بچوں میں احساس ذمہ داری

آمنہ سویرا

ہم زندگی کے بہت سے معاملات میں مغربی ممالک کی طرف دیکھنے کے عادی ہیں جو کہ بعض اوقات اتنا غلط بھی نہیں۔ بات اگر بچوں کی تربیت اور نشو و نما کی کی جائے تو یہاں ایک واضح فرق خاندانی اور معاشرتی نظام کا آ جاتا ہے۔

مغرب میں خاندانی نظام کی بُنَت زرا اور طرح سے ہے اور ہمارے ہاں اس سے کچھ مختلف۔۔ ایسے میں جب بڑھتی عمر کے بچوں کے رویوں اور ذمہ داریوں کے حوالے سے بھی بہت سے مسائل سامنے آ رہے ہیں، خاندانی نظام اور طرز معاشرت کے حوالے سے ہم مِن و عَن مغرب یا ترقی یافتہ ممالک سے موازنہ نہیں کر سکتے کہ ہم ہمارا مشرقی خاندانی نظام جوائنٹ فیملی سسٹم پہ زیادہ چل رہا ہے۔ اس لیے ہمیں یہ موازنہ کرتے ہوئے ضرور دھیان رکھنا چاہیے کہ ہم بالکل ویسے اطوار نہیں اپنا سکتے۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ وہ طور طریقے یہاں ’برائی‘ اور عیب قرار پاتے ہیں لیکن عملاً کیا ہو رہا ہے۔

ہم آزادی اور تبدیلی تو مغرب کی قبول کر رہے ہیں لیکن اس کے بدلے میں ان کا دوسرا پہلو ذمہ داریاں اور اس معاملے کی مکمل تصویر نہیں دیکھ رہے۔ جیسے ہمارے ہاں خاندانی نظام اور خاندانی رکھ رکھاﺅ کے تحت افراد کم از کم اپنے اہلِ خانہ یا بچوں کے حوالے سے ضرور ذمہ داری اٹھاتے ہیں جب کہ مغرب میں بچوں کو اگر آزادی دی جاتی ہے تو اپنے کام خود کرنے کی تربیت بھی کی جاتی ہے اور جیسے ہی وہ 18 سال کے ہوتے ہیں گویا ایک نئی اور خود مختار زندگی میں داخل ہو چکے ہوتے ہیں۔ اب انہیں اپنے لیے خود کمانا ہوتا ہے۔

قانونی اور سماجی طور پر وہ صرف اٹھارہ سال سے کم عمری ہی میں اپنے والدین پر انحصار کر سکتے ہیں۔ اس کے بعد ان کے والدین اس کے ذمہ دار نہیں ہیں کہ وہ کیا کھائیں گے اور کیا پہنیں گے یا اپنے اخراجات کہاں سے پورے کریں گے، نیز بے روزگاری یا زندگی کے کسی بھی نشیب و فراز کی صورت میں بھی یہ ذمہ کسی اور پر عائد نہیں ہوتا۔ یہ ضرور ہے کہ وہ فلاحی ریاست ہے تو اپنے شہریوں کو کسی کٹھنائی میں تنہا نہیں چھوڑتی۔ کہیں نہ کہیں انہیں ریاستی قوانین سہارا دیتے ہیں اور وہ زندگی کو آگے بڑھاتے ہیں۔

ہمارے بچے یا ہم سب بچوں کی آزادی کے حوالے سے مغرب کی مثال دیتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ ہمارے ہاں تو بچوں کی شادی ہونے تک وہ والدین ہی کے ساتھ رہتے ہیں اور بہت سی صورتوں میں اپنے والدین کے گھر ہی نہیں، زندگی کی ضروریات کے لیے بھی پورے حق سے ان پر انحصار کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ امر ان کے اندر غیر ذمہ داری اور مستقبل کے حوالے سے ناپختہ کاری کو بڑھاوا دیتا ہے۔ اگرچہ انہیں ضرور والدین کے ساتھ رہنا چاہیے، یہی ریتی رواج ہے لیکن اپنی ذمہ داری کو محسوس کرنا چاہیے۔ اسکولوں اور تعلیمی اداروں میں بھی ایسی فکر پروان چڑھانی چاہیے کہ وہ اٹھارہ سال تک پہنچنے سے پہلے ہی کچھ نہ کچھ آمدنی پیدا کرنے کے لائق ضرور ہو جائیں، تا کہ انہیں دنیا میں زندگی گزارنے کے اصول وضوابط معلوم ہوں۔

