چھوٹا سا قد تھا ان کا، باریک بال سر کے، اکثر ایک رومال باندھا ہوتا، تین انگل داڑھی، ہر وقت چلتے رہتے تھے، کبھی ٹھوکر کھاتے، گِر جاتے، اٹھتے، کپڑے صاف کرتے، جہاں چوٹ لگی ہوتی گھر جا کے بتاتے، دوا لیتے اور اگلے کام کے لیے دوبارہ تیاری پکڑ لیتے۔
میں نے انہیں بیٹھے یا لیٹے ہوئے کم ہی دیکھا۔ آٹزم تھا انہیں، ایک دوست کے ماموں تھے، سمجھ لیں کہ صاف ستھرے سے ملنگ بالکل، گلی سے گزرتے جب بھی ملاقات ہوتی، میں رکتا، ادب سے سلام کرتا، دونوں ہاتھ آگے کرتا، مصافحے کے بعد میرا ایک ہی سوال ہوتا تھا؛ ’حاجی صاحب کیسے ہیں؟ طبیعت ٹھیک ہے؟‘ ان کا جواب آج تک میرے کانوں میں انہی کی آواز لیے گونجتا ہے؛ ’شکر ہے، بڑا شکر ہے، بہت شکر ہے!‘
ان کے سافٹ ویئر میں ناشکری تھی ہی نہیں۔ شاید، گِلہ کرنے پہ آتے تو ان سے زیادہ کسی کو اس دنیا میں کیا شکایت ہو سکتی تھی؟ یہاں بھیجے گئے لیکن ایسے وجود میں کہ جس کا ہونا یا نہ ہونا برابر ہو؟
ان کا یہ شکر میرے دل میں اٹک جاتا تھا۔ مجھے ہر حال میں شکر کرنا بڑی عجیب بات لگتی تھی۔ یہ کیا ہوا کہ دنیا محلوں سے، بڑی بڑی گاڑیوں سے، خوبصورت جگہوں سے، سونے کی اینٹوں سے اور لامحدود خزانوں سے بھری پڑی ہو اور ایک انسان کسی کونے میں بیٹھا حال مست صرف شکر ادا کیے جا رہا ہو، یہ ناانصافی نہیں ہو گی اس بندے کی خود اپنے ساتھ؟ کیا اس شکر کے بعد وہ کوشش کرنے، محنت کرنے یا مستقبل بنانے سے بالکل بے فکرا نئیں ہو جائے گا؟
یہ سب کچھ میں سوچتا تھا، کہہ نہیں سکتا تھا کسی سے، ہمارے یہاں ناشکرا پن ویسے بھی بہت برا سمجھا جاتا ہے لیکن انگلیوں پہ گن سکتا ہوں کہ پچھلے پچیس تیس سال کے دوران زندگی نے جتنے لوگوں سے ملوایا، ان میں سے مکمل شکرگزاری کے ساتھ زندگی کرنے والے شاید پندرہ یا بیس لوگ ہوں گے، اس سے زیادہ بالکل نہیں!
میں نے ان کی ذہنی صحت بہترین دیکھی، انہیں زیادہ تر وقت ہنستے مسکراتے دیکھا، انہیں کبھی کسی تھیراپی کی ضرورت نہیں پڑی، برے سے برے حالات میں انہوں نے کبھی خودکشی کا نہیں سوچا اور سب سے بڑی بات یہ کہ زندگی نے انہیں جو کچھ دیا، اسے انہوں نے بھرپور انجوائے بھی کیا۔
وجہ سادہ ترین تھی، انہیں پتہ تھا ان کی ضروریات کیا ہیں، کسی دوسرے کی زندگی دیکھ کے وہ اس سے اپنا مقابلہ نہیں کرتے تھے، بلکہ ایک اور چیز جو ان سب کے درمیان مشترک تھی، وہ یہ کہ باقاعدہ اگلے کو دل سے دعا دیتے تھے کہ خدا نصیب کرے، اور وہ دعا ان کی آنکھوں سے چھلکتی بالکل ایک سچائی کی طرح نظر بھی آتی تھی۔
اب یہاں دو مسئلے اور تھے۔ ایک تو یہ کہ ہو سکتا ہے ان لوگوں کی طبیعت خود سے ایسی ہو کہ وہ بالکل قناعت پسند اور سکون سے رہنے والے انسان ہوں، دوسرا سوال یہ تھا کہ ایک بندہ اگر ایسا مطمئن قسم کا شکرپذیر جاندار بن جائے تو زندگی آگے کیسے بڑھے گی؟ اچھے حالات کیسے آئیں گے؟ گھر بیٹھے بیٹھے خالی شکر کر کے سب ٹھیک کس طرح ہو جائے گا؟
وقت نے مجھے دکھایا، وہی پندرہ بیس جو لوگ تھے، ان میں سے ہر ایک کی زندگی انتہائی نارمل اور پرسکون گزری، انہیں کوئی بڑی کامیابی نہیں ملی لیکن وہ کبھی ایسے دیوالیہ نہیں ہوئے کہ سڑک پہ آ گئے ہوں اور نہ ہی ایسی کسی بیماری کا شکار ہوئے کہ انہیں کسی نفسیاتی ڈاکٹر سے وقت لینا پڑا ہو۔ رہی بات طبیعت کی، تو مجھے لگتا ہے مذہب پسند ہونے کی وجہ سے ان کا ذہن اسی طرح فارمیٹ ہو چکا تھا کہ شکرگزاری کے علاوہ انہیں کوئی چیز نظر نہیں آتی تھی۔
