سمفنی خالص مغربی صنفِ موسیقی ہے۔ آپ موزارٹ، بیتھووین، چیکوسکی اور شوبرٹ سمیت کسی بھی ’آفتابِ موسیقی‘ کی سمفنی سنیے۔ یہ نہایت دھیمے سروں میں شروع ہوتی ہے۔ رفتہ رفتہ دیگر ساز شامل ہوتے چلے جاتے ہیں اور پھر بیسیوں آلات پر مشتمل آرکسٹرا عظیم الشان صوتی طوفان برپا کر دیتا ہے جو آپ کو کسی اور جہان میں بہا لے جاتا ہے۔
اگر مغرب سے باہر کسی نے سمفنی کی صنفی باریکیوں کو سمجھا ہے تو وہ ہماری پاکستانی اسٹیبلشمنٹ ہے۔ کہیں سے ایک ہلکا سا سُر بلند ہوتا ہے، پھر اس میں اور ساز ملتے جاتے ہیں اور اچانک ایک منظم آرکسٹرا آسمان سر پر اٹھا لیتا ہے اور اس طوفان کی آڑ میں جو کام یا جس کا کام اتارنا ہو اتر جاتا ہے۔
تازہ ترین سمفنی ’ڈیجیٹل دہشت گردی‘ کے نام سے پرفارم ہو رہی ہے۔ 17 فروری کو ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر پابندی کا ساز بجا۔ مئی کے تیسرے ہفتے میں ففتھ جنریشن ڈیجیٹل وار کا باجا بجنے لگا۔
جون سے فائر وال ٹیسٹنگ کی کلارینٹ سنائی دینے لگی، پھر انٹرنیٹ سروسز ہچکولے کھانے لگیں اور اب وی پی این کا ڈرم پیٹا جا رہا ہے۔
اس تازہ دھن کا پہلا بگل پاکستان ٹیلی کمیونکیشن اتھارٹی سے پھنکوایا گیا، یعنی ’اپنا وی پی این رجسٹر کروا لیجیے۔‘
پھر سپہ سالار نے مارگلہ ڈائیلاگ کے منڈپ سے وائلن بجایا کہ ’بے لگام آزادیِ اظہار اخلاقی گراوٹ کا سبب بن رہی ہے۔ جامع قوانین و ضوابط کے بغیر غلط، نفرت انگیز اور گمراہ کن معلومات کا پھیلاؤ عدم برداشت و تعصبات بڑھا کر ہر سماج کو کمزور کر رہا ہے اور یہ ایک سنگین چیلنج ہے۔‘ (حالانکہ پاکستان میں ان علتوں کو روکنے کے لیے کوئی ایک قانون نہیں بلکہ قوانین کا بھنڈار ہے۔)
سپہ سالار کے خیالات کا خلاصہ سرکاری ٹیلی ویژن نے اپنے ایکس اکاؤنٹ سے ریلیز کیا۔ (حالانکہ ایکس کا استعمال 17 فروری سے اس دلیل کی بنیاد پر ممنوع ہے کہ اس ڈیجیٹل پلیٹ فارم سے سماج میں انتشار پھیل رہا ہے۔ مگر وزیرِ اعظم سے لے کر سرکاری و عسکری ترجمان تک اس ممنوعہ پلیٹ فارم کا ’حلال ورژن‘ استعمال کر رہے ہیں۔)
سپہ سالار نے جب اخلاقی گراوٹ کے پھیلاؤ کی بات کی تو ڈی این اے ٹیکنالوجی کو بطور عدالتی ثبوت ناقص قرار دینے والی اسلامی نظریاتی کونسل نے بھی دم پکڑا۔
کونسل کے سربراہ علامہ راغب نعیمی نے فتوٰی دیا کہ غیر اخلاقی اور توہین آمیز مواد تک رسائی روکنے کے اقدامات، جن میں وی پی این کے استعمال پر پابندی بھی شامل ہے، عین شرعی ہے۔
مگر ہمیں علامہ صاحب کے بیان سے اس لیے خاص پریشانی نہیں کہ جس طرح ماضی میں انگریزی تعلیم، چھاپہ خانہ، لاؤڈ اسپیکر کے استعمال اور ریڈیو، ٹی وی و وی سی آر کو حرام قرار دے کر بعد میں ان سب میڈیمز کو نظریاتی ترویج و فروغ کے لیے علما نے بے تحاشا برتا اور اس کے بعد مخربِ اخلاق انٹرنیٹ پر جس طرح مذہبی جماعتوں اور دارالاافتا کی ویب سائٹس بنا کے رفتہ رفتہ اسے حلال کر لیا گیا، وی پی این کے روزگاری و تبلیغی فوائد بھی ایک نہ ایک دن خود کو منوا ہی لیں گے۔
