بلیو کاربن میں نجی سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے پالیسی سازی ضروری قرار
کلائمیٹ ایکشن سینٹر میں مقررین کے بلیو کاربن کے حکومتی منصوبوں پر بے لاگ تبصرے
سندھ میں چلنے والے بلیو کاربن کے منصوبے کسی باقاعدہ نظام کے ساتھ چلنے چاہئیں کیونکہ کسی سرمایہ کار کمپنی کے ساتھ معاہدہ کرلینا ہی کافی نہیں ہوتا ہے بلکہ اس کے تمام مندرجات اور منصوبوں کی سرگرمیوں کو عام فہم انداز میں عوام تک پہنچانا چاہئے تاکہ موسمیاتی تبدیلی کی روک تھام کے ساتھ ساتھ زرمبادلہ حاصل کرنے والے اس اہم ذریعے کے فوائد سے سب لوگ واقف اور مقامی سرمایہ کار اور منصوبہ کار بھی اس شعبہ میں قدم رکھ سکیں۔
یہ متفقہ خیالات تھے کلائمیٹ ایکشن سینٹر کراچی میں بلیو کاربن پر ہونے والے مذاکرے کے مقررین اور شرکاء کے جو اس اہم موضوع سے جڑی مختلف گتھیاں باہمی رہنمائی اور گفت شنید سے سلجھانے کے لیے اکٹھے ہوئے تھے۔
زیادہ تر مقررین کا ماننا تھا کہ بلیو کاربن کے تمام منصوبوں میں ساحلی کمیونٹیز کو برابر کا فائدہ ملنا چاہئے کیونکہ مقامی آبادیوں کے حقوق کو نظر انداز کرتے ہوئے چلائے جانے والے منصوبے دو رس نتائج کے حامل نہیں ہوتے ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ حکومت سندھ کے محکمہ جنگلات نے بھی اب تک بلیو کاربن کے جتنے بھی منصوبے چلائے ہیں اُن میں نہ تو مقامی آبادیوں کا شامل کیا گیا ہے اور نہ ہی سول سوسائٹی کو منصوبے شروع کرتے وقت اور چلانے کے دوران کسی قسم کی معلومات دی گئی ہیں۔ جس کا مطلب ہے کہ حکومت ایسے منصوبوں سے عوام کو دور رکھنا چاہتی ہے۔
ماہر موسمیاتی تبدیلی علی توقیر شیخ نے اسلام آباد سے مذاکرے میں آن لائن شرکت کرتے ہوئے اپنے خطاب میں کہا کہ کوئی بھی منصوبہ اور خاص طور پرایسا منصوبہ جس میں فطرت کے کسی اہم پہلو کو بطور کاروبار استعمال کیا جارہا ہو اسے کسی پالیسی یا قواعد و ضوابط کے بغیر چلانے سے نہ صرف فطرت متاثر ہوسکتی ہے بلکہ اُس کی شفافیت پر بھی سوالات اُٹھتے ہیں کیونکہ ایسے منصوبوں کے احتساب اور نگرانی کا کوئی طریقہ کار موجود نہیں ہوتا ہے۔
علی توقیر کا یہ بھی کہنا تھا کہ سندھ میں چلائے جانے والے بلیو کاربن کے منصوبوں کو ایسی کاربن مارکیٹ میں فروخت کیا جاتا ہے جو کسی قواعد و ضوابط کے بجائے رضاکارانہ بنیاد پر چلتی ہیں یعنی جس نے بہت زیادہ کاربن کا اخراج کیا ہو وہ ایسے منصوبوں کے ذریعے جذب ہونے والے کاربن کی ادائیگی کرکے اپنے کاربن کے اخراج پر کسی قسم کے ہرجانے یا ٹیکس سے استثناء حاصل کرلیتا ہے جس میں سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ قیمتوں کا تعین خریدار اور فروخت کنندہ کی منشاء کے مطابق طے ہوتا ہے جس میں یہ نہیں دیکھا جاتا ہے کہ سودے کی رقم کا کتنا حصہ منصوبے کے اطراف میں رہنے والی کمیونٹیز کے موسمیاتی تحفظ پر خرچ کیا جائے گا اور نہ ہی اس حوالے سے اُن پر کوئی بندش ہوتی ہے کیونکہ یہ تمام مراحل کسی قواعد و ضوابط کے بغیر طے پاتے ہیں۔
چیف کنزرویٹر محکمہ جنگلات سندھ ریاض وگن نے صوبے میں چلنے والے بلیو کاربن کے منصوبوں کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ تمام منصوبوں سے فضاء میں موجود جتنی کاربن جذب کی جاتی ہے اس کا باقاعدہ حساب لگا کر پھر اسے ایک قانونی معاہدے کے تحت اُن فریقوں یا اُن کے نمائندوں کو بیچا جاتا ہے جنہوں نے اپنے پیداواری امور میں کاربن کا اخراج اپنے کوٹے سے زائد کیا ہوتا ہے اس طرح اُن کے خارج کردہ زائد کاربن کی تلافی وہ مذکورہ منصوبوں کو ادئیگی کے ذریعے کردیتے ہیں۔
