’کووڈ پالیسی ایک کھیل ہے‘ چین میں حکومت مخالف احتجاجی لہر، صدر شی سے مستعفی ہونے کا مطالبہ

ویب ڈیسک

چین کے مختلف شہروں میں ہونے والے احتجاج تیسرے دن میں داخل ہو چکے ہیں اور شہری کمیونسٹ حکومت کی سخت گیر کووڈ پالیسی کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اتوار کی شب چین کے شہر شنگھائی میں ہزاروں مظاہرین نے احتجاج کیا، جن میں سے متعدد کو پولیس نے گرفتار کر لیا

چین میں احتجاجوں کا یہ سلسلہ 24 نومبر کے ایک واقعے کے بعد شروع ہوا، جب چین کے شمال مغربی علاقے سنکیانگ کی ایک رہائشی عمارت میں آگ لگنے سے 10 افراد ہلاک جبکہ نو زخمی ہو گئے تھے

چینی حکومت کی وائرس پر قابو پانے کی سخت پالیسیوں نے لاکھوں افراد کو گھروں تک محدود کر رکھا ہے۔ صدر شی جن پنگ کی حکومت کو اس کی ’زیرو کووڈ پالیسی‘ کی وجہ سے عوامی غصے کا سامنا ہے

واضح رہے کہ چین کے صدر شی جن پنگ نے ایک دہائی قبل جب سے حکومت سنبھالی ہے، ملک میں سول نافرمانی کی ایسی لہر نہیں دیکھی گئی

ایک ایسے وقت میں جب دنیا میں کووڈ سے متعلق پابندیوں میں نرمی کی جا رہی ہے، چین بدستور سخت پالیسی اپنائے ہوئے ہے جس کی وجہ لوگوں میں بے چینی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ دنیا کی دوسری بڑی معیشت سمجھنا جانے والا ملک معاشی دباؤ میں بھی ہے

روئٹرز کے مطابق شنگھائی میں ہونے والے احتجاج میں شامل ایک شہری شان ژیاؤ نے کہا کہ ’میں یہاں اس لیے آیا ہوں کہ میں اپنے ملک سے محبت کرتا ہوں لیکن اس حکومت کو پسند نہیں کرتا۔ میں باہر آزادی سے چلنا پھرنا چاہتا ہوں لیکن بے بس ہوں۔‘

’ہماری کووڈ پالیسی ایک کھیل ہے۔ یہ کسی حقیقت یا سائنسی بنیاد پر استوار نہیں ہے۔‘

اتوار کو شنگھائی کے علاوہ ووہان، چینڈکو سمیت کئی شہروں میں مظاہرے ہوئے اور کچھ یونیورسٹیوں کے طلبہ بھی ہفتے کے آخر میں احتجاجی مظاہروں میں شریک ہوئے

بعدازاں پیر کی صبح بیجنگ میں دریائے لیگانگما کے کنارے واقع رنگ روڈ تھری پر کم از کم ایک ہزار مظاہرین احتجاج کے لیے جمع ہوئے اور انہوں نے وہاں سے ہٹنے سے انکار کر دیا

وہاں کچھ ایسے نعرے لگے کہ ’ہم ماسک نہیں آزادی چاہتے ہیں۔ ہمیں کووڈ ٹیسٹ نہیں آزادی چاہیے۔‘

واضح رہے کہ حکومت مخالف مظاہروں کے سلسلے کے دوران پیر کو چین میں کووڈ کے 40 ہزار 52 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں، جو کہ نئے کیسز کی شرح کے حوالے سے ایک ریکارڈ ہے۔ اس سے ایک دن قبل اتوار کو کووڈ کیسز کی تعداد ساڑھے انتالیس ہزار تھی

’شی جن پنگ، استعفیٰ دو‘

چین کے سب سے بڑے اور دنیا میں کاروباری اعتبار سے ایک مرکزی شہر کہلائے جانے والے شنگھائی میں جاری مظاہرے میں شامل افراد ’شی جن پنگ، استعفیٰ دو‘ اور ’کمیونسٹ پارٹی، اقتدار چھوڑو۔‘ کے نعرے لگا رہے تھے

کچھ افراد نے خالی سفید بینر اٹھا رکھے تھے جبکہ دیگر افراد نے موم بتیاں جلائیں اور ارومچی کے متاثرین کے لیے پھول رکھے

واضح رہے کہ چین میں ایسے مناظر خاصے غیر معمولی تصور کیے جاتے ہیں جہاں حکومت اور صدر پر کسی قسم کی تنقید سخت سزاؤں کا باعث بنتی ہے

تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حکومت نے بظاہر زیرو کووڈ پالیسی کے بارے میں بڑھتے خدشات کو بہت کم اہمیت دی ہے

یہ پالیسی براہ راست صدر شی جن پنگ سے منسوب کی جاتی ہے اور انہوں نے اس بارے میں دو ٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ وہ اس سے کسی صورت پیچھے نہیں ہٹیں گے

شنگھائی میں مظاہرے کرنے والوں میں شامل ایک شخص نے بتایا کہ وہ لوگوں کو سڑکوں پر دیکھ کر ’حیران بھی ہیں اور پرجوش بھی‘ اور ان کے مطابق یہ چین میں پہلی مرتبہ ہے کہ اتنے بڑے پیمانے پر مظاہرے دیکھنے کو مل رہے ہیں

