آج کل ٹک ٹاک ویڈیوز اور فیس بک ریلز کا زمانہ ہے، ایسے بہت سے ویڈیو کلپ ملیں گے جن میں کوئی نوجوان چپکے سے کیمرہ اٹھائے اپنے کسی اہل خانہ یا دوست کا تعاقب کرتا اور اس کی دلچسپ حرکتوں کو ریکارڈ کرتا ہے۔
آج کل ہمارے حوالے سے کوئی ریکارڈنگ کرے تو اکثر بیشتر ہم دکانداروں کو لفظ ’انکل‘ کی تباہ کاری اور منفی اثرات کے بارے میں لیکچر دیتے پائے جائیں گے۔ ہم نے تہیہ کیا ہے کہ دکانداروں کو سمجھایا جائے کہ کسی کسٹمر کو انکل نہیں کہتے اور نہ ہی کسی خاتون کو آنٹی۔ یہ کام ہم بڑے ذوق شوق بلکہ ولولے کے ساتھ سرانجام دیتے ہیں۔
اس منحوس لفظ انکل سے ہمارا واسطہ چند سال پہلے پڑا اور افسوس کہ اب یہ لفظ بہت بار سننا پڑتا ہے۔ ایسے دکانداروں کی کمی نہیں جو خاصی ڈھٹائی اور دیدہ دلیری سے دیدے پھاڑ کر ہمیں انکل کہہ ڈالتے ہیں، جب ہم انہیں سمجھاتے ہیں کہ بھلے مانس انکل کی جگہ اتنے اچھے، شائستہ نرم الفاظ موجود ہیں، بھائی جان، بھائی، پائیان وغیرہ تو انہیں برتو، انکل کیوں بنا ڈالا۔ نجانے کیوں ہماری ایسی ہر گفتگو پر یہ نوجوان سر جھکا کر تائید تو کر دیتے ہیں، مگر ان کے لبوں پر کھیلتی شوخ مسکراہٹ اس کی نفی کرتی ہے۔
ماضی میں کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ انکل جیسا بظاہر نرم و ملائم لفظ بھی ایسا کھردرا، نوکدار اور کٹیلا ہو سکتا ہے؟ خود پر گزری ہے، تب اس لفظ کی تباہ کاری کا حقیقی اندازہ ہوا۔ سات آٹھ سال پہلے یہ لفظ پہلی بار سنا۔ ایک دکان سے کچھ خریدا۔ ایک نوجوان بیٹھا تھا، اس نے تیزی سے گاہک نمٹاتے ہوئے ہماری طرف ایک نظر ڈالی اور پھر لفافہ تھما کر بولا، انکل اس کے پیسے دے دیں۔ ایک لمحے کے لیے تو ہم سکتے میں آ گئے، پھر لگا کہ شاید پیچھے کوئی بزرگ کھڑے ہیں، انہیں مخاطب کیا ہے۔ مڑ کر دیکھا تو کوئی نہیں تھا۔ اتنے میں اس نے ایک بار پھر انکل کہہ کر پکارا اور پیسے مانگے۔
گھر پہنچنا تھا، جلدی تھی، اس کا سر پھوڑنا بھی آسان نہیں تھا۔ خون کے گھونٹ بھرتے ہوئے اسے پیسے تھمائے اور عہد کیا کہ آئندہ اس نامعقول دکاندار کی طرف رخ نہیں کرنا۔ یہ اندازہ نہیں تھا کہ آغاز ہو چکا۔ اس کے بعد ایسے بدقسمت واقعات پے درپے ہونے لگے۔ کچھ عرصہ تک تو ہم مزاحمت کرتے رہے، دو چار بار دکانداروں کو پرمغز لیکچر بھی دیا کہ ایسے منہ پھاڑ کر نہیں بول دیتے، تمہاری میری عمر میں آٹھ دس سال کا فرق ہی ہوگا، یہ تو ہم ذرا ’صحت مند‘ زیادہ ہوگئے تو زیادہ لگتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔
