موجودہ انفراسٹرکچر کی نقشہ سازی کی جانی چاہیے، ساتھ ہی گھروں اور خاندانوں کی تعداد کا تخمینہ لگانا چاہیے۔ تعلیمی، طبی اور ثقافتی اثاثوں کی نشاندہی کی جانی چاہیے، ساتھ ہی ماحولیاتی اثاثوں جیسے نباتات اور حیوانات اور ان کی موجودگی کے مقامات کا تعین کیا جانا چاہیے۔

اور سب سے اہم بات، انفراسٹرکچر کی تعمیر کی ضرورت کا تعین ہونا چاہیے۔ ملیر ایکسپریس وے کے معاملے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی اس ایکسپریس وے کی ضرورت تھی، یا موجودہ انفراسٹرکچر کو اس مقصد کے لیے بہتر کیا جا سکتا تھا، جس کے لیے ایکسپریس وے تعمیر کی جا رہی ہے؟ عوامی معلومات کے مطابق، ایسا نہیں کیا گیا، اور اگر کیا گیا، تو اسے ایکسپریس وے کی تعمیر کا فیصلہ کرنے سے پہلے عوامی سطح پر نہیں لایا گیا۔

یہ بات اچھی طرح سمجھی جاتی ہے کہ سرکاری اداروں کو درپیش مسائل کی وجہ سے، وہ اس قسم کے عمل کو مؤثر طریقے سے انجام نہیں دے پاتے۔ لہٰذا، جامعات کے آرکیٹیکچر اور ترقیاتی مطالعات کے شعبہ جات کی شمولیت ضروری ہے۔ وہ اس قسم کی نقشہ سازی کو اپنے علمی پروگراموں کا حصہ بنا سکتے ہیں۔ یہ نہ صرف منصوبوں میں مددگار ثابت ہوگا، بلکہ شہر کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے نقشے اور لٹریچر بھی تخلیق کرے گا۔ یہ انہیں ایک ایسے شہر کے بہتر شہری بھی بنائے گا، جس کا کوئی بھی حقیقی خیال نہیں رکھتا، سوائے کچھ رومان پروروں کے۔۔

بشکریہ ڈان نیوز۔

 

ملیر ایکسپریس وے کراچی کے بچے کھچے گرین بیلٹ کو کھا جائے گا

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close