جمہوریت کے رنگ ڈھنگ

امر جلیل

آج ہم اپنے طور پر جمہوریت کے رنگ روپ دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کریں گے۔ اساتذہ سے جمہوریت کے بارے میں ہم کچھ پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، تو وہ ہمیں ٹال دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، فقیروں کا کیا کام جمہوریت اور آمریت سے؟ تم لوگ اللّٰہ اللّٰہ کیا کرو، اور زندگی کے دن گن گن کر گزارا کرو۔

زندگی گزارنے کے لئے فقیروں کو روکھی سوکھی مل جاتی ہے۔ وہ ہم فقیروں کو اس قدر کم تر اور ادنیٰ سمجھتے ہیں کہ ہم فقیر اپنے آپ کو مکمل طور پر فرضی اور خیالی چیز سمجھنے لگتے ہیں۔ ہمیں اپنے وجود پر شک ہونے لگتا ہے۔ ہم ہیں بھی، یا نہیں ہیں؟ اس لئے ہم فقیروں نے ارادہ کیا ہے کہ آج ہم خود اپنے طور پر جمہوریت کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔

سیانوں سے سنا ہے کہ جو ماجرا وساطت کے بغیر سمجھ میں آ جائے، وہ بات اٹل ہوتی ہے اور آپ کے فہم اور ادراک کا حصہ بن جاتی ہے۔ لہٰذا آج ہم اپنے طور پر، مل جل کر جمہوریت کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

جمہوریت کے حوالے سے ایک بنیادی بات ہم رد کرتے ہیں۔ یعنی اس بنیادی بات کو آنکھیں بند کر کے قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں۔ سب سے پہلے ہم جمہوریت کے حوالے سے ایک انگریزی محاورے کی چھان بین کرتے ہیں۔ Rule Of Majority Over Minority is Democracy سرے سے غلط ہے۔ قابل قبول نہیں ہے۔

میں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں۔ کسی بھی ملک میں ووٹ دینے والے ووٹ لینے والوں سے کہیں زیادہ ہوتے ہیں۔ پاکستان کی پچیس کروڑ کی آبادی میں سات آٹھ کروڑ لوگ ووٹ دینے کے اہل ہوتے ہیں۔ سات آٹھ کروڑ لوگوں کو پاکستان کی ایک قومی اسمبلی اور چار صوبائی اسمبلیوں کے لئے چھ، سات یا آٹھ سو ممبر اپنے ووٹ کے ذریعے چننے ہوتے ہیں۔ سات آٹھ کروڑ ووٹ دینے والوں کی واضح اکثریت کے سامنے سات آٹھ سو منتخب ممبران اکثریت اور اقلیت کے توازن میں کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ ایسی اقلیت توازن میں آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہوتی، مگر بھاری اکثریت سے ووٹ لے کر سات آٹھ سو لوگ پاکستان کی قومی اور چار صوبائی اسمبلیوں کے ممبر منتخب ہو جاتے ہیں۔

اسمبلیوں کے ممبر بن جانے کے بعد ممبران حکومت بناتے ہیں۔ آئین میں اپنی مرضی کے مطابق رد و بدل کرتے ہیں۔ حکومتیں بناتے ہیں، حکومتیں گراتے ہیں، پھر سے حکومتیں بناتے ہیں۔ اس طرح چار پانچ برس اپنے دلچسپ مشغلوں میں مبتلا رہتے ہیں۔ حکومت یا حکومتیں، بنانے گرانے ڈھانے کے عمل کو ملک کی واضح اکثریت یعنی ووٹ دینے والے بے بسی کے عالم میں دیکھتے رہتے ہیں۔ اسمبلی ممبران کے تماشوں کو دیکھتے رہتے ہیں، مگر کچھ کر نہیں سکتے۔ اکثریت کی اقلیت کے سامنے بے بسی اور بے چارگی کی اس سے بہتر مثال آپ کو نہیں مل سکتی۔

