پانینی کو دنیا کا پہلا گرامر دان اور بابائے لسانیات کہا جاتا ہے۔ یورپی ماہرین کی نظریں پہلی بار انیسویں صدی میں پانینی کی دریافت شدہ کتب پر پڑیں تو وہ حیران رہ گئے کہ ہزاروں سال پہلے کیسے کسی انسان نے سنسکرت کے اصول و ضوابط اس انداز سے تحریر کر دیے تھے کہ وہ ان الگورتھم سے مطابقت رکھتے ہیں، جن پر آج کا جدید انفارمیشن ٹیکنالوجی کا ڈھانچہ کھڑا ہے۔
پانینی کب پیدا ہوئے، زیادہ تر ماہرین کا ماننا ہے کہ وہ گوتم بدھ سے سو پچاس سال پہلے پیدا ہوئے تھے۔ گویا ساتویں قبل مسیح کو پانینی کا دور کہا جا سکتا ہے، جس کی جائے پیدائش گندھارا تھی۔
پانینی کی جائے پیدائش کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اس جگہ پیدا ہوئے جہاں دریائے کابل دریائے سندھ میں آ کر ملتا ہے۔ کچھ ماہرین نے ان کی جائے پیدائش کو خیبر پختونخوا کے ضلع صوابی کا قصبہ چھوٹا لاہور بتایا ہے۔ چھوٹا لاہور دریائے کابل اور سندھ کے سنگم سے کافی اوپر واقع ہے۔ پانینی کے دادا وشنو شرمن چھوٹا لاہور کی شلانکی گوت سے تعلق رکھتے تھے لیکن پانینی کے والد سامن کی شادی اٹک کے گاؤں شالا تولا میں ہوئی تھی، جہاں وہ اپنے سسرال میں ہی آ کر بس گئے تھے، اس لیے پانینی اپنے ننھیال میں پیدا ہوئے۔
یہ علاقہ اس زمانے میں دشک قوم کی راجدھانی تھا۔ ساتویں صدی کے وسط میں جب مشہور چینی سیاح ہوان سانگ گندھارا آیا تو اس وقت وہ پانینی کے گاؤں شالا تولا بھی گیا، جسے اس زمانے میں شلاتر پکارا جاتا تھا۔ انہوں نے لکھا کہ شلاتر کے برہمن سنسکرت قواعد کے ماہر مانے جاتے ہیں۔
آج شلاتر یا شالا تولا نام کا کوئی گاؤں اٹک میں موجود نہیں ہے۔ شاید دریا کے کنارے پر آباد ہونے کی وجہ سے کسی سیلاب کے ہاتھوں مٹ گیا یا پھر دریا نے راستہ بدلا اور شالا تولا زمین کے نیچے دفن ہو گیا۔
’ہندوستان کی نامور ہستیاں‘ جسے انڈین سرکار نے 1964 میں چھاپا تھا، اس میں پانینی کو مہاویر اور بدھا کے بعد ہندوستان کی تیسری بڑی شخصیت قرار دیا گیا ہے۔ اس کتاب میں لکھا ہے کہ پانینی کے استاد کا نام ورش تھا جو اپنے دور کے نامور عالم تھے۔ اس دور میں رواج تھا کہ حصولِ علم کے بعد طالب علم سیاحت کو نکلتے تھے، اس عمل کو ’چاریکا‘ کہا جاتا تھا تاکہ وہ گھوم پھر کر سماج کا گہرا مشاہدہ کر سکیں اور وہ علوم بھی سیکھ سکیں جو ان کے پاس نہیں ہیں۔