اس عمر (چالیس پینتالیس سے اوپر) میں صرف انکل کہلوانا ہی مصیبت نہیں، دوسرا بڑا مسئلہ ناسٹلجیا یعنی پرانی یادیں بن گیا۔ ہماری نسل کا یہ مسئلہ ہے کہ ہم نے دو الگ انداز کی دنیائیں دیکھی ہیں۔ تار، خط، بیرنگ خط، رجسٹری وغیرہ سے کوریئر خط اور پھر فیکس، ای میل، واٹس ایپ میسجز تک کے سفر میں کتنا کچھ بدلتے دیکھا۔ ڈائل گھمانے والے فون سے کارڈلیس فون اور پھر پرانی وضع کے بھدے نمبروں والے بلیک اینڈ وائٹ موبائل سے بلیک بیری اور آج کے رنگا رنگ سمارٹ فون تک، کیا کچھ تبدیل نہیں ہوا۔ یہ ہماری نسل یا ہم سے کچھ پہلے، بعد والے ہیں جنہوں نے دیکھا۔ ہمارے بھانجے، بھتیجے اور بچوں نے یہ سب کچھ نہیں دیکھا۔ ان کے نزدیک فون صرف سمارٹ ہی ہوتا ہے، تیز رفتار انٹرنیٹ اور سینکڑوں چینلز والے کیبل ٹی وی ہی انہیں واحد آپشن لگتے ہیں۔
ہماری نئی نسل کو اندازہ ہی نہیں کہ طویل عرصے تک ملک بھر میں ایک ہی سرکاری ٹی وی تھا، جس پر صرف آٹھ بجے ڈرامہ لگتا، نو بجے خبرنامہ اور اس کے بعد ٹی وی پر دیکھنے کے قابل کچھ نہ رہتا، 11 بجے سب بند ہو جاتا۔ مجھے یاد ہے کہ نوے کے عشرے کے اوائل میں نجی چینل شروع ہوا۔ تب لاہور، کراچی، اسلام آباد میں اس کے ڈرامے دکھائے جاتے۔ ایک ڈرامہ ’چاند گرہن‘ سپرہٹ گیا تھا، جسے اصغر ندیم سید نے لکھا تھا، شفیع محمد شاہ وغیرہ کا مرکزی کردار تھا۔ اخبارات میں اس پر ریویوز چھپتے تو ہم لوگ رشک سے سوچتے کہ نجانے کب ہمیں وہ دیکھنا نصیب ہوگا۔ پھر بہاولپور میں ایس ٹی این نشریات شروع ہوئیں اور ہمارے پاس بھی پی ٹی وی کے علاوہ آپشن آ گئی۔
آج جو چینلز کی فراوانی ہے، اس کا کبھی کسی نے تصور تک نہیں کیا تھا۔ نیٹ فلیکس، ایمزون وغیرہ جیسی اسٹریمنگ سائیٹس کا تو شاید خواب میں بھی کسی نے نہ سوچا ہوگا۔
ہمارے بچوں کے لیے یہ سب دستیاب ہیں۔ اچھا ہے، جن چیزوں سے ہم محروم رہے، یہ ان سب چیزوں سے بچ گئے۔ ایک مسئلہ البتہ یہ ہوا کہ انہیں پی ٹی وی کے ناظرین کی نفسیات اور ناسٹلیجیا کا اندازہ ہی نہیں۔ جب ہم ففٹی ففٹی کے کسی مشہور خاکے کی بات کریں، حسینہ معین کے لکھے مشہور ڈرامہ سیریلز ان کہی، تنہائیاں، دھوپ کنارے وغیرہ یا اشفاق احمد، منو بھائی کے لاہور اسٹیشن پر چلنے والے لانگ پلے کا تذکرہ ہو تو ہماری نئی نسل اپنی تمام تر ہوشیاری، سمارٹنیس کے باوجود اجنبیت سے بیٹھے آنکھیں پٹپٹاتے رہتے ہیں۔
