
عام خیال یہ ہے کہ ذات پات کا نظام صرف بھارت میں مضبوط رہا ہے، جہاں ہندو مت کے عقائد کے مطابق الوہی طور پر ہندو سماج کی تقسیم برہمن، کھشتری، ویش اور شودر میں ہے، جن میں برہمن کا کام مذہبی رسومات کی ادائیگی، پوجا پاٹ اور مذہبی کتابوں کا علم حاصل کرنا ہے۔ کھشتری کا کام حفاظت کرنا ہے، ویش کا کھیتی باڑی، کاروبار اور دوسرے کام جب کہ شودر کا کام سیوا یا خدمت کرنا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اس کا درجہ سماجی پرتوں میں سب سے نچلا ہے۔
ذات پات کا یہ نظام پاکستان میں بھی غیر مرئی طور پر رائج ہے، جہاں زیادہ تر محنت کشوں کو سماج کی نچلی پرتوں میں رکھا گیا اور ان کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔
ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں سید، راجپوت، جاٹ اور اعوان سمیت کچھ ذاتوں کا شمار اعلٰی ذاتوں میں کیا جاتا ہے جب کہ ہندومت یا دوسرے مذاہب کو چھوڑ کر اسلام قبول کرنے والے مسلم شیخوں کو سماجی طور پر کمتر درجہ دیا جاتا ہے۔ انہیں تحقیر آمیز انداز میں مسلّی بھی کہا جاتا ہے۔ پنجاب میں ایک طویل عرصے تک صوبے کے کچھ علاقوں میں انہیں گاؤں کے نواح میں آباد ہونے کی اجازت تھی۔
اس کے علاوہ گانے بجانے والے، جنہیں تحقیر آمیز انداز میں میراثی بھی کہا جاتا ہے، لوہار، ترخان، جولاہے، نائی، کمہار، چمڑے کا کام کرنے والے، ماچھی، قصاب اور کچھ دوسرے پیشوں سے وابستہ افراد کو بھی نچلی ذاتوں میں تصور کیا جاتا ہے اور شادی بیاہ کے معاملات میں اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا ہے کہ اس خاندان کی ذات کیا ہے۔ کئی معاملات میں ان ذاتوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو اپنے ہی علاقے میں کسی دوسری ذات کے اندر شادی کرانا انتہائی دشوار معلوم ہوتا ہے چاہے یہ نچلی ذات والے مالی طور پر مستحکم ہی کیوں نہ ہو جائیں یا اعلیٰ تعلیم ہی حاصل کیوں نہ کر لیں۔
خیبر پختونخواہ میں ان نچلی ذاتوں سے تعلق رکھنے والے افراد کسب گر کی فہرست میں آتے ہیں، جن میں ترخان، قصائی، لوہار، چمار، نائی، موچی اور شاخیل (ہجرہ صاف کرنے والے، جو میوزک بھی بجاتے تھے اور ادھر ادھر خبر بھی ماضی میں لے کے جاتے تھے) شامل ہیں۔
برتری اور کمتری کا یہ تصور صوبے کے قبائلی علاقوں میں نسبتا کم ہے کیونکہ وہاں زمین قبائل کی ملکیت ہوتی ہے اور مختلف معاملات میں قبائل کا اشتراک ضروری ہوتا ہے۔
صوبے کے دوسرے علاقوں میں انگریزوں کے دور میں زمین کی تقسیم میں ان ذاتوں کو زمینیں نہیں دی گئی تھیں، اسی وجہ سے ان کا سماجی رتبہ کم سمجھا جانے لگا۔
ان ذاتوں کے علاوہ دیر، شانگلہ، بونیر اور صوبے کے کچھ اور علاقوں میں گوجر قوم کے افراد کو بھی اچھا سماجی رتبہ نہیں دیا جاتا۔ ایک طویل عرصے تک اس قوم سے تعلق رکھنے والے افراد پہاڑی علاقوں میں بھیڑ بکریاں چراتے تھے یا مویشی پالتے تھے۔
سندھ میں ہندو مت سے مسلمان ہونے والوں کو بھی مسلم شیخ کہا جاتا ہے۔ بھیل، کوہلی، میگواڑ، باگڑی اور دوسری نچلی ذاتوں کو مسلمان ہونے کے بعد بھی سماجی طورپر برابر کا نہیں سمجھا جاتا۔ تاہم تقسیمِ ہند سے پہلے یا بعد میں مسلمان ہونے والے اونچی ذات کے ہندو سماجی رتبے میں کم تر نہیں سمجھے جاتے۔