اب یہاں ایک اور سوال تھا کہ دنیا کا ہر مذہب ہمیں ہر حال میں شکر کرنے کی تلقین کرتا ہے، لیکن سائنس کیا کہتی ہے؟ ظفر سید صاحب کی شکل میں اس کا جواب مجھے مل گیا۔ اگلے دن کہنے لگے کہ یار آپ Gratitude Therapy پہ کیوں نہیں لکھتے؟ پوچھا سر وہ کیا ہے؟ بتانے لگے کہ مغرب میں کیسے باقاعدہ یہ ایک تحریک کی شکل اختیار کر چکی ہے اور لوگ کس طرح اس میں دلچسپی لے رہے ہیں۔
یہاں ایک ٹکراؤ تھا، کیا میں اس بات کی ری انفورسمنٹ کروں گا، جو کئی ہزار سال سے دنیا کے بڑے لوگ اپنے پیروکاروں سے کہتے چلے آ رہے ہیں؟ اس میں نیا کیا ہو گا؟ ایک پرانے نظریے پہ اس کے ٹھیک یا غلط ہونے کی مہر لگانے والا میں کون ہوتا ہوں؟ بھئی سبھی کہتے ہیں شکر کرو، ہر وقت کرو، برکت ہوتی ہے، زندگی اچھی گزر جاتی ہے، اب سائنس بھی کہہ رہی ہے تو میرا کیا حصہ ہوا اس عقل والی بات میں؟
پھر مجھے وجاہت بھائی یاد آ گئے اور اس سوال کا جواب مل گیا۔ جن دنوں میں ان کے یہاں باقاعدگی سے جاتا تھا اور ویب سائٹ پبلشنگ سمیت زندگی کا ہر گیان سیکھتا تھا سمیٹتا تھا، ان میں سے ایک روز میں نے پوچھا، ’بھائی ۔۔۔ زندگی جتنی گزر گئی، پیچھے مڑ کے دیکھتے ہیں تو کیا ملتا ہے؟‘ ایک طویل سانس بھرنے کے بعد بہت دھیمے اور مسکراتے لہجے میں کہنے لگے، ’آئی آلویز فیل گریٹیٹیوڈ ٹورڈز لائف‘ (زندگی کے لیے میرے پاس بس شکرگزاری کا جذبہ ہے۔)
تب میں نے فوراً انہیں فون کیا، اسی وقت جب یہ تحریر لکھ رہا تھا، پوچھا بھائی آپ نے ایسا کہا تھا آٹھ سال پہلے، وجہ کیا تھی؟ کہنے لگے وجود کا شکریہ، جب تک ہم موجود ہیں تب تک یہ سب کچھ ہے، جب نہیں ہیں تو سب ختم، When we cease to exist تو پھر کیا باقی ہو گا؟ تو یہ شکریہ وجود اور Nothingness کے درمیان تقابل کا تھا۔
وجاہت مسعود عقلیت پسند آدمی ہیں، عالم ہیں، پاکستان میں بائیں بازو کے جید صحافیوں میں سے ہیں، تو جب شکرگزاری ان کے یہاں اور میرے دوست کے ماموں صاحب میں مشترک ہو سکتی ہے تو پھر یہ نظریہ تو نہ ہوا، حقیقت ہو گئی، کہ نہیں؟
اب اس جدید دور میں شکر کیسے ہو سکتا ہے؟ گریٹیٹیوڈ تھیراپی کی جدید تحقیق کہتی ہے کہ آپ باقاعدہ ایک ڈائری بنائیں، اس پہ روزانہ وہ سارے لمحات درج کریں کہ جب جب آپ کو ایسا لگا تھا کہ یار یہ کچھ اچھا ہوا ہے، اور جس کے لیے آپ شکرگزار ہو سکتے ہوں، اور وہ صبح کی خوشبودار چائے سے لے کر اپنی ٹانگوں پر شام کی ایک پرفضا واک تک کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ روزانہ کم از کم چار پانچ ایسے خوشگوار لمحات کو سکون سے لکھیں، ہفتے دو ہفتے بعد اسے پڑھتے رہیں، ریسرچ کہتی ہے کہ ایسا کرنے سے اچھا خاصا افاقہ ممکن ہے۔
جو بات میں سمجھ پایا، وہ یہ ہے کہ شکرگزاری بے شک دنیا کی بڑی طاقتوں میں سے ایک ہے لیکن یہ کسی وقت چھن بھی سکتی ہے، حالات کب کہاں لے جائیں، کوئی نہیں جانتا، لیکن اتنا میں نے دیکھا کہ جو لوگ اس طبیعت کے تھے، وہ مطمئن اور باعزت زندگی گزار گئے، کبھی ڈپریشن کا شکار ہوئے بھی تو چند دن میں باہر نکل آئے ۔۔۔ جو نہیں تھے، خدا ان کے لیے زندگی آسان کرے، وہ پریشان ہی رہے۔
بشکریہ انڈیپینڈنٹ اردو۔