ممنوعہ علاقہ: کِھیْرتَھر نیشنل پارک

آمنہ یوسف زئی (ترجمہ: امر گل)

”زمین کوئی سرمایہ نہیں جس پر ہمارا مالکانہ حق ہو، بلکہ یہ وہ مقام ہے جس کے لیے ہمیں اس کی عطا کردہ زندگی کے تحفے کے بدلے اخلاقی ذمہ داری نبھانی چاہیے۔ یہاں وہ سوال ہے، جس کا ہمیں آخرکار سامنا کرنا ہوگا: کیا زمین محض اشیاء کا ذریعہ ہے، یا یہ ہمارے سب سے گہرے احساسِ تعلق کا سرچشمہ ہے؟ فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے۔“ ¹
— رابن وال کِمرر

محفوظ علاقے

دنیا بھر میں 6,555 نیشنل پارکس میں سے 31 پاکستان میں واقع ہیں۔² محفوظ علاقے، جن میں نیشنل پارکس بھی شامل ہیں، کئی فوائد فراہم کرتے ہیں، مثلاً:

●موسمیاتی تبدیلیوں کا تدارک
●حیاتیاتی تنوع کا تحفظ
●غذائی تحفظ کی حفاظت
●پانی کے معیار کو برقرار رکھنا
●قدرتی وسائل کا تحفظ
●مقامی علاقوں کے لیے معاشی فائدہ
●تفریح وغیرہ³

بین الاقوامی تنظیم برائے تحفظِ فطرت (IUCN) کے مطابق، ”محفوظ علاقوں کا عالمی نیٹ ورک کم از کم زمینی کاربن کا 15 فی صد ذخیرہ کرتا ہے۔“

 کِھیْرتَھر نیشنل پارک

کھیرتھر نیشنل پارک (KNP) ملک کا دوسرا سب سے بڑا نیشنل پارک اور سندھ صوبے کا واحد نیشنل پارک ہے۔ یہ پاکستان کا پہلا نیشنل پارک تھا جسے 1975 میں اقوامِ متحدہ کی نیشنل پارکس کی فہرست میں شامل کیا گیا اور اسے بین الاقوامی تنظیم برائے تحفظِ فطرت (IUCN) کی کیٹیگری II کے تحت محفوظ علاقہ قرار دیا گیا۔ محفوظ علاقوں کے بے شمار فوائد، جیسے موسمیاتی تبدیلیوں کا تدارک وغیرہ، کے پیش نظر انہیں مقامی کمیونٹیز اور ملکی و بین الاقوامی قوانین کے تحت تحفظ دیا جاتا ہے۔ تاہم، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ نگران ادارے اپنے قانونی فرائض میں غفلت برت رہے ہیں اور قومی خزانے کے اس عظیم حصے کی حفاظت کے بجائے، کھیرتھر نیشنل پارک کے اندر زمین کے قطعات کو کان کنی یا ’ریتی بجری‘ جیسے تجارتی مقاصد کے لیے تقسیم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

ایک مقامی رہائشی اور سندھی زبان و ادب کے پروفیسر نے سندھ ہائی کورٹ میں ایک رٹ پٹیشن دائر کی ہے، جس میں کھیرتھر نیشنل پارک کے اندر تمام تجارتی سرگرمیوں پر پابندی کی استدعا کی گئی ہے۔ انہوں نے محکمہ وائلڈ لائف سندھ، محکمہ آثارِ قدیمہ، ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی، سیہون ڈویلپمنٹ اتھارٹی، اور ڈائریکٹر کِھیْرتھَر نیشنل پارک کو فریق بنایا ہے۔ اس وقت عدالت نے کھیرتھر نیشنل پارک کی حدود میں پلاٹس کی الاٹمنٹ پر عارضی پابندی عائد کر دی ہے۔


یہ بھی پڑھیں:
ماحولیاتی تباہی کے اثرات اور سندھ کا کھیرتھر نیشنل پارک حفیظ بلوچ

میگا ہاؤسنگ پروجیکٹس ماحولیاتی تباہی اور کھیرتھر نیشنل پارک


اسی طرح، کھیرتھر نیشنل پارک کے قریبی علاقے میں ایک بڑی ہاؤسنگ اسکیم کے لیے مختص زمین کے استعمال سے متعلق ایک کیس میں، سپریم کورٹ نے اس اسکیم کی زمین پر قبضے کا سروے کروانے کا حکم دیا۔ عدالت کے حکم پر کیے گئے سروے سے معلوم ہوا کہ ہاؤسنگ اسکیم نے قانونی طور پر مختص زمین سے 3035 ایکڑ زیادہ زمین پر قبضہ کر رکھا ہے۔ مزید برآں، ان 3035 ایکڑ میں سے 2222 ایکڑ ضلع جامشورو میں اور 813 ایکڑ ضلع ملیر میں آتی ہے۔⁴ اس مضمون کے ساتھ منسلک GIS امیجنگ اس تجاوزات کا ثبوت فراہم کرتی ہے۔

