اس لطیفے کی کوئی پنچ لائن نہیں ہے کیونکہ سب جانتے ہیں کہ انور مقصود سے کوئی نہیں ڈرتا۔ انور مقصود پاکستانیوں کی تیسری نسل کو ہنسا رہے ہیں۔ اب صورتحال یہ ہے کہ وہ اسٹیج پر آ کر منھ بھی نہیں کھولتے، لوگ ہنسنا شروع ہو جاتے ہیں، تالی بجانے کی تیاری کرنے لگتے ہیں۔
انور مقصود ٹی وی پروگراموں کی میزبانی بھی کرتے ہیں، گیت بھی لکھتے ہیں، سنا ہے اچھے خاصے مصور بھی ہیں۔ لیکن ان کی وجۂ شہرت ان کی لطیفے بازی بنی۔ انہیں مائیک ملے گا تو وہ لطیفہ ضرور سنائیں گے۔ وہ لطیفہ بازی کے ایسے مزدور ہیں، جنہوں نے اپنے دھندے سے کبھی بے وفائی نہیں کی۔
مارشل لا آتے رہے،
جاتے رہے، جمہوریت اپنے حسن کی جھلکیاں دکھاتی رہی چھپاتی رہی لیکن انور مقصود کے لطیفے کبھی نہیں رُکے۔ وہ درباری بھی ہیں اور باغی بھی۔ حکمرانوں اور سرکاری افسروں کو بھی لطیفہ سنا دیتے ہیں اور عوام کو بھی۔ بادشاہ کو بھی خوش رکھنے کا ہنر جانتے ہیں اور رعایا کو گدگدی کرنا بھی انہیں آتا ہے۔
عام طور پر کہا جاتا ہے کہ نفیس مزاح وہ ہوتا ہے جس میں طاقتور کا مذاق اڑایا جائے لیکن پاکستان میں طاقتور ایلیٹ کی حسِ مزاح ایسی ہے کہ ان کے بارے میں لطیفہ سنایا جائے تو وہ کھل کر داد دیتے ہیں، جیسے یہ لطیفہ کسی اور کے بارے میں سنایا جا رہا ہے۔
انور مقصود کمزور طبقوں کو بھی نہیں بخشتے۔ کبھی سندھ اور سندھیوں کے بارے میں کچھ کہہ دیتے ہیں، بنگالی بھائی تو اکثر ان کے مزاح کا نشانہ بنتے ہیں۔ انور مقصود میں ایک اور خوبی بھی ہے کہ اگر لطیفے پر کوئی ناراض ہو جائے تو فوراً معافی مانگ لیتے ہیں۔ اور کبھی کبھی اس معافی کے اندر بھی لطیفہ سنا دیتے ہیں۔ (بنگالیوں سے انہوں نے کبھی معافی نہیں مانگی تو غالباً انہیں شاید وہ معافی کے قابل بھی نہیں سمجھتے۔)
آخری معافی انہوں نے عسکری ادارے سے مانگی ہے، وہ بھی پاک نیوی سے۔ پاک نیوی عسکری اداروں میں غریب رشتہ دار سمجھی جاتی ہے، نہ ان کے کارناموں کا زیادہ چرچا ہوتا ہے، حکومتیں گرانے بنانے میں بھی کچھ زیادہ مشورہ نہیں کیا جاتا اور کاروبار کرنے میں بھی سب سے پیچھے ہیں۔
انہوں نے نیوی کے شہدا کے بارے میں ایک پھسپسا سا لطیفہ سنایا، لعن طعن ہوئی (لیکن واہ، واہ زیادہ ہوئی)۔ انور مقصود اپنی معافی کے ساتھ فوراً حاضر ہو گئے۔
نیوی کے افسروں کے ساتھ اپنی دوستی کے قصے سنائے اور بغیر پنچ لائن کے یہ لطیفہ بھی سنا گئے کہ وہ 50 سال تک ایڈمرل منصورالحق کے دوست رہے اور باقی سینیئر افسروں کے ساتھ تاش کھیلا کرتے تھے۔
ان کے سامعین کو شاید یہ یاد نہ ہو کہ ایڈمرل منصور الحق غالباً پہلے فور اسٹار جنرل تھے جو کرپشن کے الزامات پر برطرف ہوئے، مقدمہ چلا اور آخر میں حکومت کو ساڑھے سات ملین ڈالر دے کر جان چھڑائی۔ اگر ایسے شخص کے ساتھ نصف صدی تک دوستی رہی ہو تو اس کا مذاق اڑانے کی گنجائش ہونی چاہیے۔
لطیفے سناتے سناتے بعض اوقات انسان خود لطیفہ بن جاتا ہے۔ گذشتہ چند سالوں میں انور مقصود کا مزاح درباری کم اور باغی زیادہ ہوتا جا رہا ہے۔
اب وہ عسکری اداروں کے، کبھی کبھی جنرلوں کے نام لے کر لطیفے سناتے ہیں، نواز شریف کی بھد اڑاتے ہیں۔ ہو سکتا ہے وہ بھی پاکستان کے بہت سے بزرگوں کی طرح ساری عمر ہر اسٹیبلشمنٹ کا حصہ یا حواری رہنے کے بعد اب حقیقی آزادی کے متلاشی ہیں۔
لیکن اتنے بزرگ لطیفے باز کو یہ پتا ہوتا ہے کہ اس کے سامعین آج کل کس بات پر ہنسیں گے۔ انور مقصود کو پوری طرح اندازہ ہے کہ وہ خان کا نام لیں گے تو تالی بجے گی، عسکری اداروں پر چٹکلہ سنائیں گے تو ہنسی اور تالی دونوں۔
جن کو انور مقصود کے لطیفے پسند نہیں ہیں، ان کو حق ہے کہ نہ تالی بجائیں، نہ ہنسیں۔ اگر طاقتور ہوں تو معافی منگوا لیں لیکن ایک بزرگ لطیفے باز پر لعن طعن کرتے ہوئے یہ بھی سوچیں کہ آخر ان کے سننے والوں کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ ان اداروں کے بارے میں لطیفے سننا چاہتے ہیں جو کبھی مقدس سمجھے جاتے تھے۔
انور مقصود کے لطیفوں سے تو کوئی نہیں ڈرتا لیکن ان کے لطیفوں پر ہنسنے والوں سے شاید اداروں کو کچھ خوف آنا شروع ہو گیا ہے۔
بشکریہ بی بی سی اردو۔
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)