ہمارے بچے اگر ذمہ داری قبول کرنے کے قابل نہیں ہوئے یا قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، تو اس میں والدین کے رویے کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اول تو بہت زیادہ لاڈ پیار کے باعث والدین یہ طے نہیں کر پاتے کہ کہاں انہیں اپنے بچے کی انگلی چھوڑ کر اسے اپنے پاﺅں پر چلنا سکھانا ہے۔ کہاں اس سے کوئی کام کروا کر دور سے نگرانی کرنی ہے۔ کب اسے کیا ذمہ داری دینی ہے؟ کہاں اسے کوئی بھی کام خود کرنے کی ترغیب دینی ہے اور کہاں اور کیسے اس کی غلطیوں اور کوتاہیوں کی سلیقے سے نشان دہی کر کے اس کی اصلاح کرنی ہے۔ والدین کے لیے بچے تو ٹین ایج کے بعد تک ویسے ہی بچے رہتے ہیں لیکن انہیں ذرا اپنے لاڈ پیار سے ہٹ کر اس کے مستقبل کو سامنے رکھنا چاہیے کہ وہ اس کے لیے کتنا سود مند ہے؟

کسی کے بھی والدین کو تاعمر اپنے بچوں کے ساتھ نہیں رہنا ہوتا۔ اس لیے والدین کو یہ احساس رکھنا چاہیے کہ بچے کو اکیلے اسکول، کالج یا مزید کسی کام سے جانا چاہیے۔ گھر کے کچھ کاموں کو اپنے ہاتھ میں لینا چاہیے۔ زندگی کی چھوٹی موٹی ذمہ داریاں اور اس سے بھی پہلے کچھ اپنے کام کرنے کا عادی ہونا چاہیے تا کہ اسے کوئی ٹھوکر لگے تو اس کے سر پر والدین اسے سنبھالنے کے لیے موجود ہوں۔ کل کو اگر اسے ایک دم اس منہ زور زمانے کی تند و تیز ہواﺅں کے سامنے کھڑا ہونا پڑا تو کیا ہوگا؟ کہیں اس کی زندگی اتھل پتھل کا شکار ہو کر اسے ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا کر زندگی بھر کے لیے متاثر تو نہیں کر دے گی؟ کہیں اسے کسی غیر معمولی حالات میں گرفتار تو نہیں ہونا پڑے گا؟

ہمارے والدین کو یہ باتیں ہر لمحہ ذہن میں رکھنی چاہییں اور محبت اور لاڈ کے ساتھ آنے والے وقت کے حقائق کے مطابق دھیرے دھیرے بچے کو اپنی ذمہ داری خود اٹھانے کی طرف راغب کرنا چاہیے تا کہ اس کی اصلاح ہو، اس کے اندر ہمت پیدا ہو اور اسے اندازہ ہو کہ دوسروں سے کیسے معاملات طے کرتے ہیں۔ کسی کی برہمی یا شکایت پر کیسے رد عمل دیتے ہیں۔ کسی مسئلے کو حل کرنے کے لیے درست راہ کیا ہوتی ہے وغیرہ وغیرہ۔

ہمیں یقین ہے اگر والدین شروع ہی سے بچوں کی ضدوں اور غیر ذمہ داری پر اپنا مثبت کردار ادا کریں گے تو انہیں آنے والے دنوں میں غیر ذمہ داری کی شکایات نہیں ہوگی۔

بشکریہ: ڈی ڈبلیو اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close