Bahria-town-Karachi-khirtar-National-park
یہ نقشہ جی آئی ایس ماہر اور علاقے کے مقامی رہائشی عومر درویش نے تیار کیا ہے۔ یہ زمین پر کیے گئے تفصیلی سروے اور مقامی معلومات کی بنیاد پر بنایا گیا ہے اور سرکاری ریکارڈ سے مختلف ہے۔

معروف مورخ، مرحوم گل حسن کلمتی کے مطابق، زیرِ بحث میگا ہاؤسنگ اسکیم ایک پہاڑی علاقے میں تعمیر کی گئی ہے۔ انہوں نے لکھا کہ اس منصوبے کی تعمیر کے دوران کئی پہاڑوں کو تباہ کر دیا گیا اور جنگلات بھی ختم کر دیے گئے۔ عینی شاہدین کے مطابق، ہاؤسنگ ڈویلپرز کی مشینری کِھیْرتھَر نیشنل پارک کے جنگلاتی علاقوں کو کاٹ کر تعمیرات کے لیے راستہ بنا رہی ہے۔ کلمتی لکھتے ہیں کہ کِھیْرتھَر نیشنل پارک میں موجود نایاب جانور جیسے سندھ آئی بیکس اور اڑیال بھی اس ترقیاتی منصوبے کی وجہ سے معدوم ہو سکتے ہیں۔⁵

 محفوظ علاقوں کے بارے میں بین الاقوامی قانون

محفوظ علاقوں کے وسیع فوائد اور بنیادی افعال کے پیشِ نظر، کئی بین الاقوامی معاہدے دنیا کے قدرتی ورثے کو محفوظ رکھنے، تحفظ فراہم کرنے اور ان کی بقا کو یقینی بنانے کے لیے موجود ہیں۔ ان میں سے ایک ’کنونشن آن بائیولوجیکل ڈائیورسٹی‘ ہے، جو 1992 میں ’ریو ڈی جنیرو‘ میں ہونے والی ’ارتھ سمٹ‘ میں عالمی رہنماؤں نے اپنایا۔ یہ زمین کے وسائل کی بڑھتی ہوئی انسانی ضرورت کے پیشِ نظر پائیدار ترقی کے لیے ایک جامع حکمتِ عملی ہے۔ اس کے دیباچے میں بیان کیا گیا ہے کہ، ”زمین کے حیاتیاتی وسائل انسانیت کی اقتصادی اور سماجی ترقی کے لیے لازمی ہیں،“ جو جنگلات، نباتات، پانی، اور عمومی طور پر ماحولیاتی توازن کی بقا، بشمول جنگلی حیات کے تحفظ پر ہماری انحصار کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے۔

ایک ماحولیاتی لحاظ سے مالامال علاقے جیسے کھیرتھر نیشنل پارک، جو ایک نوٹیفائیڈ محفوظ علاقہ ہے، میں اہم قدرتی وسائل کو نقصان پہنچانے کے لیے مناسب ماحولیاتی تشخیص کی عدم موجودگی، ہماری اقتصادی اور ترقیاتی ضروریات کے منافی ہوگی۔

پاکستان اس کنونشن کا ایک فریق ہے اور اس کے تحت طے شدہ فرائض کی پابندی کا ذمہ دار ہے۔ کنونشن کے مختلف آرٹیکلز پائیدار ترقی کے لیے ضروری اہمیت اور عمل کو اجاگر کرتے ہیں۔

آرٹیکل 8 کے تحت تمام فریق ممالک کو ممکنہ حد تک اور مناسب طور پر درج ذیل اقدامات کرنا ضروری ہیں:

● محفوظ علاقوں یا ان علاقوں کو قائم کرنا جہاں ”حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کے لیے خصوصی اقدامات کی ضرورت ہو“ (آرٹیکل 8 (a))۔

● ”حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کے لیے اہم حیاتیاتی وسائل کو محفوظ یا ان کا انتظام کرنا، چاہے یہ محفوظ علاقوں کے اندر ہوں یا باہر، تاکہ ان کے تحفظ اور پائیدار استعمال کو یقینی بنایا جا سکے“ (آرٹیکل 8 (c))۔

● ”ماحولیاتی نظام، قدرتی مسکن، اور قدرتی ماحول میں انواع کے قابلِ عمل آبادیوں کے تحفظ کو فروغ دینا“ (آرٹیکل 8 (d))۔

