کیا ارشد شریف کیس کو پاکستانی میڈیا پر مناسب کوریج ملی؟

ویب ڈیسک

پاکستان کے معروف ٹی وی اینکر ارشد شریف کے کینیا میں قتل کے بعد اس کیس کے حوالے سے پاکستانی میڈیا نے کوریج تو کی مگر کچھ صحافیوں کا کہنا تھا کہ اس واقعے کی کوریج اس طرح نہیں ہوئی, جیسے ہونی چاہیے تھی

کچھ کا کہنا ہے کہ صحافی برادری صدمے میں تھی، اس لیے انہیں اس کا مارجن دینا چاہیے لیکن آنے والے دنوں میں اس کیس کو لے کر بہت سے سوال اٹھیں گے

نجی ٹی وی چینل دنیا نیوز سے وابستہ اینکر اور ارشد شریف کے ساتھ کام کرنے والے اجمل جامی کا کہنا ہے ’میرا ذاتی نقطہ نظر یہ ہے کہ چونکہ یہ صحافی برادری کا نقصان ہوا ہے تو جس خاندان میں کوئی صدمہ ہوتا ہے، وہ پہلے دن تو اسی کیفیت میں ہوتے ہیں اور پھر اس کے ہوش و حواس درست ہوتے ہیں، پھر وہ سوال اٹھانا یا سوچنا شروع کرتے ہیں۔‘

ان کے مطابق ’میں اپنی برادری کو یہ مارجن دوں گا کہ وہ صدمے سے دوچار رہی لیکن ہر ٹاک شو میں یہ موضوع زیر بحث رہا ہے‘

تاہم اجمل جامی نے کہا ’البتہ اس سب کے باوجود جو سوال سر دست اٹھنے چاہیے تھے کہ وہ کینیا کیوں گئے؟ وہ مشرق وسطیٰ میں کیوں تھے؟ ٹاک شو کیوں چھوڑا؟ ملک چھوڑ کر کیوں گئے؟‘

ان کا کہنا ہے کہ یہ کیس اتنا بڑا تھا کہ اسے ڈاؤن پلے کرنا اتنا آسان نہیں، جیسا پہلے وقتوں میں ہوتا تھا

اجمل کے خیال میں ارشد شریف کا کیس دیگر کیسز سے مختلف ہوگا اور یہ بہت طویل عرصے تک ہمیں ہانٹ کرے گا کیونکہ وہ اپنے پولیٹیکل سٹانس کی وجہ سے دنیا بھر میں جانے جاتے تھے۔ اس کیس کو سلیم شہزاد کی طرح بھول نہیں پائیں گے

لاہور پریس کلب کے صدر اعظم چوہدری کہتے ہیں ’پاکستان میں جب حکومت تبدیل ہوئی تو ان کے لیے ملک میں حالات مشکل کر دیے گئے۔ انہیں ایک پریس ریلیز کے ذریعے دھمکایا گیا کہ ان پر طالبان کا حملہ ہو سکتا ہے، جس کی وجہ سے وہ خاصی پریشانی میں آئے۔ اس کے علاوہ بھی وہ پریشانی اور ذہنی دباؤ میں تھے کیونکہ ان کے خلاف بہت سارے مقدمات مختلف صوبوں، شہروں کے تھانوں میں درج کیے گئے، جس کی وجہ سے ان کے لیے حالات اتنے ناسازگار ہوئے کہ انہیں پاکستان چھوڑنا پڑا‘

اعظم چوہدری کہتے ہیں ’کینیا میں ارشد شریف کے ساتھ جو کچھ ہوا، وہ انتہائی افسوس ناک ہے۔ اس کو حادثہ کہنا زیادتی ہوگی کیونکہ ان کو شارپ شوٹر نے مارا۔ ان کا زخم بتا رہا ہے کہ انہیں ٹارگٹ کیا گیا اور سنائپر سے کیا گیا۔ انہیں گولی سر کے ایسے حساس حصے پر ماری گئی کہ ان کے بچنے کا کوئی امکان باقی نہ رہے۔ کینین پولیس بھی مسلسل اپنا موقف تبدیل کر رہی ہے‘

وہ کہتے ہیں ’افسوس کی بات ہے کہ پاکستان کے اندر ارشد شریف نے اتنا کام کیا لیکن پاکستانی میڈیا کے اندر اسے انڈر پلے کیا گیا۔ حتیٰ کہ جس نیوز چینل کے ساتھ وہ سب سے زیادہ منسلک رہے، اس چینل کا رویہ انتہائی افسوس ناک نظر آیا، وہ اسے مسلسل حادثے کے طور پر رپورٹ کرتے رہے۔ اس چینل پر لوگ سوالات بھی اٹھا رہے ہیں۔ جس پر ان کے حامی یہ کہہ رہے ہیں کہ بدگمانی نہ پھیلائی جائے۔‘

’البتہ ارشد شریف نے جو چینل اب جوائن کیا تھا بطور صدر وہ چینل کچھ حد تک ان کے لیے کھڑا دکھائی دیا۔ انہیں کوریج دی گئی نہ اسے پوری دنیا میں ایک ایشو کے طور پر اٹھایا گیا۔‘

عظیم چوہدری کہتے ہیں ’میرے ذاتی خیال میں یہ ارشد شریف کے قتل کو خراب کرنے کی ایک ایسی سازش یا کارروائی ہے کہ ان کا کیس پوری دنیا کے سامنے اٹھایا نہ جائے کیونکہ اگر میڈیا اس کیس کو نہیں اٹھائے گا تو باقی دنیا بھی اس قتل کو اس سنجیدگی سے نہیں لے گی‘

ان کا مزید کہنا تھا ’کینیا کے میڈیا نے ہم سے زیادہ اچھا رول پلے کیا۔ کینین پولیس جو بار بار اپنا بیانیہ تبدیل کر رہی ہے اس کی وجہ کینیا کا میڈیا ہے کیونکہ انہوں نے وہ وہ سوالات اٹھائے جو وہاں کی پولیس کے بیانیے کی نفی کرتے تھے۔‘

’لہٰذا میں یہ کہتا ہوں کہ پاکستان کے اندر جو ہماری صحافتی تنظیمیں ہیں اور جو ذمہ دار لوگ ہیں یہ ان کی ناکامی تھی کہ ارشد ملک چھوڑ کر جانے پر مجبور ہوئے، ہم سب مل کر انہیں یہاں روک نہ سکے اور ریاستی دباؤ کے سامنے ہم کھڑے نہیں ہو سکے۔‘

سیاسی حلقوں کی بات کی جائے تو انہیں بھی یہی لگتا ہے کہ شاید ارشد شریف کے حوالے سے پاکستانی میڈیا نے ان کے قتل کو اس سنجیدگی سے نہیں اٹھایا، جس طرح اٹھایا جانا چاہیے تھا

پی ٹی آئی کے رہنما فواد چوہدری نے اپنی ٹویٹ میں کہا ’کینیا کا میڈیا ارشد شریف کی شہادت پر پاکستانی میڈیا سے زیادہ اہم سوالات اٹھا رہا ہے، اس سے اندازہ لگا لیں پاکستانی میڈیا اس وقت کتنے زیادہ سینسر شپ اور جبر کا شکار ہے۔

انہوں نے کہا ’اس معاملے پر طاقتور جوڈیشل کمیشن بنانا پاکستان کی جمہوریت کی ضرورت ہے۔ ارشد شریف کا خون رائیگاں نہیں جانے دیں گے۔‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close