یہ ہمارا زمانہ، ہمارا ماضی، ہمارا ناسٹلجیا ہے، اسے ہم اپنی اگلی نسلوں سے شیئر نہیں کر سکتے۔ ایسا شاید تاریخِ انسانی میں کبھی نہیں ہوا تھا۔ انسان نے اتنی تیزی سے چند برسوں میں کبھی ترقی کی ہی نہیں۔ مجھے یاد ہے کہ میرے والد دلیپ کمار کی فلموں کے فین تھے، محمد رفیع، مکیش، لتا کے گانے پسند تھے۔ پاکستان میں مہدی حسن، اقبال بانو جبکہ منی بیگم کی گائی غزلیں انہیں مرغوب تھیں۔ میری پیدائش سے پہلے یا بچپن کی فلمیں، میوزک تھا، مگر ہم اس سے آشنا، اس کے مداح تھے اور بہت سی پرانی فلمیں دیکھ چکے تھے، اس لیے اس ناسٹلجیا، خوشگوار یادوں کا حصہ بن جاتے۔
اب ویسا ممکن نہیں۔ میرا بڑا دل چاہتا ہے کہ ’وارث‘ جیسا ڈرامہ میں اپنے بچوں کے ساتھ بیٹھ کر دیکھوں، ’فہمیدہ کی کہانی استانی راحت کی زبانی‘ جیسا لازوال لانگ پلے دیکھوں، مگر یہ سب ہمارے بچوں کے مزاج، پسند اور ذوق سے دور ہے۔ دنیا بہت آگے نکل گئی، زندگی کی رفتار اتنی تیز ہے کہ اب ہماری اگلی نسلوں کو پیچھے آنے کی ضرورت نہیں، ہمیں جیسے تیسے بھاگ کر ان کے ساتھ قدم ملانے کی کوشش کرنا پڑتی ہے۔ ناکام کوشش۔۔
ہماری نسل کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ہمارے کچھ رومانس سرے سے ختم ہو گئے۔ ان کا اب وجود ہی نہیں رہا۔ اگر چاہیں بھی تو اپنے بچوں کو ان کا تجربہ نہیں کرا سکتے۔ کون کافر ہے جو خط کے رومانس اور خوبصورتی سے انکار کرے۔ خط لکھنے کا اپنا ہی لطف اور مزہ تھا۔ ضروری نہیں کہ خط کسی خاص رومانی حوالے سے لکھے جائیں۔ ویسے تو اس میں بھی کوئی ہرج نہیں، یہ بھی زندگی کا ایک فیز ہی ہے۔ اپنے والدین، عزیز واقارب اور دوستوں کو لکھے گئے خط بھی کچھ کم تخلیقی اور دلچسپ نہیں تھے۔
مشہور بھارتی شاعر جاوید اختر کے والد جانثار اختر کے اپنی اہلیہ صفیہ کے نام خطوط اور بیگم صفیہ کے جوابی خطوط پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ پچھلے دنوں اپنے پرانے کاغذات میں سے بیس پچیس سال پرانے کچھ خط ملے، جو لاہور آنے کے شروع کے برسوں میں والدہ کو لکھتا رہا۔ میری امی (اللہ انہیں زندگی اور صحت عطا فرمائے، آمین) لکھنے کا شوق رکھتی تھیں، شادی سے پہلے وہ خواتین کے بعض جریدوں کے لیے لکھتی بھی رہیں۔ ان کے خطوط پڑھے تو وہ پورا زمانہ نظروں کے سامنے آ گیا۔
