آج ترقی کے نام پر شہرِ کراچی کے جنت نظیر اور سرسبز خطے ملیر کو کنکریٹ کے جنگل میں تبدیل کرنے کا عمل جاری ہے، یہ عمل ملیر کے لیے ہرگز ترقی کی نوید نہیں ہے بلکہ تباہی کا المناک نوحہ ہے۔۔۔
اگر سندھ حکومت واقعتاً ملیر میں ترقی لانا چاہتی ہے تو اس کو زمینداروں اور کاشتکاروں کی مکمل مدد اور پشتیبانی کرنی چاہیے۔۔ اگر سندھ حکومت واقعی ملیر کی ترقی کے لیے مخلص ہے تو اس کو طویل لوڈ شیڈنگ اور بھاری بلوں کے ذریعے زمینداروں اور کاشتکاروں کا استحصال کرنے والی الیکٹرک کمپنی ’کے الیکٹرک‘ کو لگام دے کر زمینداروں کو سبسیڈی دینی چاہیے اور ملیر میں زراعت کے فروغ اور سرسبز ماحول کے تحفظ کے لیے اقدامات کرنے چاہییں۔۔ اور اگر سندھ حکومت واقعتاً ملیر کی ترقی میں سنجیدہ ہے تو اس کو ملیر ندی میں آنے والے بارانی پانی کو سمندر میں ضائع ہونے سے بچانے کے لیے ملیر ندی میں چیک ڈیمز بنانے چاہییں۔
ملیر کو کنکریٹ کے جنگل میں بدلنا ہرگز ہرگز ترقی نہیں ہے بلکہ یہ ملیر کی جغرافیاتی، ماحولیاتی، زرعی، سماجی اور تہذیبی شناخت کے لیے تباہی کا عمل ہے۔ تباہی کے اس عمل کو روکنا اور اس کے آگے بند باندھنا حقیقت میں ملیر کی ترقی ہے۔
اگر سندھ حکومت کو واقعی ملیر کے مفادات عزیز ہیں تو اس کو قانون سازی کے ذریعے ملیر کی زراعت اور شاداب ماحول کے تحفظ اور ترقی کے لیے اقدامات کرنے چاہییں۔ اگر کسی وجہ سے زمیندار اپنی زمین کو فروخت بھی کرنا چاہیں تو سندھ حکومت کو چاہیے وہ خود زمین خرید کر ملیر کے عوام کے لیے اس کو پارک اور تفریح گاہ بنائے۔
اوپر کی ٹائٹل تصویر میں میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کس قدر حسین ہیں شاداب ملیر کے یہ مناظر۔۔۔ یہ دلکش اور حسین مناظر ملیر کا حسن ہیں اور ملیر کا یہ قدرتی حسن مزید ہاٶسنگ پروجیکٹس اور فیکٹریوں کا ہرگز متحمل نہیں ہو سکتا۔۔۔خدارا ملیر پر رحم کیجیے۔۔
گلدان سے اگالدان کا کام کیونکر لیا جاسکتا ہے؟ اس امر کو سمجھنے کے لیے الم نصیب ملیر کی موجودہ حالتِ زار کو دیکھیے کہ کس بے دردی اور بے رحمی کے ساتھ اس شاداب خطے اور منفرد خواص کی حامل زرخیز زمین کو کنکریٹ کے جنگل میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔
دنیا کے مہذب ممالک میں جدید سائنسی ذراٸع کو بروئے کار لاتے ہوئے ناقابلِ کاشت زمینوں کو زرخیز بنانے کے لیے کامیاب تجربات کیے جا رہے ہیں لیکن لاواراث ملیر کے شاداب باغات کو اجاڑ کر آبادی کی غیر فطری پیوندکاری کے ذریعے اس کو ایک طرف ٹھٹہ تو دوسری طرف حیدرآباد سے ملایا جا رہا ہے اور اس فطرت کش اور ماحول دشمن امر کو بڑی ڈھٹائی کے ساتھ ”ترقی“ کے خوشنما عنوان سے تعبیر کیا جا رہا ہے!
بلاشبہ آبادی میں اضافے اور پہلے سے موجود جگہوں کی تنگ دامنی کے باعث ایک حد تک ہاؤسنگ پروجیکٹس کی ضرورت ہے جس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ آپ کو ہرے بھرے باغات کو اجاڑ کر پورے ملیر کو سنگ و خشت کے جنگل میں بدلنے کا لاٸسنس حاصل ہو۔
پاکستان کے دیگر بڑے شہروں لاہور، پشاور اور کوئٹہ کے بارے میں یہ تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ پورے پاکستان کو وہاں لاکر بسایا جائے لیکن یہ بھیانک سلوک صرف کراچی اور بالخصوص اس کے الم نصیب ضلع ملیر کے ساتھ کیا جا رہا ہے، جس کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہے۔
بدقسمتی سے کراچی کے مقامی لوگوں کو کبھی ایک صفحے پر مجتمع نہیں ہونے دیا گیا اور ’لڑاؤ اور حکومت کرو‘ کی پالیسی کے تحت ان کے مابین نہ صرف نفرتوں کی بھرپور آبیاری کی گئی بلکہ کراچی میں ایک ہی ممکنہ قوت کے ظہور کے امکانات کو معدوم کرنے کے لیے پورے پاکستان کو یہاں بسانے کا بھرپور سامان کیا گیا اور یہ عمل آج بھی پورے زور و شور کے ساتھ جاری ہے۔۔
زراعت کو تباہ کرکے آبادی کی اس غیرفطری پیوندکاری کے نتیجے میں ملیر کی تاریخی، تہذیبی، ماحولیاتی اور جغرافیاٸی شناخت نہ صرف بدترین خطرے سے دوچار ہو گئی ہے، بلکہ مستقبل میں اس کے انتہائی بھیانک نفسیاتی، سیاسی، معاشی اور معاشرتی اثرات بھی ظہور میں آئیں گے، جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔۔ تیزی سے پھیلنے والی منشیات کی لعنت اور جراٸم کی وارداتیں بھی اسی امر کا شاخسانہ ہیں۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ نجی کاروبار ہے، جس پر کسی کو معترض نہیں ہونا چاہیے۔۔وہ بلکل بجا فرماتے ہیں، ہر شہری کو کاروبار کرنے کا حق حاصل ہے، جس پر کوئی قدغن نہیں ہونی چاہیے لیکن جو نجی کاروبار اجتماعی مفادات کے لیے سوہانِ روح اور زہرِ قاتل ہو، اس کو کسی بھی طور جسٹیفائڈ اور کریڈیبل قرار نہیں دیا جا سکتا۔۔ اس کے خلاف ہر ہر سطح پر آواز بلند ہونی چاہیے۔۔
ماحول کی یہ تباہی صرف ملیر اور باشندگانِ ملیر کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ کراچی میں رہنے والے ہر اس ذی نفس کا مسٸلہ ہے، جس کی دھڑکنوں کے لبوں پر زندگی کا نغمہ رقصاں ہے۔
وقت آ گیا ہے کہ ملیر میں مزید ہاؤسنگ پروجیکٹس کی یلغار کو روکنے اور ملیر کو باضابطہ بنیادوں پر قانونی طور پر ایگریکلچر لینڈ اور گرین بیلٹ ڈکلیٸر کروانے کے لیے بھرپور اور فیصلہ کن مہم کا آغاز کیا جائے۔