بلوچستان اور چولستان میں شدید گرمی اور پانی کی قلت

ویب ڈیسک

بلوچستان کے کئی علاقوں کے باسی خشک سالی سے نبرد آزما ہیں اور انہیں اس کے تباہ کن دیرپا اثرات کا سامنا ہے

قلات کے ایک دور افتادہ علاقے گزگ کے قریب جہاں تک رسائی بھی جان جوکھم کا کام ہے وہاں پر دو اطراف سے گھرے پہاڑوں کے بیچ کچھ لوگ زمینداری کرتے ہیں، جن میں طالب نامی شخص بھی ہے

طالب گندم کی فصل تیار ہونے پر اس کے کٹائی کے لیے انتظامات تیاری کررہا ہے تاہم اس بار وہ اس فصل سے مطلوبہ پیدوار اٹھانے سے قاصر ہے اس کی وجہ یہ ہےکہ شدید گرمی اور تیز ہواؤں کے باعث اس کو شدید نقصان پہنچا ہے

طالب نے بتایا کہ یہی حال ہماری سبزیوں اور دوسری فصلوں کا ہے۔ اس کے علاوہ بارشیں نہ ہونے کے باعث زیر زمین پانی کی سطح بھی روز بروز نیچے جارہی ہے

طالب نے خدشہ ظاہر کیا کہ جلد یہاں سے زمینداری کا خاتمہ ہوجائے گا۔ اس علاقے میں ایک بار خشک سالی کے سائے منڈلاتے دیکھ رہا ہوں

حکومت کی طرف سے 16 مئی کو جاری ہونے والے ہفتہ وار خشک سالی کی رپورٹ کے مطابق گذشتہ ہفتے بلوچستان اور سندھ میں کسی علاقے میں بارش ریکارڈ نہیں ہوئی

رپورٹ میں مزید پیش گوئی کی گئی ہے کہ اگلے ہفتے بھی کسی خاص بارش کا امکان نہیں ہے۔ دونوں صوبوں میں ہلکی اور متعدل خشک سالی بدستور برقرار رہے گی

رپورٹ میں ایک چارٹ دیا گیا ہے جس میں ملک بھر میں بارشوں کا ڈیٹا دکھایا گیا ہے، جس کے مطابق ملک بھر میں بارشیں جنوری سے اپریل 2022ع تک انتہائی کم منفی 21۔ 6 فیصد ریکارڈ کی گئی ہے

رپورٹ میں بتایا گیا کہ بلوچستان میں ضلع چاغی، خاران، نوشکی اور واشک کے اضلاع میں معتدل خشک سالی کے اثرات ہیں

ادھر بلوچستان کے موسمیاتی حالات اور قحط سالی پر نظر رکھنے اور تحقیق کرنے والے ڈاکٹر شریف بزدار سجھتے ہیں کہ حالیہ قحط سالی کی لہر بھی موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے ہے

ڈاکٹر شریف بزدار، جو اس وقت ایگری کلچر کالج کوئٹہ میں چئیرمین شعبہ سوائل سائنس میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں، کا کہنا ہے ’ہم جانتے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی کے باعث کبھی بہت بارشیں اور کھبی سیلاب وغیرہ آتے ہیں۔ اس کو ہم غیر یقینی صورتحال کہتے ہیں‘

انہوں نے بتایا کہ بدقسمتی سے گذشتہ سال جو بارشیں ہوئیں ہم نے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی کہ اس کو ذخیرہ کیا جائے۔ جس کی وجہ سے یہ سارا پانی دریاؤں اور سمندر برد ہوگیا

شریف بزدار کہتے ہیں ”میں صورتحال کو اس سے بھی خطرناک دیکھ رہا ہوں۔ مستقبل میں ہمیں اس سے بھی خطرناک ماحول کا سامنا ہوگا۔ اگر ہم پاکستان میں اوسط گرمی کی حدت کو دیکھیں تو ہم دنیا کے باقی ممالک سے 1۔15 ڈگری آگے ہیں“

انہوں نے کہا کہ اس صورتحال کی خرابی میں ایک بڑا کردار میں سولر سسٹم کے تحت لگائے گئے زراعت کے لیے ٹیوب ویل کا بے دریغ استعمال ہے۔ انرجی کی سہولت تو اچھی ہے لیکن جب سارا دن پانی چلتا ہے، جب تک سورج کی روشنی ہے، اور کسی کو اس کی فکر نہیں ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پانی پر بھی ٹیکس لگایا جاتا اس کے چارجز ہوتے

ڈاکٹر شریف کہتے ہیں کہ میرا تعلق بھی چونکہ کوہ سلیمان سے ہے۔ وہاں ایک وقت میں بہت سبزہ، قدرتی چشمے تھے۔ ٹھیک ٹھاک بارشیں ہوتی تھیں۔ لیکن سولر سسٹم نے اس کا بیڑہ غرق کردیا ہے۔ جنگلات کی کٹائی بے دریغ ہورہی ہے۔ پہلے ہمارے لوگوں کے پاس کلہاڑے ہوتے تھے۔ وہ چند ایک ہی درخت کاٹ سکتےتھے۔ اب چین کی بنی مشینیں آئی ہیں جو راتوں رات جنگلات کا صفایا کردیتی ہیں