انھوں نے کہا کہ لاک ڈاؤن کے باعث وہ ’اداس، برہم اور مایوس‘ ہو چکے ہیں اور وہ اس کے باعث اپنی بیمار والدہ کی بیمار پرسی بھی نہیں کر پائے جو اس وقت کینسر کا علاج کروا رہی ہیں

مظاہرہ کرنے والی ایک خاتون نے بتایا کہ جب انکوں نے پولیس اہلکاروں سے پوچھا کہ وہ اس مظاہرے کے بارے میں کیا سوچتے ہیں تو انھوں نے کہا کہ ’ویسا ہی جیسا آپ سوچتے ہیں‘۔

تاہم انھوں نے کہا کہ ’کیونکہ انھوں نے یونیفارم پہن رکھا ہے اس لیے وہ اپنا کام کر رہے ہیں۔‘

اس کے علاوہ طلبہ کی ایسی تصاویر سامنے آئیں، جن میں وہ ارومچی میں آتشزدگی سے متاثرہ افراد کے لیے موم بتیاں جلا رہے ہیں اور بیجنگ اور نینجنگ میں یونیورسٹیوں میں مظاہرے کر رہے ہیں۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے ایک طالبعلم نے کہا کہ دارالحکومت بیجنگ کی شنوا یونیورسٹی میں سینکڑوں افراد ایسے ہی ایک مظاہرے میں شریک ہوئے۔

یہاں مظاہرین نے ایسے چارٹ اٹھا رکھے تھے جن پر کچھ بھی نہیں لکھا ہوا تھا

یہ ایک ایسا مظاہرہ ہے، جو چینی سینسرشپ کے خلاف جدوجہد کی علامت بن چکا ہے اور ان افراد کو آزادی اور جمہوریت کے حق میں ترانے گاتے بھی سنا گیا

ان مظاہروں کی وڈیوز کی آزادانہ تصدیق کرنا مشکل ہے لیکن ان میں سے اکثر میں حکومت اور اس کے سربراہ پر غیر معمولی طور پر برملا اور براہ راست تنقید کی جا رہی ہے

ارومچی میں آتشزدگی کا واقعہ ان متعدد چینی شہریوں کے لیے ایک ڈراؤنے خواب کی طرح تھا جو گذشتہ کئی ماہ کے دوران ان قواعد کے باعث متاثر ہو رہے تھے

لاکھوں افراد تین سال سے روزانہ کووڈ ٹیسٹ کروانے اور ایک جگہ بند رہنے کے باعث پریشان ہیں

یہ غصہ چین کے ہر کونے تک پھیل چکا ہے چاہے وہ بڑے شہر ہوں یا دور دراز علاقے جیسے تبت اور سنکیانگ۔ اس کے علاوہ ان مظاہروں میں نوجوان یونیورسٹی طلبہ سے لے کر فیکٹری ورکر اور عام شہریوں سمیت معاشرے کے ہر طبقے کی نمائندگی ہے

اس بارے میں غصہ بڑھنے کے بعد سے کووڈ کے قواعد کے خلاف مظاہروں میں تیزی دیکھنے کو ملی ہے۔ تاہم اس ماحول میں بھی حالیہ چند روز میں ہونے والے مظاہرے غیر معمولی ہیں کیونکہ ان میں لوگوں کی تعداد بھی بہت زیادہ دیکھنے کو مل رہی ہے اور شی جن پنگ اور حکومت پر براہ راست تنقید بھی واضح ہے

کچھ عرصہ پہلے تک صدر شی سے سینکڑوں افراد کا سڑکوں پر نکل کر اقتدار چھوڑنے کا مطالبہ کرنے کے بارے میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا لیکن بیجنگ برج پر ہونے والے ایک حالیہ مظاہرے نے سب کو حیران کیا اور اس کے باعث ان پر ہونے والی تنقید کی راہ ہموار ہوئی

اسی طرح دیگر افراد نے چینی جھنڈے بھی لہرائے اور قومی ترانہ بھی گایا کیونکہ اس کے بول دراصل انقلابی تصورات پر مبنی ہیں اور اس میں لوگوں کو ’اٹھ کھڑے ہونے‘ کا کہا جاتا ہے

یہ حب الوطنی کا مظاہرہ ہونے کے علاوہ ساتھی چینی شہریوں کے ساتھ بھائی چارے کا اظہار بھی ہے جو شی جن پنگ کی زیرو کووڈ پالیسی سے متاثر ہیں

زیرو کووڈ پالیسی دنیا کی بڑی معیشتوں میں آخری ایسی پالیسی ہے اور یہ چین کی جانب سے کم ویکسینیشن کے باعث لاگو کی گئی ہے اور اس کے ذریعے عمر رسیدہ افراد کو محفوظ رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے

اچانک لگائے جانے والے لاک ڈاؤن کے بارے میں ملک بھر میں برہمی کا اظہار کیا جاتا ہے۔

ان سخت پابندیوں کے باوجود چین میں اس ہفتے عالمی وبا کے آغاز کے بعد سے ریکارڈ کیسز سامنے آئے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close