ریاض وگن کا یہ بھی کہنا تھا کہ منصوبوں سے اب تک ملنے والی رقومات صوبائی خزانے میں نہیں جمع کرائی گئی ہیں بلکہ اُن سے ایک خصوصی فنڈ قائم کرنے کی تجویز دی گئی ہے جو موسمیاتی و ماحولیاتی بہتری کے لیے استعمال ہوگا۔ فنڈ کی منظوری ہوتے ہی اُس کا استعمال شروع کردیا جائے گا۔
پائیدار ترقی کے ادارے ایس ڈی پی آئی کے محقق ڈاکٹر خالد ولید کا کہنا تھا کہ بلیو کاربن کے منصوبوں سے ہونے والی آمدن سے اگر ساحلی کمیونٹیز کو کوئی فائدہ نہ ہوتو ایسے منصوبے مستقبل میں فائدے کے بجائے نقصان دینے لگتے ہیں کیونکہ ساحلی علاقوں میں رہنے والے موسمیاتی تبدیلی سے جڑی آفات سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں اس لیے انہیں فوائد میں حصہ دار بنائے بغیر ایسے منصوبوں کی کوئی موسمیاتی اہمیت نہیں رہتی ہے۔
ماہر پائیدار معاشیات ماہا قاسم کا کہنا تھا کہ بلیو کاربن کے منصوبے ساری دنیا میں بڑی کامیابی کے ساتھ چلائے جارہے ہیں جس سے نہ صرف موسمیاتی تبدیلی میں تخفیف میں مدد ملتی ہے بلکہ اس سے ملک میں زرمبادلہ بھی آتا ہے۔ تاہم پاکستان میں ایسے منصوبے اپنے ابتدائی مراحل میں ہیں جن کے فروغ کے لیے نجی اور سرکاری شعبے کو شانہ بشانہ کام کرنا پڑے گا۔
فشرفوک فورم کے نمائندے اسلم ملاح کا کہنا تھا کہ ساحلی آبادیوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے جوہر قسم کی موسمیاتی آفات سے سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں جبکہ کسی بھی قسم کے موسمیاتی منصوبوں سے ملنے والے فوائد سے اُنہیں ہمیشہ محروم رکھا جاتا ہے۔ جب تک مقامی آبادیوں کے حقوق کا خیال نہیں رکھا جائے گا موسمیاتی تبدیلی سے جڑے منصوبے کبھی بھی مطلوبہ فوائد نہیں دے سکیں گے۔
مذاکرے کی نظامت وردہ نے کی جبکہ کلائمیٹ ایکشن سینٹر کے ڈائریکٹر یاسر حسین نے مہمانوں کی آمد کا شکریہ ادا کیا۔
واضح رہے کہ ساحلی سبزے بشمول تمر کے درختوں، ساحلی دلدلی زمین اور ساحلی گھاس سے فضاء میں موجود کاربن کو جذب کرلیا جائے تو اُسے بلیو کاربن کہتے ہیں اور جذب کیے ہوئے کاربن کا تخمینہ لگا کر اُسے فی ٹن کے حساب سے عالمی منڈی یعنی کاربن مارکیٹ میں ایسے کاروباری اداروں کو فروخت کیا جاتا ہے جسے وہ ایسی کمپنیوں کو آگے بیچ دیتے ہیں جنہوں نے اپنے مقررہ کوٹے سے زائد کاربن خارج کیا ہو، یوں خریدے جانے والے بلیو کاربن کو کاربن کریڈٹ کہتے ہیں جسے وہ موسمیاتی تبدیلی کے نگرانی کے اداروں میں کاربن کے اضافی اخراج کی تلافی کے طور پر جمع کراکر کسی بھی قسم کے احتساب سے بری الذمہ ہوجاتے ہیں۔
کاربن فضاء سے جذب کرنے کی اتنی اہمیت اس لیے ہے کیونکہ اس کی حد سے زیادہ مقدار ہی کی وجہ سے موسمیاتی تبدیلی بڑھتی جارہی ہے جس کے نتیجے میں ساری دنیا میں موسمیاتی آفات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوچکا ہے جسے دیکھتے ہوئے عالمی اداروں نے کاربن کا اخراج زیادہ کرنے والے ترقی یافتہ ممالک پر بندش لگائی ہے کہ جو جتنی زیادہ کاربن خارج کرے گا وہ اُس کی تلافی بھی کرے گا بصورت دیگر اُن کا کڑا احتساب کیا جائے گا۔
پاکستان میں بلیو کاربن کے منصوبے محکمہ جنگلات سندھ گزشتہ سات آٹھ سال سے چلارہا ہے تاہم اُن کی تفصیلات کبھی منظر عام پر نہیں لائی گئی جبکہ محکمے کے اعلی افسران کا دعویٰ ہے کہ مذکورہ تفصیلات بہ آسانی آن لائن ذرائع سے حاصل کی جاسکتی ہیں۔