پانینی گھومتے پھرتے ہمالیہ پہنچے، جہاں ان کی ملاقات ایشور داس نامی ایک عالم سے ہوئی۔ بہت سے قارئین کے ذہن میں یہ سوال جنم لے سکتا ہے کہ پانینی نے ٹیکسلا سے تعلیم کیوں حاصل نہیں کی۔ ٹیکسلا میں اس زمانے میں شاید خانقاہیں تو ہوں گی جہاں مذہبی تعلیمات دی جاتی ہوں لیکن باقاعدہ علوم کی کوئی یونیورسٹی نہیں تھی۔ کیونکہ اب تک کی دریافتوں کے مطابق ٹیکسلا کی قدیم یونیورسٹی جولیاں ہے، جس کی موجودہ تعمیر دوسری صدی قبل مسیح کی ہے۔
یہاں کوٹلیہ چانکیہ استاد تھے اور ان کے شاگرد چندر گپت موریہ بھی عین اس وقت یہاں موجود تھے جب 326 ق م میں سکندر ٹیکسلا آیا تھا۔ اس لیے امکان موجود ہے کہ جولیاں کی یونیورسٹی چوتھی صدی قبل مسیح میں موجود تھی لیکن پانینی کے دور میں نہیں ہوگی، تبھی پانینی کو ہمالیہ جانا پڑا۔ ایشور داس ہمالیہ میں کہاں پڑھاتے تھے؟ اس بارے میں قیاس کیا جا سکتا ہے کہ وہ شاردہ یونیورسٹی میں پڑھاتے ہوں گے جس کی تاریخ ایک ہزار ق م سے بھی قدیم بیان کی جاتی ہے۔
حصولِ علم کے بعد چاریکا کرتے ہوئے پانینی کو ایک بات کا ادراک ہوا کہ زبان ہر چند میل کے بعد کچھ حد تک بدل جاتی ہے۔ اس لیے انہوں نے زبان میں اصلاح کا ایک منصوبہ اپنے استاد کے گوش گزار کیا اور بتایا کہ زبان کے استعمال میں جو غیر معین اصول ہیں، انہیں معین کر دیا جائے اور جو چیزیں قاعدے یا اصول کی پابند نہیں ہیں، انہیں قاعدے کے تحت لایا جائے اور جہاں اصول کمزور ہیں، انہیں ٹھیک کر دیا جائے، اور جہاں نئے اصولوں کی ضرورت ہو، وہاں نئے اصول بنا لیے جائیں۔
جب ایشور داس نے پانینی سے اس منصوبے کی جزئیات پر بات کی تو یہ انہیں حیرت انگیز لگا۔ پانینی نے بتایا کہ وہ آسام اور ساحلی علاقوں تک کا سفر کر کے معلومات اکٹھی کر چکے ہیں اور جہاں جہاں انہیں کوئی نئی بات یا اسلوب ملا ہے، انہوں نے اسے لکھ لیا ہے۔ اس طرح پانینی نے مختلف جگہوں کی بول چال، الفاظ کا استعمال اور ان کے معنی کی چھان بین کر کے ان کے اصول وضع کیے۔
اس کام کے لیے انہوں نے کئی سال لگا دیے کیونکہ زبان کے لیے ایک اصول وضع کرنا اور اس اصول کے تحت لفظوں کو غلط یا صحیح قرار دینا ایک آسان کام ہرگز نہیں تھا۔ ہر لفظ کا الگ مزاج اور تاثیر ہوتی ہے اور بعض کے ساتھ روایات جڑی ہوتی ہیں۔ بعض جگہوں پر ایک ہی لفظ کے استعمال کے معنی الگ الگ ہو جاتے ہیں۔ پانینی نے یہ ناممکن اور مشکل کام کرنے کا فیصلہ کیا اور اسے اپنی بے مثال فہم و فراست سے کر بھی دکھایا۔ ان کی شبانہ روز کی محنت سے جو کتاب تیار ہوئی، اسے ’گن پاٹھ‘ کہتے ہیں۔
