پنجرے کی قید اور اڑنے کی بیماری

امر گل

الہاندرو ہودوروسکی کا ایک مشہور قول ہے کہ ”پنجرے میں پیدا ہونے والے پرندے سمجھتے ہیں کہ اڑنا ایک بیماری ہے۔“ ان تیرہ الفاظ میں چھپی معنویت بظاہر مختصر مگر حقیقت میں ایک گہرا فلسفہ پیش کرتی ہے۔ یہ قول زندگی کی ان بندشوں پر سوال اٹھاتا ہے جو ہمیں اندر سے جکڑ کر ہمارے خوابوں کی پرواز کو محدود کر دیتی ہیں۔

تصور کیجیے ایک ایسے پرندے کا جس نے کبھی آزاد فضا کو محسوس نہ کیا ہو، جسے کبھی بادلوں کو چیرتی ہوئی ہوا کا لمس نہ ملا ہو۔ پنجرے کے اندر وہ اپنے پنکھ پھیلانا چاہے تو کانٹے دار سلاخیں اس کی ہر کوشش کو ناکام بنا دیتی ہیں۔ جب پنکھوں کو حرکت میں لا کر اڑنے کا احساس ایک جرم بن جائے، تب وہ اڑنے والے آزاد پرندوں کی پرواز کو کسی بیماری یا عجیب و غریب شے سے زیادہ نہیں سمجھتا۔

یہ قول ہمیں ہمارے اپنے سماجی اور ذہنی پنجرے یاد دلاتا ہے۔ ہم میں سے کتنے ہی لوگ اپنی صلاحیتوں کو محدود کر دیتے ہیں، اپنی اصل خواہشات اور خوابوں کو نظرانداز کر دیتے ہیں، اور اپنے ماحول کے اصولوں میں خود کو قید رکھتے ہیں۔ یہ ماحول ہمیں اس طرح کی حدود میں قید کر دیتا ہے کہ ہم زندگی کے وسیع امکانات اور کھلی فضاؤں کو بھول کر ان کو بیماری سمجھنے لگتے ہیں۔

الہاندرو ہودوروسکی کا یہ قول دراصل گہرے فکری مضامین کا حامل ہے، جو ہمارے سماجی، ذہنی، اور روحانی ماحول کو واضح کرتا ہے۔ اس جملے میں اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ انسان، جس ماحول میں پیدا ہوتا ہے، اکثر اس کو ایک فطری حالت سمجھنے لگتا ہے اور ان تمام امکانات یا آزادیوں سے بے خبر رہتا ہے جو اس کے گرد موجود ہیں۔ اس اقتباس پر مختلف زاویوں سے غور کیا جا سکتا ہے، جن میں نفسیاتی، سماجی، اور فلسفیانہ پہلو شامل ہیں۔

نفسیاتی پہلو سے بات کریں تو ان الفاظ میں ہمارے ذہن کی حدود اور اندرونی قید کی عکاسی کی گئی ہے۔ جس طرح پنجرے میں پیدا ہونے والے پرندے نے کبھی اڑان کو محسوس نہیں کیا، ویسے ہی وہ انسان جو کسی خاص فکر یا ماحول میں پروان چڑھتا ہے، اس کے دماغ کے دروازے بھی بند ہو جاتے ہیں۔ ایک طرح کی ذہنی قید پیدا ہو جاتی ہے جس میں وہ اپنی حقیقی قابلیت کو پہچاننے کے بجائے اپنے ماحول کے اصولوں کو ہی اپنی قسمت سمجھتا ہے۔

نفسیات کے اعتبار سے، اس قول کو ’اکتسابی بے بسی‘ (learned helplessness) کے نظریے سے جوڑا جا سکتا ہے۔ جب انسان کو بار بار ایسی صورتِ حال میں رکھا جائے جہاں اس کے پاس آزادی کا موقع نہیں ہو، تو وہ اس بے بسی کو اپنی حقیقت مان لیتا ہے۔ اس طرح، وہ انسان جو قید و بند میں زندگی بسر کرتا ہے، یہ نہیں جان پاتا کہ آزاد فکری و عملی زندگی بھی ممکن ہے۔

سماجی نقطہ نظر سے، یہ قول ان لوگوں کی حالت بیان کرتا ہے جو کسی خاص سماجی ڈھانچے میں زندگی گزارتے ہیں۔ جیسے کہ طبقاتی نظام، ذات پات، نسلی امتیاز اور استحصالی نظام۔۔ جو لوگ ہمیشہ سے کسی خاص نظام میں پلے بڑھے ہوں، انہیں آزادی اور مساوات کی خواہش عجیب لگتی ہے کیونکہ وہ اس سے واقف نہیں ہوتے۔

یہ قول ہمیں بتاتا ہے کہ ہمیں خود اپنے ماحول کے اثرات کو پہچاننے اور اپنے دماغ کی محدودیت کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ کیا ہم واقعی اپنے خوابوں کو حقیقت سمجھتے ہیں یا اپنے ماحول سے ہم آہنگ ہونے کے لئے انہیں بھول چکے ہیں۔ اس میں یہ پیغام موجود ہے کہ ہم سماجی تعصبات کو چیلنج کریں اور خود کو آزاد کرنے کے لئے معاشرتی حدود سے باہر سوچیں۔

فلسفیانہ سطح پر، یہ اقتباس بنیادی طور پر ’آزادی‘ اور ’پابندی‘ کے تصورات پر روشنی ڈالتا ہے۔ پنجرے میں رہنے والا پرندہ دراصل ہمارے ذہن کی محدودیت اور فکری قید کی علامت ہے۔ یہ ہمیں باور کراتا ہے کہ انسان کس طرح اپنی زندگی کی معنویت کو خود محدود کرتا ہے اور بہت سے مواقع سے محروم رہتا ہے۔

