1970ء کی دہائی کے آخر میں کراچی میں کوچنگ سینٹر کے ’تعلیمی نظام‘ کا آغاز ہوا، اس سے پہلے کراچی میں ہوم ٹیوشن اور گروپ ٹیوشن کا طریقہ کار تھا۔ بچے صرف اسکول یا کالج میں پڑھتے اور جس مضمون میں مسئلہ ہوتا، اس کا ٹیوشن لے لیتے تھے۔ شروع شروع میں جب کوچنگ کلچر کا آغاز ہوا تو صرف اہم مضامین کی تیاری کروائی جاتی اور طریقہ کار یہ رکھا جاتا کہ روز ایک یا دو مضامین کی کلاسز ہوتیں۔ یہ طریقہ کار سب سے پہلے کامرس میں کامیاب ہوا، کیونکہ اکاؤنٹنگ کی پہلے ہی سے ہوم ٹیوشن اور گروپ ٹیوشن چلتی آ رہی تھی۔
سائنس میں کوچنگ سینٹرز کا نظام آہستہ آہستہ ترقی کے منازل طے کرتا جا رہا تھا کہ 85-1984 میں کراچی کے حالات بہت زیادہ کشیدہ ہو گئے اور اسکول کالجز کافی مدت کے لئے بند رہنے لگے۔ اس زمانے میں کالجز پر زیادہ مصیبت آئی، کیونکہ وہ عام طور پر گھر سے کافی دور ہوتے تھے، اس لئے والدین حالات کی وجہ سے بچوں کو بھیجنے میں خوفزدہ تھے۔ یوں کالجز کھلنے کے بعد بھی کالجز میں حالات کی خرابی کے خوف سے بچوں کی غیر حاضری رہتی اور کورس بھی مکمل نہیں ہو پاتا۔
ان حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کوچنگ سینٹرز، جو کہ عام طور پر گھر کے قریب ہوتے تھے، بہت تیزی سے فروغ پانے لگے۔ اب یہ نظام کراچی میں پڑھائی کے لئے لازم و ملزوم ہو گیا ہے۔
اب صورتحال یہاں تک آن پہنچی ہے کہ کراچی کے کسی بھی علاقے میں تعلیم کے حصول میں اسکول اور کالجز ثانوی حیثیت رکھتے ہیں، جب کہ کوچنگ سینٹرز کا مقام پرائمری (اَوَّلِین) ہو گیا ہے۔
کالجز کے لیے طلباء کا رویہ
شروع زمانے میں تو صرف اتنا ہی ہوتا تھا کہ طلباء کالج بھی روز جاتے تھے اور سینٹر بھی، مگر پھر 90 کی دہائی میں طالبات تو ریگولر کالج اور سینٹر دونوں جاتیں مگر لڑکوں نے سینٹرز کو ریگولر اختیار کر لیا اور کالج صرف پریکٹیکل کرنے جاتے۔ 2015ء تک یہ حالات تو جاری رہے مگر یہ اطمینان تھا کہ طالب علم جب بھی کلاس میں آتے، جو سکھایا جاتا وہ سیکھنے کی بھرپور کوشش کرتے، مگر 2015 سے 2019 کے درمیان یہ حالات اور خراب ہوئے اور معاملات یہاں تک پہنچ گئے کہ نوٹ بک پر ٹیچر کے لیکچر کو تو نوٹ کرتے مگر دھیان کبھی بھی نہیں لگاتے اور دماغ میں یہی ہوتا کہ سب کچھ سینٹر میں ہی سیکھنا ہے، یہاں سیکھ کر ڈبل مائنڈڈ ہو جائیں گے۔
2020ء میں کووڈ-19 کے بعد جو نئی نسل آئی، ان کی اکثریت کالج میں صرف ایڈمیشن لینے، انرولمنٹ جمع کرانے، ایگزامنیشن فارم جمع کرانے، ایڈمٹ کارڈ لینے اور آخر میں مارکس شیٹ لینے تک محدود ہو گئی. اس کے علاوہ یہ کالج میں نہیں آتے نہ انہیں کالج کی کلاس روم کی خبر ہوتی ہے۔ ان کے نزدیک ٹیچر ریسپشن پہ بیٹھا ہوا وہ کلرک ہے، جو اس کے فارم کے مسائل حل کرتا ہے اور انہی کو وہ ’سر‘ کہہ کر مخاطب کرتا ہے۔
