جن لوگوں کو ہم نے شروع سے چشمہ لگائے دیکھا ہوتا ہے، وہ کبھی اسے ہٹا کے سامنے آئیں تو ایک دم بہت عجیب سی شکل لگتی ہے۔
لیکن نظر کا چشمہ مستقل پہننے والے سبھی لوگوں کو یہ پکا یقین ہوتا ہے کہ عینک ہٹا کے وہ پہلے سے کہیں بہتر لگتے ہوں گے۔ جن کی بچپن سے نظر خراب ہو، انہیں تو ویسے بھی اللہ واسطے کا بیر ہو جاتا ہے عینک سے، ہر فنکشن پہ انہیں آپ لینز لگائے دیکھیں گے یا پھر کیمرا دیکھتے ہی ان کا چشمہ ہاتھ میں آ جائے گا۔
دوسری طرف مجھ جیسے لوگ ہوتے ہیں، جنہیں بچپن سے شوق ہوتا ہے کہ انہیں عینک لگ جائے مگر کہاں، سوال ہی نہیں، ساری زندگی زیرو نمبر کے چشمے بنوائیں گے، ایویں کی بھرم بازیاں کریں گے، تین چار فریم خرید کے رکھے ہوں گے تصویروں میں پوز مارنے کے لیے، پر اصل میں نظر الحمدللہ چھ بائے چھ ہی رہے گی۔
چشمے کا چکر یہ ہے کہ اسے لگانے والے ہمیشہ دوسروں کی نسبت تھوڑے لائق فائق لگتے ہیں، پھر سب سے بڑی بات یہ کہ عینک جو ہے وہ آپ کے پرس، موبائل کور، بیلٹ، جوتوں کے جیسی ایک فیشن آئٹم بھی ہوتی ہے۔ بالکل عام شکل و صورت والے بندے کو ایک چشمہ کیا سے کیا بنا دیتا ہے، کبھی سوچا ہے آپ نے؟ چلیے صرف اتنا تصور کریں کہ ہیری پوٹر، مہاتما گاندھی یا لیاقت علی خان آپ کے سامنے بغیر چشمہ لگائے آ جائیں تو کیا آپ انہیں پہچان بھی سکیں گے؟
چشمہ بعض کٹھور چہروں کو انتہائی مہربان بنا دیتا ہے، ایک لفظ نہ پڑھنے والے کو پروفیسر دکھا رہا ہوتا ہے اور جو آدمی ایک لمحے کو اکیلا نہ بیٹھتا ہو، سوچتا کچھ نہ ہو، اسے بھی فلاسفر لگوا دیتا ہے یہ چشمہ، کئی لوگوں کے چہرے کا شرارتی پن بلکہ ۔۔۔۔ پنا بھی یہی ایک چشمہ ادھار لے لیتا ہے، تو چشمہ عیبوں کو چھپا لیتا ہے، پرسنیلٹی چینجر ہے، اور مجھ جیسوں کو اسی چکر میں چشمہ بہت زیادہ فیسینیٹ کرتا ہے۔
اور پھر ایک دن اچانک لگتا ہے کہ یار اسکرین دیکھنے میں مزا نہیں آ رہا، کتاب پڑھتے ہوئے اسے دور کر کے رکھنا پڑتا ہے، آنکھیں جلدی تھک جاتی ہیں، وغیرہ وغیرہ، لیکن آپ کو دور دور تک خیال نہیں آتا کہ نظر چیک کروا لیں جا کے، وہ تو ہمیشہ ٹھیک ہوتی تھی، اسے کیا ہونا ہے؟
سال دو سال آپ نکال لیتے ہیں لیکن جب یہ مسئلے کافی گھن چکر ہوتے ہیں تو آپ جا کے بیٹھتے ہیں کسی عینک والے کی دکان پہ، اور اسے کہتے ہیں کہ چیک کرو استاد، کیا مسئلہ ہے یہ ۔۔۔ مگر وہ پہلے آپ سے پوچھتا ہے کہ زندگی کی بہاریں کتنی دیکھیں، جب آپ بتائیں کہ بھیا چالیس کراس ہے، تب وہ نچنت آپ کو مختلف نمبروں کے شیشے لگانا شروع کرتا ہے اور یہ کیا؟ ایک نمبر آپ کا لگ بھی جاتا ہے۔