اس بات کو وجودی فلسفے کے نظریات سے بھی جوڑا جا سکتا ہے، جیسے ژاں پال سارتر کا نظریہ کہ انسان آزادی کا ذمہ دار ہے اور اگر وہ اس کو نظرانداز کرتا ہے تو وہ خود کو ایک قید میں ڈال دیتا ہے۔ ایک انسان کو چاہیے کہ وہ اس قید سے باہر نکلے اور اپنی حقیقی فطرت یعنی آزادی اور اختیار کی قدر کرے۔

روحانی نقطہ نظر سے، اس قول میں باطنی آزادی اور روحانی بیداری کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ ہم میں سے اکثر لوگ دنیا کی مادی حقیقتوں اور سماجی اصولوں کے پنجرے میں قید رہتے ہیں اور اپنی حقیقی روحانی ترقی کو بھول جاتے ہیں۔ ہمیں اپنی حقیقت، اپنے مقصد اور اپنی ذات کی تلاش کرنی چاہیے۔

روحانی آزادی کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنے اندرونی خوفوں اور ان خارجی حدود کو ختم کریں جو ہمیں قید میں ڈالے ہوئے ہیں۔ اس میں ایک مثبت سوچ کا عنصر شامل ہے کہ ہم اپنی ذات کی قید سے باہر نکل کر خود کو حقیقی طور پر آزاد محسوس کر سکتے ہیں۔

ان الفاظ میں ایک پہلو تعلیمی اور فکری محدودیت بھی ہے۔ پنجرے میں رہنے والے پرندے کی مانند، بعض اوقات تعلیمی نظام بھی ہمیں مخصوص سوچ کے دائرے میں قید کر دیتا ہے۔ ہم اکثر رسمی تعلیم کو ہی علم کی معراج سمجھتے ہیں اور آزاد فکری اور تنقیدی سوچ سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ہودوروسکی کا یہ قول اس بات کو اجاگر کرتا ہے کہ ہمیں اپنی سوچ کو وسیع کرنے کی ضرورت ہے، نہ کہ وسیع سوچ رکھنے والوں پر بیماری کا فتویٰ صادر کرنے کی۔۔

اس قول میں موجود فکری وسعت ہمیں باور کراتی ہے کہ ہمیں اپنی حدود کو پہچاننا، ان سے آگے بڑھنا، اور ایک وسیع اور آزاد دنیا کو دریافت کرنا چاہیے۔ الہاندرو ہودوروسکی نے دراصل ایک ایسا پیغام دیا ہے جو ہماری زندگی میں جمود کو توڑنے اور اپنی ذات کی جستجو کے لئے ہمیں بیدار کرتا ہے۔

اسی طرح آزادی، شناخت اور ظلم کے خلاف جدوجہد پر اپنی گہری اور پراثر عکاسی کے لئے مشہور فلسطینی شاعر محمود درویش سے منسوب ایک قول ہے ”اگر آسمان سے آزادی کی بارش ہو تو غلام چھتریاں اٹھا لیں گے۔“ یہ جملہ ظلم کے نفسیاتی پہلو پر ایک طاقتور پیغام پیش کرتا ہے: جب آزادی قریب بھی ہو، تب بھی وہ لوگ جنہوں نے غلامی کو اپنی فطرت کا حصہ بنا لیا ہو، اس سے گریز کر سکتے ہیں کیونکہ انہیں آزادی کی اجنبیت یا اس کے ممکنہ چیلنجوں سے خوف ہوتا ہے۔

 

محمود درویش کے یہ الفاظ دراصل ایک گہرا اور تلخ فلسفہ بیان کرتے ہیں۔ اس جملے میں ایک ایسی حقیقت کو نمایاں کیا گیا ہے جو ہماری زندگی کے کئی پہلوؤں پر منطبق ہوتی ہے۔ یہ قول اس جانب اشارہ کرتا ہے کہ غلامی اور محکومی کے طویل تجربات انسان کے ذہن اور سوچ کو اس قدر جکڑ لیتے ہیں کہ جب آزادی کا موقع ملتا ہے تو بھی اس سے بچنے کی کوشش کی جاتی ہے، جیسے یہ کوئی غیر مانوس اور نقصان دہ شے ہو۔

درویش اس قول کے ذریعے بتانا چاہتے ہیں کہ ظاہری قید سے نکلنے کے لئے اندرونی قید کا ٹوٹنا بھی ضروری ہے۔ غلامی محض جسمانی قید نہیں ہوتی، بلکہ ذہنی قید بھی ہوتی ہے جو انسان کو اس کی حقیقی شناخت، امکانات اور خوابوں سے دور رکھتی ہے۔ جب کوئی شخص یا قوم طویل عرصے تک محکوم رہے، تو اس کے اندر خوف اور عدم اعتماد کے ایسے بیج بو دیے جاتے ہیں کہ آزادی بھی انہیں خوفناک اور بے یقینی سے بھرپور نظر آتی ہے۔

اس استعارے کے ذریعے محمود درویش ہمیں اس بات کی یاد دہانی کرواتا ہے کہ اصل آزادی کا مطلب یہ نہیں کہ صرف زنجیروں کو توڑا جائے، بلکہ ذہن اور دل میں موجود اس غلامانہ سوچ کو بھی ختم کیا جائے جو ہمیں کسی بھی نئی یا انقلابی چیز کو قبول کرنے سے روکتی ہے۔ درویش کے اس جملے میں نہ صرف آزادی کی اہمیت بلکہ اس کے لئے ایک ذہنی تیاری اور بیداری کی ضرورت کو بھی اجاگر کیا گیا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close