جس زمانے میں انرولمنٹ اور ایگزامینیشن فارم جمع کیے جاتے ہیں تو کالج انتظامیہ کی طرف سے کلاسز لینے کی سختی کی وجہ سے اگر غلطی سے کلاس میں آ بھی جائے تو اس کے دھیان میں یہ ہوتا ہے کہ یہ کلاس میں پڑھانے والا کوئی حیثیت نہیں رکھتا، اصل ٹیچر صرف کوچنگ سینٹر کا ہے اور ہم نے اس کی نہ سننی ہے نہ پڑھنا ہے اور نہ ہی اس کی کسی بات کو لکھنا ہے۔ اس کے لیے سب سے اہم اٹینڈنس ہوتی ہے۔
ان زبردستی لائے ہوئے بچوں کے علاوہ جو لوگ کلاس میں آتے ہیں، ان کا بھی عجب حال ہوتا ہے۔ کہنے کو 500 بچوں میں سے روز کلاس میں 50 بچے بیٹھے بھی ہوتے ہیں لیکن روزانہ نئے 50 بچے! کیونکہ ان بچوں کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ ہفتے میں دو یا تین دن جائیں گے یا صرف پریکٹیکل والے دن جائیں گے۔ بچوں کے ریگولر نہ ہونے کی وجہ سے ٹیچر غریب کی شامت آجاتی ہے کہ وہ ٹاپک کو شروع کرے تو ختم کیسے کرے، کیونکہ بعض اوقات سامنے ایک بچہ بھی وہ نہیں ہوتا، جو کہ پچھلی کلاس میں تھا۔ دور سے دیکھنے والے شخص کو تو کلاس بھری ہوئی نظر آتی ہے مگر دراصل اس کلاس سے لاکھ درجے بہتر وہ کلاس ہوتی ہے، جس میں دو بچے بیٹھے ہوں مگر روز آتے ہوں۔
اب یہاں پر کچھ لوگ اپنی ایک فضول تھیوری پیش کرتے ہیں کہ اتنا اچھا پڑھاؤ کے بچہ رک جائے۔ ان کی خدمت میں عرض ہے کہ مائنڈ سیٹ اس طرح کا بن چکا ہے کہ اگر وہی ٹیچر جو کلاس میں جان مار کے پڑھا رہا ہے، اس سے کم لیول پر جا کر کوچنگ میں پڑھائے تو یہی بچہ توجہ دے کر پڑھتا ہے، مسئلہ اس مائنڈ سیٹ کو ختم کرنے کا ہے۔ ان حالات میں ٹیچر کے مسائل ثانوی حیثیت رکھتے ہیں.
طلباء کو کالج کی طرف لانے کے لیے کیے جانے والے اقدامات
بات یہ ہے کہ اس صورتحال سے ان حالات سے کس طرح سے نپٹا جائے اور طلباء کو واپس کالج میں لایا جائے۔ کوچنگ سینٹرز نے کراچی کے تعلیمی معیار کے بگاڑ میں اہم کردار ادا کیا ہے، کیونکہ کوچنگ سینٹرز کے نتیجے میں جو سب سے بڑا نتیجہ معاشرے کو مل رہا ہے، وہ تربیت کا فقدان ہے، کیونکہ یہاں صرف کورس پڑھایا جاتا ہے، تربیت کا کوئی تعلق نہیں جبکہ کالج دراصل ان دونوں چیزوں کی آمیزش کا نام ہے اور اسی وجہ سے پچھلے دو دہائیوں سے معاشرہ بربادی کی جانب گامزن ہے۔
طلباء کے کالج سے متنفر ہونے کی کچھ اہم وجوہات ہیں جسے تھوڑی سی کوشش سے حل کیا جا سکتا ہے۔ سب سے اہم مسئلہ طویل فاصلہ اور ٹرانسپورٹ کے اخراجات ہیں اس کو حل کرنے کے لیے کالجز میں ایڈمیشن کے لیے کراچی میں موجودہ نظام سے ہٹ کر کراچی کو کالجز کی لوکیشن کے اعتبار سے مختلف ریجن میں تقسیم کرنے کی ضرورت ہے اور لازمی ہر بچہ اس ریجن میں موجود کالج میں ہی ایڈمیشن لینے کا پابند بنایا جائے، کیونکہ ضلع اور ٹاؤن کی حد بندیاں کالجز کے لوکیشن کے اعتبار سے بالکل نامناسب ہیں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ جب دور کے ’اچھے کالج‘ میں ایڈمیشن لے کر جانا ہی نہیں تو بہتر یہ ہے کہ قریب کے کالج میں روز جایا جائے۔ اس لیے اچھے اور بڑے کالج کی فضول رسومات کو ختم کرنا ضروری ہے۔