وہ مزید کہتے ہیں کہ ضلع شیرانی، جو ہمارے کوہ سلیمان سے متصل ہے، وہاں میں دیکھ رہا ہوں کہ ایک ہفتے سے جنگلات میں آگ لگی ہے۔ لیکن اس کو بجھانے اور باقی درختوں کو بچانے کے لیےکوئی منصوبہ بندی نہیں کی جا رہی ہے۔ لوگ روایتی طریقے سے اپنی مدد آپ کے تحت ہاتھ سے اس کو بجھانے کی کوشش کر رہے ہیں

’قدرتی وسائل کے حوالے سے ہماری کوئی منصوبہ بندی نہیں ہے۔ ہم درخت لگانے کا بولتے ہیں لیکن عملاً کچھ بھی کام نہیں ہوتاہے۔ بلوچستان اور پاکستان میں کون سا بڑا ڈیم ان سالوں میں بنایا گیا ہے۔ کوہ سلیمان قدرتی بناوٹ کی وجہ سے ڈیم بنانے کےلیے موزوں علاقہ ہے‘

شریف بزدار سمجھتے ہیں کہ اگر ہماری موسمیاتی تبدیلی اور اس سے نمٹنے کے لیے کوششیں نہیں کی گئی تو ہمیں مستقبل میں قحط سالی سمیت بہت سے قدرتی آفات کا سامنا کرنا پڑے گا

انہوں نے بتایا کہ ہم زراعت میں بے تحاشا کیمیکلز کا استعمال کرتے ہیں۔ جس کے باعث ہماری فضا میں گرمی کی شدت میں اضافہ ہورہا ہے اور اوزون کی لہر کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے۔ جس کا نتیجہ ہمارے سامنے آج کی صورتحال کی شکل میں آ رہا ہے

واضح رہے کہ بلوچستان میں حالیہ کچھ دنوں میں بارشوں کی کمی اور ڈیرہ بگٹی میں ہیضے کی وبا زیر مین پانی کی کمی اور جنگلات میں آگ لگنے کے واقعات تواتر سے ہو رہے ہیں

دوسری جانب پنجاب کا جنوبی علاقہ چولستان ویسے ہی سہولیات اور بنیادی ضروریات زندگی سے محروم ہے، ایسے حالات میں شدید گرمی، ہیٹ اسٹروک کی وجہ سے پانی کو اسٹور کرنے والے متعدد تالاب (ٹوبے) خشک ہونے کے بعد لوگ اور جانور پانی کی بوند بوند کو ترس گئے ہیں

چولستان سے تعلق رکھنے والے مقامی صحافی جواد بلوچ بتاتے ہیں کہ اس علاقے میں انسانوں جانوروں اور فصلوں کا دارومدار بارش پر ہے لیکن بارش نہ ہونے سے مسائل بڑھتے جارہے ہیں۔ چولستان کی جانب آنے والی نہریں بھی بند ہیں. شدید گرمی اور خشک سالی کی وجہ سے جانوروں کے کھانے کا سامان ختم ہو چکا ہے اور پینے کا پانی بھی میسر نہیں۔ ایسی صورتحال میں چولستان کے دوردراز علاقوں میں حالات شدید خطرناک شکل اختیار کرتے جارہے ہیں۔ لوگ نقل مکانی کرنے پر مجبور ہیں

چولستان کے رہائشیوں نے حکومت وقت سے چولستان بھر میں ایمرجنسی نافذ کرنےکا مطالبہ کیا ہے

ایم ڈی چولستان اتھارٹی مہر محمد خالد کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے خشک سالی کے دوران چولستان کے رہائشیوں کی امداد کا کام جاری ہے۔ مختلف علاقوں میں گیارہ امدادی کیمپ لگا دیے گئے ہیں، جہاں طبی امداد کے ساتھ پانی کے ٹینکروں سے دور دراز علاقوں میں پانی پہنچایا جا رہا ہے، جب کہ جانوروں کو بھی آبادیوں کے قریب منتقل کیا جا رہا ہے

انہوں نے بتایا اب تک ستر بھیڑیں خوراک اور پانی نہ ملنے پر ہلاک ہوئیں اور متعدد بڑے مویشی بھی مرے ہیں

محکمہ موسمیات کے مطابق یہاں آئندہ ہفتے بھی بارش کا امکان نہیں ہے. بارش ہونے تک صورتحال ایسے ہی رہے گی

دوسری جانب سماجی تنظیموں کی جانب سے بھی امدادی کیمپ لگانے کا سلسلہ جاری ہے جب کہ متاثرین گھروں سے بے گھر اورخشک سالی سے بچوں سمیت پریشان ہیں

جواد بلوچ کہتے ہیں ”چولستان میں ہر سال جیپ ریلی پر کروڑوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں مگر اس علاقے میں شہریوں کے مسائل حل کرنے کا کوئی جامع منصوبہ تیار نہیں کیا گیا“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close