یہ اپنے موضوع پر دنیا کی پہلی کتاب قرار دی جاتی ہے، جس میں ایک دوسرے سے میل کھاتے ہوئے لفظ ایک گن یا درجے میں رکھ دیے گئے، اس طرح بکھرے ہوئے لفظ اکٹھے ہو گئے۔ جب ان کے ہم عصروں نے اس کام کو دیکھا تو اسے ایک عظیم کارنامہ قرار دیا۔ لیکن یہ تو شروعات تھی۔ پانینی نے آگے بڑھتے ہوئے ایک اور کتاب ’اشٹ ادھیائے‘ یعنی ’آٹھ باب‘ لکھ ڈالی، جس میں گرامر کے اصول بیان کیے گئے۔ اس کتاب کو سنسکرت میں ایک انقلاب قرار دیا گیا۔ پانینی کو اس علم کی بنیاد پر ایک ایسا عالم کہا جانے لگا، جس کی پشت پر ماورائی طاقتیں ہوں۔
آج کا پٹنہ جسے تب ’پاٹلی پترا‘ کہا جاتا تھا، اپنے وقت کا عروس البلاد اور پایہ تخت تھا۔ وہاں روایت تھی کہ جو بھی کوئی غیر معمولی کام کرتا، وہ دربار میں حاضر ہوتا، اپنا کام پیش کرتا اور بدلے میں سندِ قبولیت اور انعام و اکرام کا مستحق قرار پاتا۔
پانینی بھی اپنی تحقیق کو لے کر دربار میں پہنچے، جہاں نند راجہ کا سکہ چل رہا تھا۔ اس کے دربار میں تمام علوم کے ماہرین موجود ہوتے تھے اور جب کبھی بادشاہ کو کسی نئے عالم کا پتہ چلتا، تو اسے بھی دربار میں خصوصی نشست کے لیے طلب کیا جاتا تھا۔
دربار میں سال کے مخصوص ایام صرف اس کام کے لیے مختص تھے کہ ملک بھر سے ماہرین آ کر دربار میں اپنے تجربات پیش کر سکیں۔ اس اجتماع کو سبھا کہتے تھے۔ اسی سے آج کے بھارت کی لوک سبھا اور راجیہ سبھا نکلے ہیں۔ پانینی جب سبھا میں پیش ہوئے تو یہاں صرف نند راجہ ہی تخت پر جلوہ افروز نہیں تھا بلکہ ہندوستان بھر کے علما و فضلا بھی مسند نشین تھے۔ پانینی نے جب بولنا شروع کیا تو گویا سب گنگ رہ گئے۔
پانینی کو صرف کامیابی کی سند ’سنینن‘ ہی سے نہیں نوازا گیا بلکہ کہا گیا کہ اگر اس سے بڑا کوئی اعزاز ہوتا تو انہیں اس سے بھی سرفراز کر دیا جاتا۔ عموماً ’سنینن‘ کے ساتھ ایک ہزار سونے کی مہریں اور ایک ہاتھی دیا جاتا تھا، لیکن پانینی کو کہا گیا کہ جو جو یہ علم حاصل کرے گا، اسے بھی ایک ایک ہزار سونے کی مہریں دی جائیں گی۔
صَرف و نَحْو میں جو کارہائے نمایاں آج سے کم و بیش ڈھائی ہزار سال پہلے پانینی نے انجام دیے ہیں، ان کی ہمسری کا دعویٰ آج بھی کوئی ماہرِ لسانیات نہیں کر سکتا۔ کاشی میں پانینی کے نام کا ایک مندر بھی ہے جس کی بنیادوں میں اٹک سے مٹی منگوا کر ڈالی گئی ہے۔
70 کی دہائی میں پاکستان ٹیلی ویژن سے ایک پروگرام کسوٹی چلا کرتا تھا، اس کے ماہرین افتخار عارف اور عبید اللہ بیگ جس سوال کو کھوج نہیں سکے تھے، وہ پانینی کے بارے میں کیا گیا تھا۔ پاکستان میں اکثر لوگ آج بھی اس عظیم ماہرِ لسانیات کو نہیں جانتے مگر دنیا بھر میں انہیں جانا اور مانا جاتا ہے۔
بشکریہ انڈیپینڈنٹ اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)