میرے والد کا انتقال ہوچکا تھا۔ ایک بیوہ جس کا کل اثاثہ اس کے دو بیٹے ہیں، پانچ سو میل دور جانے والے اپنے بیٹے کو خط لکھتے ہوئے امید کی شمع جگائے رکھنے، اپنے روزمرہ کے مسائل، دکھ درد شیئر کرنے اور کہیں کہیں پر حالات کے گلے شکوے بھی کرتی ہے۔ یہ خیال ذہن میں کہ کوئی ایسا جملہ نہ لکھا جائے جس سے بیٹا اداس ہو جائے، اپنے دکھ سکھ بھی بتانے ضروری ہیں، موسم کا حال، گھر میں لگے درختوں، پودوں، نئے کھلے پھولوں کا تذکرہ اور نہ جانے کیا کیا کچھ۔۔
مجھے اپنے لکھے کچھ خط یاد آئے جو اس زمانے میں دوستوں کو لکھے، پڑھنے کا چسکا، تحریروں میں تخلیقی ٹچ دینے کے ساتھ بے شمار حوالے رقم کر ڈالتے۔ کاش ان کی نقل محفوظ کر لیتا۔
ان دنوں ڈائجسٹوں کو خطوط لکھنے کا بھی بڑا رواج تھا، مجھے یاد ہے کہ کراچی کے دو ڈائجسٹوں میں میرے خط کو انعام بھی ملا، اگرچہ وہ انعام کبھی مل نہ سکا۔ ہم اسی پر خوش ہوگئے کہ انعام کا اعلان تو ہوا۔
عید کارڈز کا رومانس کچھ کم تھا۔ عید سے پہلے کئی چکر لگا کر بامعنی، خوبصورت کارڈز منتخب کیے جاتے پھر انہیں بروقت روانہ کرنا۔ آج میرے بچوں کا یہ ایشو بھی نہیں۔ کسی دوست کو پیغام بھیجنا ہو تو جھٹ سے واٹس ایپ بھیج دیا، اب تو وائس میسجز بھی عام ہو گئے، یا پھر ویڈیو ریکارڈ کر کے سینڈ کر دی، قصہ تمام۔
بہت کچھ ایسا ہے جو ختم ہو گیا اور کبھی واپسی نہیں ہوگی۔ ریڈیو کمنٹری بھی ان میں سے ایک ہے۔ قومی کرکٹ ٹیم ویسٹ انڈیز کا دورہ کرتی تو میچز کی تفصیل ریڈیو کمنٹری سے جانتے۔ آج اپنے بچوں کو ریڈیو کمنٹری اور اس کے سحر کا بتانا چاہوں تو انہیں سمجھ ہی نہیں آئے گی۔ یہ وہ یادیں ہیں جو اپنے بچوں سے شیئر نہیں کر سکتے۔ انہیں اندازہ ہی نہیں کہ شام کو پی ٹی وی ڈرامہ دیکھنا کیا معنی رکھتا تھا؟ نو بجے کے خبرنامہ کی کیا اہمیت تھی اور صبح کی نشریات میں چاچا جی مستنصر تارڑ کی گفتگو کیا جادو دکھاتی تھی؟ یہ سب گئے گزرے زمانوں کی باتیں لگتی ہیں۔
آج جب کیبل پر سینکڑوں چینل دستیاب ہیں، بچوں کے لیے آٹھ دس کارٹون چینل موجود ہیں، انہیں کیسے صبح کی خبروں کے بعد پانچ منٹ کے کارٹون کی اہمیت کا پتہ چل سکتا ہے؟ پنک پینتھر کا خاموش کارٹون ہمارے لیے کیسا پرکشش تھا۔ یہ ہمارے زمانے کی باتیں، اپنی ہی یادیں ہیں، ہم ہی ان سے حظ اٹھا سکتے، اپنے ہم عصروں سے بات کر سکتے ہیں۔ ہمارے بعد کی نسلوں کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں، ان کا اپنا ناسٹلجیا، اپنی یادیں ہوں گی۔ زندگی کے یہ بدلتے رنگ ہیں جو ہمیں دیکھنے ہی ہوں گے، ابھی نجانے کتنا اور کیا کچھ مزید تبدیل ہوگا۔
بشکریہ اردو نیوز۔
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)