ہر لحاظ سے اقلیت میں ہونے کے باوجود وہ اسمبلیوں سے گوناگوں فوائد اور مراعات کے بل آئے دن پاس کراتے رہتے ہیں۔ اپنے لئے بلٹ پروف اور ایٹم بم پروف گاڑیاں منگواتے رہتے ہیں۔ ان کو اپنے ووٹ سے اسمبلیوں میں ممبران بنوانے والی اکثریت حواس باختہ ہو کر دیکھتی رہتی ہے۔ آپ آلو اور پیاز کی قیمتیں تو کم نہیں کر سکتے۔ مگر اپنے لئے سرکار کے دیوالیہ بجٹ سے بم پروف گاڑیاں امپورٹ کر سکتے ہیں۔

اقلیت یعنی ووٹ لے کر ممبر بننے والے کوئی ایسا بل پاس ہونے نہیں دیتے جس سے اکثریت ان کو بے پناہ من مانیوں سے روک سکے۔ ان لوگوں کے ستر اسی نوے برس کے ہو جانے کے باوجود آپ ان کو اسمبلی کا ممبر بننے سے روک نہیں سکتے۔ سرکاری کلرک اور نائب قاصد ساٹھ برس کے ہو جانے کے بعد ملازمت کے لائق نہیں سمجھے جاتے۔ ان کو ریٹائر کر دیا جاتا ہے، مگر آپ نے آج تک کسی ستر اسی برس کے اسمبلی ممبر کو ریٹائر ہوتے ہوئے نہیں سنا ہوگا۔ ان کو آخری دم تک حکومت کرنے، حکومت گرانے اور گرانے کے بعد پھر سے بنانے کا اختیار ملا ہوا ہوتا ہے۔

کسی کے پاس ایک اسمبلی ممبر کی کارکردگی دیکھنے اور پرکھنے کا اختیار نہیں ہے۔ وہ لوگ کوئی ایسا قانون بننے نہیں دیں گے کہ جس سے ان کے اختیارات کا جائزہ لینے کے لئے کسی کے پاس اختیار ہو۔ ایسی ہوتی ہے اقلیت جو اکثریت کو ناک چنے چبوا دیتی ہے۔ کس کام کی سات آٹھ کروڑ کی آپ کی اکثریت، جب آپ گنتی کی اقلیت کے سامنے بے بس بنے رہتے ہیں۔

سرکاری کلرک اور نائب قاصد لگنے کے لئے آپ سے آپ کی تعلیمی قابلیت پوچھی جاتی ہے۔ آپ کی تن درستی اور توانائی دیکھنے کے لئے آپ کو میڈیکل بورڈ کے سامنے پیش ہونا پڑتا ہے۔ مگر اسمبلی ممبر بننے کے لئے آپ سے آپ کی صحت کے بارے میں کچھ پوچھا نہیں جاتا۔ آپ چاہے لولے ہوں، لنگڑے ہوں، بہرے ہوں، گونگے ہوں، آپ اسمبلی ممبر بن سکتے ہیں، حکومت کر سکتے ہیں، حکومت گرا سکتے ہیں، گرانے کے بعد پھر سے حکومت بنا سکتے ہیں۔

ہم فقیروں نے کبھی حکومت کر کے تو نہیں دیکھی، مگر تماشہ چغلی کھاتا ہے کہ اسمبلی ممبر بننے اور بار بار ممبر بننے میں اپنا مزا ہے۔ ایک مرتبہ ممبر بننے کے بعد آپ عمر بھر ممبر بننے کی جستجو میں لگے رہتے ہیں۔ آپ چاہے، وزیراعلیٰ، وزیراعظم ، پاکستان کے پریذیڈنٹ بن جائیں، آپ آنے والے انتخابات میں پھر سے اسمبلی ممبر بننے کی خواہش رکھتے ہیں۔ یہ سب ایک اقلیت کا واضح اکثریت کو نیچا دکھانے کا کھیل ہے۔ اس کو بھائی لوگ جمہوریت کہتے ہیں۔

بشکریہ: روزنامہ جنگ۔
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close