کالجز میں دوسرا اہم مسئلہ یہ ہے کہ عام طور پر ہر مضمون کا ٹیچر نہیں ہوتا لیکن دوسرے کالج میں ایک ہی مضمون کے بہت سارے ٹیچر موجود ہوتے ہیں۔ اس تقسیم کو بآسانی متناسب بنایا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک کالج میں میتھمیٹکس کے چار ٹیچرز موجود ہیں جبکہ دوسرے کالج میں ایک بھی نہیں تو یہ کمی ٹیچرز کی بہتر تقسیم سے آسانی سے حل کی جا سکتی ہے۔
تیسری اہم بات یہ ہے کہ ایک ہی کلاس میں 200 سے زیادہ بچوں کو رکھا جاتا ہے اس کے لیے مناسب سیکشن بنانا ضروری ہیں، جبکہ زیادہ تر کالجز میں کلاس روم دستیاب ہوتے ہیں بس فرنیچر کے مسائل کو اگر حل کر لیا جائے تو سیکشن بنانا کوئی مسئلہ نہیں۔
چوتھی اہم بات یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں بچوں میں اتنی سکت نہیں کہ وہ ایک ساتھ پانچ یا چھ لگاتار کلاسز اٹینڈ کر سکیں، لہٰذا درمیان میں ایک بڑے بریک کے بجائے دو چھوٹے بریک ہونا ضروری ہے تاکہ وہ تازہ دم ہو کر دوبارہ کلاسز لے سکیں۔
کوچنگ سینٹرز اور کالجز میں ایک سب سے اہم فرق یہ ہے کہ کوچنگ سینٹر میں اگر طلباء کو کوئی ٹیچر سمجھ نہیں آ رہا تو وہ بآسانی اسے تبدیل کروا سکتے ہیں، مگر کالجز میں ایسا ممکن نہیں ہے، لیکن اس کا حل بھی اب موجود ہے۔ ایک یا دو مضامین میں اگر کسی کو مسئلہ ہو رہا ہے تو وہ با آسانی یوٹیوب اور دیگر آن لائن طریقوں سے ان مضامین کی تیاری بہت اچھی طرح سے کر سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں ہر کالج میں اب باقاعدہ بہترین انداز میں کام کرنے والی ڈیجیٹل لائبریری ہونا ضروری ہے تاکہ طلباء اس سے بھرپور فائدہ اٹھا سکیں.
اس کے ساتھ ساتھ ہم نصابی سرگرمیوں کو بھی کالجز میں انتہائی فروغ ملنا چاہیے کہ یہی سرگرمیاں دراصل بہت ساری فیلڈز کی نرسری ہوتی ہیں۔ اسکولوں میں ان سرگرمیوں کے ختم ہونے کی وجہ سے طلباء میں ان تمام سرگرمیوں میں حصہ لینے کی حس ہی مر گئی ہے۔ اس سلسلے میں انعامات دینے اور سیلیبریٹریز (جو نوجوانوں میں بہت مقبول ہیں) کو بلا کر ایوارڈ دلوانے سے طلباء میں ان سرگرمیوں کو دوبارہ بیدار کیا جا سکتا ہے۔
اگر ان تمام چیزوں پر مکمل کنٹرول حاصل کر لیا جائے اور پھر اس کے بعد اٹینڈنس کے نظام کو مضبوط کر لیا جائے تو یقینی ہے کہ بچے کالجز میں ریگولر ہو جائیں اور ایک اچھا معاشرہ وجود پائے۔