● ”محفوظ علاقوں کے قریب کے علاقوں میں ماحولیاتی لحاظ سے درست اور پائیدار ترقی کو فروغ دینا تاکہ ان علاقوں کے تحفظ کو مزید آگے بڑھایا جا سکے“ (آرٹیکل 8 (e))۔

● اہم بات یہ ہے کہ، حیاتیاتی تنوع کے تحفظ اور پائیدار استعمال پر نمایاں منفی اثر ڈالنے والی سرگرمیوں کی نشاندہی اور ان کے اثرات کو نمونے لینے اور دیگر تکنیکوں کے ذریعے مانیٹر کرنا ضروری ہے (آرٹیکل 7 (c))۔

کھیرتھر نیشنل پارک میں تجاوزات، حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کے لیے خصوصی اقدامات، حیاتیاتی وسائل کے نظم و نسق، ماحولیاتی نظام کے تحفظ کو فروغ دینے، اور سب سے اہم، کھیرتھر نیشنل پارک کے قریب علاقوں میں ماحولیاتی لحاظ سے درست اور پائیدار ترقی کو فروغ دینے کے فرائض پر عمل درآمد کے حوالے سے سوالات اٹھاتی ہیں۔ کھیرتھر نیشنل پارک کے بالکل قریب ایک بڑی ہاؤسنگ اسکیم، جو انہی ڈویلپرز کی ملکیت ہے، موجود ہے۔ حکومت اور نگران ادارے اس بات کو یقینی بنانے کے پابند ہیں کہ اس علاقے میں ہونے والی کوئی بھی ترقی پائیدار ہو اور کھیرتھر نیشنل پارک پر کسی بھی قسم کے منفی ماحولیاتی اثرات نہ ڈالے۔

محفوظ علاقوں کے متعلق ملکی قوانین اور قانون سازی

ہمارے ملکی قوانین بھی جنگلی حیات کے تحفظ، بقا، اور پائیدار استعمال کے لیے محفوظ علاقوں کے قیام، انتظام اور دیکھ بھال فراہم کرتے ہیں۔ سندھ وائلڈ لائف پروٹیکشن، پریزرویشن، کنزرویشن اینڈ مینجمنٹ ایکٹ 2020 درج ذیل چیزوں کی ممانعت کرتا ہے:

● جنگلی حیات کا قتل (شق 9 (1) (a))؛

● نباتاتی وسائل کی تباہی (شق 9 (1) (c))؛

● پانی کے کسی بھی ایسے استعمال کے لیے آلودگی، نکاسی یا رخ موڑنا جو جنگلی حیات کے لیے ضروری نہ ہو (شق 9 (1) (b))؛

اور

●”انفراسٹرکچر اور ثقافتی طور پر اہم قدرتی ڈھانچوں کو نقصان پہنچانا، سرحدی نشانات کو خراب کرنا، تجاوزات، کاشتکاری، یا زمین کے استعمال کو تبدیل کرنا“ کسی بھی محفوظ علاقے یا جنگلی حیات کے مسکن کے اندر (شق 9 (1) (d))۔

محفوظ علاقے میں ترقیاتی اور تجارتی سرگرمیاں ناگزیر طور پر زمین کے استعمال کو تبدیل کر دیں گی۔ زمین کو صاف کرنے کے دوران نباتاتی وسائل کا کاٹنا، نقصان پہنچانا، اور تباہ کرنا ایک قانونی جرم ہے۔ دیگر متعلقہ جرائم میں انفراسٹرکچر اور ثقافتی طور پر اہم قدرتی ڈھانچوں کو نقصان پہنچانا اور جنگلی حیات کو قتل یا زخمی کرنا شامل ہیں۔ نیشنل پارک میں تعمیرات کی اجازت دے کر نگران ادارے نہ صرف قانون کے تحت اپنی ذمہ داریوں کی خلاف ورزی کر رہے ہیں بلکہ ہمارے قدرتی ورثے کی تباہی میں بھی حصہ ڈال رہے ہیں۔

یہ غیر یقینی ہے کہ تعمیرات اور زمین کی صفائی کے دوران جنگلی حیات اور نباتاتی وسائل کے تحفظ کے لیے کوئی اقدامات کیے جا رہے ہیں یا نہیں۔ اس سلسلے میں سندھ ہائی کورٹ نے سیکرٹری وائلڈ لائف کو حکم دیا ہے کہ وہ گزشتہ دس سالوں میں شروع کی گئی تمام جنگلی حیات کی سرگرمیوں اور جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے تخلیق کردہ عہدوں کی رپورٹ جمع کرائیں۔