یقین نہیں آتا، پھر آپ دوڑے دوڑے جاتے ہیں کوالیفائیڈ ڈاکٹر کے پاس، وہ بھی اسی ایک سوال کے بعد اسی طرح سارے لینز وغیرہ لگا کے آخر میں وہی والا ایک نمبر جو چشمہ ساز نے بتایا تھا، کارڈ پہ لکھ کے آپ کے حوالے کر دیتا ہے۔
اب آپ ’چشمہ کلب‘ میں شامل ہو چکے، مبارک ہو، لیکن اب مزہ نہیں آتا ۔۔۔ اب لگتا ہے کہ یار یہ تو جسم کی شکست ہے، عمر کا غلبہ ہے، عناصر کی بے اعتدالی گویا کھٹکھٹا رہی ہے دروازہ؟ مطلب، میری جان، اب میرے پاس تم آئی ہو تو کیا آئی ہو؟
تو آپ کے جذبات بڑے مکس قسم کے ہوتے ہیں، دل سمجھاتا ہے کہ میاں ایک فیشن اسیسری مل گئی، موج مناؤ، مگر دماغ مار جاتا ہے۔
خیر، تو قریب کا چشمہ لگا کے جو سب سے پہلا گیان آپ کو ملتا ہے، وہ یہ کہ سرکاری دفتروں میں بابو لوگ جب آپ کے داخل ہونے پہ کاغذات سے نظر ہٹا کے، ناک کے آخری اسٹاپ پہ چشمہ ٹکائے ٹکائے آپ کو اس کے اوپر سے تیوریاں چڑھا کے دیکھتے ہیں تو وہ بے زاری کے ساتھ ساتھ ان کی ٹیکنیکل مجبوری بھی ہوتی ہے۔
قریب کے چشمے کا حساب موبائل کیمرے والا ہے، اس کے آگے انگلی کر لیں، باقی ساری دنیا دھندلا کر وہ آپ کو صرف انگلی دکھائے گا، اسی طرح چشمہ لگائے لگائے اگر آپ دور دیکھیں گے تو سارا جہان مختلف رنگوں کی ایک آؤٹ آف فوکس کمپوزیشن کے علاوہ کچھ نہیں پائیں گے، ہاں قریب کی چیز، وہ خوبصورت دکھے گی، جیسے زندگی میں پہلی مرتبہ آپ نے اسے دیکھا ہو۔
دوسرا اہم تعارف چشمہ کلب کے مسائل سے ہوگا۔ شیشے کب کب صاف کرنے ہیں، کس کپڑے سے کرنے ہیں، چائے پیتے ہوئے چشمہ دھندلائے تو کیا کرنا ہے، ماسک لگا کے اپنی ہی سانس نظر کو دھواں دھواں کر دے، تب کیا کرنا ہے، چشمے کے اوپر چڑھ جانے سے بچنا کیسے ہے، بالفرض آ گیا چشمہ نیچے تو اس کے حفاظتی اقدامات کیا رکھنے ہیں، مہنگے اور سستے شیشوں میں کیا فرق ہوتا ہے نیز اچھا اور برا فریم کیا ہوتا، چوبیس گھنٹے پیسوں اور موبائل کی طرح اسے کہاں لٹکا کے گھومنا ہے ۔۔۔ مطلب سمجھ لیں ایک بے زبان پال لیا ہے آپ نے، خیال رکھیں گے تو ساتھ دے گا ورنہ اگلی مرتبہ پیسوں کی ڈز کے ساتھ ساتھ وقت الگ سے ضائع ہونا طے ہے۔
یہ ساری باتیں ایک طرف لیکن قریب کے چشمے کا ایک فائدہ بہرحال ذاتی طور پہ مجھے بہت پسند آیا کہ آدمی فوکسڈ رہتا ہے۔ پہلے پڑھتے پڑھتے نظر ہٹاتا تھا تو دھیان بھٹکنے کا چانس ہوا کرتا تھا، ابھی نظر ہٹے گی بھی تو یا دھندلاہٹ ہوگی اور یا پھر چشمہ نیچے کرنا پڑے گا، ہر دو صورت چشمہ گیر کو یاد رہے گا کہ بابا کام پہ واپس آؤ، اسے پورا کرو، تب عینک اتارو اور پھر طبیعت سے بے شک دنیا ناپتے پھرو۔
ویسے یہ فائدہ دریافت کر کے ابھی وہ لطیفہ یاد آ رہا ہے مجھے، ’بھئی سامنے کے دو دانت تو میں نے ویسے بھی نکلوانے ہی تھے۔‘
سنا تو ہوگا آپ نے؟
بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو