’اُووو اُووو‘ والا احتجاج ہمارے کس کام کا؟

محمد اشتیاق

پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف کا ایک ویڈیو کلپ اِن دنوں وائرل ہے، جس میں وہ ایک تقریب میں حاضرین کو بتانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ جاپان میں کام کے دوران ’اُووو اُووو‘ کر کے احتجاج ریکارڈ کروایا جا رہا تھا۔

وزیراعظم ویڈیو میں کہتے ہیں کہ وہ جاپان کے دورے کے دوران ایک فیکٹری کا دورہ کر رہے تھے کہ وہاں کام کرنے والوں کی طرف سے ’اُووو اُووو‘ کی آواز آئی۔

جس کے کچھ دیر بعد دوسری اور پھر تیسری مرتبہ بھی جب یہ آواز انہیں سنائی دی تو انہوں نے حیران ہو کر اپنے میزبان سے اس کی وجہ دریافت کی، جس پر انہیں بتایا گیا کہ فیکٹری میں کام کرنے والے ’اُووو اُووو‘ کی صدا بلند کر کے اپنا احتجاج ریکارڈ کروا رہے ہیں۔

شہباز شریف نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ’اُووو اُووو‘ کر کے احتجاج بھی جاری رہا اور کام بھی۔

لیکن انہوں نے اپنے ملک کا دکھڑا سناتے ہوئے کہا کہ جب یہاں احتجاج ہوتا ہے تو معمولاتِ زندگی مفلوج ہو جاتے ہیں اور ان کے بقول ’احتجاج کی کال پر لشکر کشی‘ کر دی جاتی ہے۔

وزیراعظم نے اپنا دکھ تو سنا دیا لیکن انہیں اس بات کا بھی ادراک ہونا چاہیے کہ دنیا، خاص طور پر ترقی یافتہ ممالک کی مثالوں سے ہمارے زمینی حقائق بدلنے کی مثالیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔

یہاں جب تک کنٹینر نہ لگیں، سڑکیں بند نہ ہوں اور کچھ جھڑپیں نہ ہوں تو احتجاج لگتا ہی نہیں اور کوئی ایسے احتجاج پر توجہ بھی نہیں دیتا۔ پاکستان میں حالیہ کچھ احتجاج پُرتشدد رہے، جس کا بلاشبہ نقصان اس ملک کی ساکھ کو بھی ہوا۔

سیاسی جماعتیں ہوں یا دیگر تنظیمیں و گروپ ایسے پُرزور احتجاج کر چکے ہیں کہ شاید محض ’اُووو اُووو‘ کر کے احتجاج ریکارڈ کروانے پر وہ فی الحال تو اتفاق نہ کر سکیں۔

نہ تو ہم ایسے ’بے اثر‘ احتجاج کے عادی ہیں اور اگر ایسا احتجاج کیا بھی گیا تو شاید کوئی سنے بھی نہ، اس لیے اس وقت تو بس ’اُووو اُووو‘ ایک لطیفہ سا بن گیا، جسے سننے اور دیکھنے والوں نے تو انجوائے کیا ہی ہوگا لیکن سوشل میڈیا صارفین بھی اس پر خوب دلچسپ تبصرے کر رہے ہیں۔

ہاں اگر ایسا ضروری ہو سکتا ہے کہ احتجاج روایتی انداز میں ہوتے بھی رہیں اور ان میں ایک ’اُووو اُووو‘ کا ایک نیا اضافہ ہو جائے۔

جاپان نے تو شاید ایسے احتجاج کے سبب اپنی ترقی کا پہیہ نہیں رکنے دیا ہوگا لیکن یہاں تو پہیہ روکنے ہی کے لیے پہیہ جام ہڑتالیں کی جاتی ہیں، جتنا زیادہ پہیہ جام ہو اتنی ہی ہڑتال کامیاب ہوگی۔

اس بات کے امکانات ضرور موجود ہیں کہ اب جب احتجاج ہو اور پہیہ جام ہو تو ’اُووو اُووو‘ کی صدا بھی بلند ہو جائے۔

ہم تو شاید اس وقت ایسی کیفیت میں نہیں کہ جاپان سے کچھ سیکھیں اور خیر ہو تو جاپان میں ایسی نوبت ہی نہ آئے کہ وہ ہم سے احتجاج کرنا سیکھیں۔

بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close