 کھیرتھر نیشنل پارک کی خصوصیات

2001 میں یونیورسٹی آف میلبورن کی جانب سے کھیرتھر نیشنل پارک پر کی جانے والی ایک بنیادی تحقیق کے مطابق، مطالعے کے علاقے میں کل 475 پودوں کی اقسام پائی گئیں۔ اس سروے (جس میں پارک کی کم از کم 67 فی صد نباتاتی اقسام کو ریکارڈ کیا گیا) نے اندازہ لگایا کہ اگر مکمل نباتات شماری کیا جائے تو پارک کی کل نباتاتی اقسام 700 کے قریب ہوں گی۔ حیوانات کے حوالے سے، سروے میں 277 فقاری (ریڑھ کی ہڈی کے حامل یا Vertebrates) جانداروں کی اقسام، جن میں 203 پرندوں کی اقسام شامل ہیں، کو ریکارڈ کیا گیا۔ ان میں سے 6 پرندوں کی اقسام، 8 ممالیہ کی اقسام، اور ایک رینگنے والے جاندار کی قسم بین الاقوامی طور پر معدومی کے خطرے سے دوچار اقسام کی IUCN ریڈ لسٹ میں شامل ہیں۔

یہ سروے، جو 23 سال پہلے کیا گیا تھا، یہ نوٹ کرتا ہے کہ کھیرتھر نیشنل پارک انسانی آبادی کے طویل عرصے سے موجود ہونے کی تاریخ رکھتا ہے اور اس کی بہت سی حیواناتی اقسام انسانی سرگرمیوں کے مطابق ڈھل گئی تھیں۔ تاہم، سروے کے حالیہ سالوں میں، جب انسانی آبادی میں نمایاں اضافہ ہوا، بہت سی فقاری (Vertebrates) جانداروں کی اقسام یا تو کم ہو گئیں یا مکمل طور پر غائب ہو گئیں۔

مضمون لکھتے وقت، سندھ آئی بیکس کی آبادی میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ تاہم، علاقے کے ماحولیاتی نظام میں کسی بھی قسم کا عدم توازن، خاص طور پر انسانی سرگرمیوں، جیسا کہ ہاؤسنگ تعمیرات کی صورت میں، علاقے کی جنگلی حیات پر نمایاں منفی اثر ڈال سکتا ہے۔⁶

سفارشات

قواعد، قوانین، اور ضوابط، بشمول پاکستان کی بین الاقوامی ذمہ داریوں کے نفاذ کے علاوہ، محفوظ علاقوں کے تحفظ اور بقا کے لیے ایک مؤثر طریقہ مقامی کمیونٹیز کے درمیان کمیونٹی پر مبنی انتظام کے لیے صلاحیت پیدا کرنا ہے۔ مقامی برادریوں کے ذریعے تحفظ اور نگرانی نے دنیا بھر میں اور پاکستان میں بھی تحفظ پر مثبت اثرات ڈالے ہیں۔ یہ وہ ماحولیاتی نظام ہیں جنہیں مقامی برادریاں رضاکارانہ طور پر محفوظ رکھتی ہیں۔ چونکہ مقامی برادریوں کا علاقے کی فلاح و بہبود میں حصہ ہوتا ہے (خوراک، پانی، دوا، رہائش وغیرہ کے لیے زمین پر انحصار کی صورت میں) جو اکثر نسل در نسل چلتا رہتا ہے، اس لیے کمیونٹی پر مبنی انتظام ترقیاتی سرگرمیوں کی نگرانی کا ایک مؤثر اور خود پائیدار ذریعہ ہے۔

چترال گول نیشنل پارک میں یہ طریقہ کار سب سے زیادہ مؤثر رہا ہے۔ چترال گول کمیونٹی ڈویلپمنٹ اینڈ کنزرویشن ایسوسی ایشن کے چیئرپرسن کے مطابق، ولیج کنزرویشن کمیٹیوں (VCCs) نے علاقے میں جنگلی حیات، جنگلات، اور پہاڑوں کے تحفظ پر غیر معمولی مثبت اثرات ڈالے ہیں۔ اس مؤثر انتظام کے پیچھے اصل قوت ’ملکیت کا تصور‘ ہے۔

اسی طرز کو کھیرتھر نیشنل پارک اور ملک کے دیگر محفوظ علاقوں میں بھی اپنایا جا سکتا ہے۔

حوالہ جات:
[1] https://lithub.com/robin-wall-kimmerer-greed-does-not-have-to-define-our-relationship-to-land/
[2] https://www.iucn.org/news/pakistan/202007/pakistans-protected-areas-initiative
[3] Protected Areas Have a Lot of Benefits. Here’s How to Maximize Them. – National Geographic Society Newsroom
[4] https://www.dawn.com/news/1823529
[5] Bahria Town under construction in Karachi and the future of Sindh (Episode 4) – Sangat Mag
[6] Report available on request
[7] Personal interview

بشکریہ کورٹنگ دی لا ڈاٹ کام و مصنفہ


یہ خبر بھی پڑھیں:

کیرتھر نیشنل پارک کا وجود خطرے میں

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close