کارونجھر ہماری زندگی ہے، اس کی تباہی کسی قیمت پر قبول نہیں، کراچی میں کارونجھر کانفرنس

سنگت ڈیسک

کراچی آئی بی اے انسٹیوٹ کراچی یونیورسٹی میں سندھ انڈیجینئس رائیٹس الائینس، قانونی ماہرین اور آئی بی اے کراچی کے تعاون سے کارونجھر کی تاریخ اور ثقافت کو بچانے کے عنوان سے سیمینار منعقد کیا گیا، اس سیمینار میں نامور قانوندان، سندھ بار کاؤنسل کے ممبر ایڈوکیٹ سجاد چانڈیو، کارونجھر سجاگ فورم کے رہنما اللّٰہ رکھیو کھوسہ، مٹھی بار کاؤنسل کے سابق صدر اور عوامی تحریک کے رہنما ایڈوکیٹ وسند تھری، ایڈوکیٹ حاجیانی لنجو، آرکیالوجسٹ ڈاکٹر کلیم اللّٰہ لاشاری، ماحولیاتی ماہر ناصر پنہور، وائیلڈ لائیف فوٹو گرافر سلمان بلوچ اور سندھ انڈیجینئس لیگل کمیٹی اور سندھ بچاؤ تحریک کے رہنما قانون کے پروفیسر عبیرا اشفاق نے حصہ لیا

سندھ انڈیجینئس رائیٹس الائینس کے ایک اعلامیے کے مطابق سیمینار کے شرکا نے کہا کارونجھر کی تاریخ ہزاروں سال پرانی ہے، اس لیئے یہ نہ صرف سندھ یا پاکستان بلکہ پوری دنیا کے لیئے قیمتی ورثہ ہے، مگر پاکستان کی حکومت چند روپوں کے عوض کارونجھر کی مائیننگ کر کے اسے تباہ کرنے کے درپے ہے

شرکا کا کہنا تھا کہ کارونجھر کے بارے میں حکومت ایک اور شرمناک اور گمراہ کن افواہ پھیلا رہی ہے کہ کارونجھر محض ایک مخصوص پہاڑ ہے، جبکہ یہ حقیقت کے بلکل برعکس اور غلط ہے، کارونجھر دراصل ایک طویل پہاڑی سلسلہ ہے جس میں سیکڑوں پہاڑ ہیں، کارونجھر کے اسی پہاڑی سلسلے کے اطراف میں لاکھوں انسان، لاتعداد جنگلی حیاتیات، درخت، جڑی بوٹیاں، پرندوں کی زندگی کا دارومدار ہے علاوہ ازیں اس سے جڑی وسیع اراضی کی زراعت اسی پر منحصر ہے، مزید یہ کہ کثیر مقامی آبادی کے لیے پانی جیسی زندگی کی بنیادی ضرورت کے حصول کا یہ واحد ذریعہ بھی ہے

انہوں نے مزید کہا کہ اگر حکومت کو پیسے کی ضرورت ہے تو کارونجھر کی مائینگ کے بغیر بھی کارونجھر کے ذریعے بہت زیادہ سرمایہ حاصل کر سکتی ہے، اس کے لیئے حالیہ مون سون کی بارشوں کی مثال کافی ہے کہ پچھلے کافی سالوں کے بعد مون سون کی بارشوں کے بعد کارونجھر میں پیاز، مرچ گوار سمیت کئی اقسام کے فروٹ کی زراعت سے سالانہ اربوں روپوں کی کمائی ہو سکتی ہے، صرف شہد کے کمائی سے سالانہ اربوں روپے کمایا جا سکتا ہے، مگر حکومت نے اپنی آنکھوں پر سیاہ پٹی لگا رکھی ہے، جس کی وجہ سے اسے اتنی بڑی معاشی ترقی نظر نہیں آتی اور نہ ہی وہ دکھانا چاہتی ہے۔ بدقسمتی سے حکومت کا مطمع نظر صرف ملٹی نیشنل کمپنیوں کا مفاد ہے

ماہرین کا کہنا تھا کہ کارونجھر کی ایک سائنسی اور گہری ماحولیاتی اہمیت بھی ہے، کارونجھر کے قدرتی نظام کو تباہ کرنے سے خطرناک ماحولیاتی تباہی آئے گی جو نہ صرف انسانی آبادی مگر اس کے ساتھ کروڑوں کی تعداد میں کارونجھر درختوں، جڑی بوٹیوں، پرندوں اور جنگلی حیاتیات کی زندگیاں ختم ہو جائیں گی

انہوں نے مزید کہا کہ کارونجھر پر سائنسی حوالوں سے ابھی تحقیق مکمل نہیں، حکومت سائنسی تحقیق کے بجائے کارونجھر کو مکمل تباہ کرنے کی تیاریوں مصروف ہے

سیمینار میں شرکا نے کہا کہ اس وقت تک کارونجھر میں آٹے میں نمک کے برابر سائنسی تحقیق کے باوجود ایک نایاب ورثہ دریافت کیا جا چکا ہے۔ جس کے مطابق کارونجھر میں وہ نایاب نسل کے درخت، جڑی بوٹیاں، پرندے اور جنگلی حیاتیات موجود ہیں، جو دنیا کے دوسرے حصوں میں مشکل سے ہی دستیاب ہیں

شرکاہ نے مزید کہا کہ دنیا کے اس گولے میں نمودار ہونے والے سات گرینائیٹ شیلڈز میں اڑاولی پہاڑی قطار کا یہ کارونجھر پہاڑی سلسلہ ہمارے اور آس پاس کے پورے خطے کی زمینی سطح اور ارضیاتی اور ماحولیاتی توازن ترتیب اور تناسب کا خصوصی ضامن سلسلہ ہے ـ کارونجھر میں مائینگ پورے خطے کے لیئے ماحولیاتی کی تباہی کا باعث ہوگی

سیمینار کے پینلسٹ نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ کارونجھر کی مائینگ اور پہاڑوں کو کاٹنے کی ضد چھوڑ کر کارونجھر کی قدرتی خوبصورتی کو بچانے اور اس کی قدرتی خوبصورتی کو دنیا کے سامنے لانے کے سیاسی اقدامات کی کوششوں کو فروغ دے اور کارونجھر میں موجود نایاب درختوں، جڑی بوٹیوں، پرندوں اور جنگلی حیاتیات کو بچانے کے لیئے کوششیں کرے

رہنماؤں نے اس امید کا اظہار کیا کہ پاکستان سپریم کورٹ سندھ حکومت کے جانب سے داخل کیئے گئے اپیل کو بھی رد کر کے سندھ ھائی کورٹ کا کارونجھر کی مائینگ سے روکنے کے تاریخی فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے سندھ کے ساتھ پورے دنیا کے اس خوبصورت تاریخی ثافتی اثاثے کو بچانے کے لیئے اپنی آئینی فرض سرانجام دے گا

سیمینار میں وکلا سیاسی رہنماؤں کارکنوں سمیت کراچی یونیورسٹی کے طلباء بڑی تعداد میں شریک ہوئے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close