اس کے علاوہ سندھ میں میر بحر، ماچھی اور دوسری محنت کش ذاتوں کو سماجی طور پر کمتر سمجھا جاتا ہے جب کہ سید، مخدوم اور پیرزادہ مذہبی عقائد کی وجہ سے سماجی طور پر اعلیٰ درجہ رکھتے ہیں جب کہ گھوٹکی اور دوسرے علاقوں کے مہر، دادو کے چانڈیو اور نوشہرہ فیروز کے جتوئی مالی اور قبائلی طور پر مستحکم ہونے کی وجہ سے سماجی طور پر اعلیٰ سمجھے جاتے ہیں۔ تاہم سندھ میں قوم پرستی کی تحریکوں نے ان ذات پات کے عقائد کو کسی حد تک ضرب لگائی ہے۔
سندھ میں کچھ ذاتیں مالی طور پر خوشحال ہونے کے بعد اپنے نام کے آگے دوسری ذاتوں کے نام بھی لگانا شروع کر دیتی ہیں۔
بلوچستان میں لُوڑی، درزادے، مراہٹہ، شیدیوں اور میڈ کو کم تر سمجھا جاتا ہے۔ تاریخی طور پر لُوڑی قبیلے کے افراد چھوٹے موٹے کام کرتے تھے جیسا کہ قصیدہ گوئی، کھانے پکانے کا کام، گائیگی وغیرہ وغیرہ۔
درزادوں کو غیر بلوچ سمجھا جاتا تھا اور کچھ کے خیال میں وہ دڑآور نسل سے تھے۔ مراہٹے جنگی قیدی تھے، جنہیں وہ بلوچ قبائل پکڑ کر لائے تھے جنہوں نے احمد شاہ ابدالی کی فوج کے ساتھ مراہٹوں کے ساتھ جنگ کی۔ یہ مراہٹے قیدی زیادہ تر ڈیرہ بگٹی میں رکھے گئے، جنہیں ایک طویل عرصے تک سماجی طور پر کم تر سمجھا جاتا تھا۔
میڈ تاریخی طور پر ساحلی علاقوں میں رہتے تھے اور یہ ماضی میں بحری قزاق بھی رہے ہیں جب کہ شیدی وہ افریقی غلام تھے، جنہیں یا تو پرتگالی لے کر آئے تھے یا انہیں بلوچ قبائلی سرداروں نے خریدا تھا۔ ان کی ایک بڑی تعداد کراچی اور سندھ کے دوسرے علاقوں میں آباد ہے، جہاں انہیں بلوچ سمجھا جاتا ہے۔ جب کچھ تعداد بلوچستان میں بھی ہے۔
خیال کیا جاتا ہے کہ بلوچستان میں قوم پرستی کی تحریک کی وجہ سے یہ ذاتیں بلوچ قوم کا حصہ بن گئیں۔ تاہم روایتی بلوچ سردار آج بھی ان کو کم تر سمجھتے ہیں۔
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں بھی مسلّی یا مسلم شیخ کو کمتر سمجھا جاتا ہے جب کہ دوسری محنت کش ذاتوں کے حوالے سے بھی تعصب برتا جاتا ہے۔ سید، راجے، سردار، سدھن، چوہدری اور کچھ دوسری ذاتوں کو اعلی سمجھا جاتا ہے اور شادی بیاہ کے معاملات میں ان ذاتوں کے حوالے سے حساسیت پائی جاتی ہے۔
گلگت بلتستان میں ڈوم یا ڈھول بجانے والے کو تاریخی طور پر کمتر سمجھا جاتا ہے۔ یہ درانتی اور ہتھوڑا بھی بناتے تھے۔ تاہم تعلیم اور میوزک کے فروغ سے یہ تصور بہت حد تک ٹوٹا ہے۔
سید، راجہ یا میر، اربوب یا ارباب ذات کے لوگ اب بھی اپنے آپ کو برتر سمجھتے ہیں۔ تاہم خیال کیا جاتا ہے کہ اس شمالی علاقے میں فرقہ وارانہ لڑائیوں اور تقسیم کی وجہ سے ذات پات کی سوچ بہت حد تک ٹوٹی ہے اور لوگ اپنے آپ کو شیعہ، سنی، اسماعیلی یا نور بخشی کہلوانا زیادہ پسند کرتے ہیں۔
سماجی علوم کے ماہرین کا خیال ہے کہ بڑے پیمانے پر صنعت کاری ذات پات کے نظام کو ختم کر سکتی کیونکہ فیکٹریوں میں کام کرنے کے لیے تمام مزدوروں کا اشتراک بنیادی عنصر ہے۔ تعلیم کا فروغ اور محنت کی عظمت کا فلسفہ بھی اس نظام کو ختم کرنے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔
بشکریہ ڈی ڈبلیو اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، کالم یا تبصرے میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ/ تبصرہ نگار کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)