مگر فی الحال وی پی این کی ’حرم زدگیوں‘ کے بارے میں نظریاتی کونسل کی رائے آنے کے فوراً بعد اصل بلّی بھی تھیلے سے پوری طرح باہر آ گئی، جب وزارتِ داخلہ نے پی ٹی اے کو حکم دیا کہ غیر قانونی وی پی اینز کو پورے ملک میں بلاک کر دیا جائے، کیونکہ اسے دہشت گردی، توہین آمیز مواد اور فحاشی کے فروغ کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
اگرچہ تکنیکی اعتبار سے ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورک (وی پی این) کو اجتماعی لگام دینا خاصا کٹھن ہے ورنہ چین، ایران، روس، متحدہ عرب امارات، مصر اور ایسے دیگر ممالک میں وی پی این کب کا ملیامیٹ کیا جا چکا ہوتا، مگر حکم تو حکم ہے۔۔ بھلے اس پر پوری طرح عمل نہ بھی ہو پائے، تب بھی ’یس سر، جی سر، بالکل سر‘ کہنا لازم ہے۔
ویسے فحاشی، بے راہ روی اور تخریب کاری میں تب کی جدید ٹیکنالوجی کے غیر ذمہ دارانہ استعمال کا شکوہ جنرل ضیاءالحق کو بھی تھا۔
انہوں نے معاشرے کا قبلہ درست کرنے کے لیے 10 برس میں ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا، مگر معاشرہ اس قدر ڈھیٹ ہے کہ اب اسے پاک باز بنانے کا کام پرانی اسٹیبلشمنٹ کے نئے چہروں کو وہیں سے شروع کرنا پڑ رہا ہے، جہاں ضیا صاحب نے 17 اگست 1988 کو چھوڑا تھا۔
26ویں آئینی ترمیم کے ذریعے عدلیہ کا قبلہ درست کرنے کے بعد اب اس ریاست کا سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ کس طرح بے لگام آزادیِ اظہار کو ڈیجیٹل نتھ ڈال کے اجتماعی حسنِ اخلاق کا نمونہ بنایا جائے۔
اگر اس بار یہ اخلاق سدھار پروجیکٹ کامیاب ہو گیا تو پھر آئی ایم ایف کا کشکول بھی ٹوٹ جائے گا، ایک کروڑ 60 لاکھ بچے بھی اسکول جانا شروع کر دیں گے، ہسپتال اتنے بن جائیں گے کہ مریضوں کا اژدھام ختم ہو جائے گا، پولیو دم دبا کے بھاگ نکلے گا، جعلی اور ناقص دواؤں سے مکتی مل جائے گی، اشیائے خورد و نوش میں ملاوٹ قصہِ پارینہ ہو جائے گی۔۔
ہر شہری کو گھر بیٹھے نلکے سے پینے کا صاف پانی پہلے زمانے کی طرح ملنے لگے گا، قیمتیں آسمان سے زمین پر آنا شروع کر دیں گی، دہشت گرد ہتھیار پھینک کے درگاہوں کی دھمال چوکڑی میں شامل ہوتے چلے جائیں گے، جبری غائب لوگ اچانک سے نمودار ہونے شروع ہو جائیں گے۔
عدالتوں میں پڑے 20 لاکھ سے زائد مقدمات دنوں، ہفتوں مہینوں میں چٹاپٹ ہو جائیں گے۔ کرپشن کا لفظ سنتے ہی لوگ کانوں کو ہاتھ لگانے لگیں گے۔ سموگ دم دبا کے بھاگ جائے گا۔
ملازمتیں اور تقرریاں میرٹ کے سوا ممکن نہ ہوں گی۔ خواتین کو گھروں، گلیوں اور دفتروں میں ہراسانی کا شکار بنانے والے منھ چھپاتے پھریں گے۔ پولیس کا ڈھانچہ مثالی ہو جائے گا۔ ہر آئینی ادارہ اپنے اپنے دائرے میں کام کرنے پر مجبور ہو گا۔
یوں آس پاس کے ممالک ہم سے سیکھنے آئیں گے کہ بھائی آپ نے یہ چمتکار کیسے کر لیا، کچھ ہمیں بھی تو بتائیں؟
اور پھر ہم سینہ پھلا کے کہیں گے کہ جب سے ہم نے بے مہار آزادیِ اظہار کو لگام اور وی پی این کو حرام قرار دیا ہے تب سے آسمانی رحمتیں برسنا شروع ہوئی ہیں۔
آپ بھی ایک بار آزما کے دیکھیے، انشاءاللہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔
بشکریہ بی بی سی اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)