کیر تھر نیشنل پارک، جو کہ متنوع جنگلی حیات اور قدرتی خوبصورتی کا ایک محفوظ مقام ہے، کو ہاؤسنگ سوسائٹیوں اور بااثر اداروں کے تجاوزات سے شدید خطرات کا سامنا ہے۔ یہ پارک، جو اپنے ناہموار علاقے، خوبصورت ندی نالوں اور مختلف انواع کی پناہ گاہ کے طور پر جانا جاتا ہے، ایک چوراہے پر ہے، جس کی انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے اس کا وجود خطرے میں ہے۔
سندھ انڈیجینیئس رائٹس الائنس کے راہنماہ حفیظ بلوچ نے کا کہنا ہے کہ کیر تھر نیشنل پارک کے انتظام کے ذمہ دار حکام بنیادی چیلنجوں سے نمٹ رہے ہیں جن میں پارک کی حدود کے بارے میں درست معلومات کی کمی بھی شامل ہے۔ اس ابہام نے تجاوزات کو جنم دیا ہے اور مؤثر تحفظ کی حکمت عملیوں کو نافذ کرنا مشکل بنا دیا ہے۔
حفیظ بلوچ کا مزید کہنا ہے کہ بحریہ ٹاؤن کراچی کی بڑھتی قبضہ گیریت اور کیرتھر نیشنل پارک کے حدود کی پامالی مزید پیچیدگیاں پیدا کر رہی ہے، جیسے کہ آج جمعہ 9 فرور 2024 ایک بار پھر بحریہ ٹاؤن کراچی کی انتظامیہ کیرتھر نیشنل پارک کی حدود کو پامال کر کے زمینوں پر قبضہ کرنے کی کوشش کی جسے مقامی لوگوں کی مزاحمت نے پسپا کر دیا، اب تو معامللات مزید خرابی کے طرف جا رہے ہیں کیونکہ سندھ حکومت نے کے-ڈی-اے کو 14000 ہزار ایکڑ دیے ہیں وہ بھی کھیر تھر نیشنل پارک کے حدود میں دیے ہیں اس سلسلے میں حفیظ بلوچ نے نقشا جات بھی سنگت میگ کے ساتھ شیئر کیے ہیں۔
صورتحال خود بحریا ٹائوں اور حکام کی وجہ سے مزید پیچیدہ ہوتی جارہی ہے، کیوں کہ جنگلی حیات ان انسانی متعین حدود سے غافل ہو کر آزادانہ گھومتے پھرتے ہیں، جو اکثر انسانی سرگرمیوں سے تصادم میں آتے ہیں۔
اختر رسول جو ماحولیات کے کارکن ہیں نے کیر تھر نیشنل پارک کے اندر موجود جنگلی حیات کی آبادی کے بارے میں، خاص طور پر ان کی نقل مکانی کے انداز اور طرز عمل کے بارے میں دستیاب کم معلومات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اعداد و شمار کی یہ کمی ان جانوروں کی حفاظت اور بڑھتے ہوئے خطرات کے درمیان ان کی بقا کو یقینی بنانے کی کوششوں میں رکاوٹ ہے۔ وہ انواع کھیر تھر نیشنل پارک جو ان کا گھر اور محفوظ پناہ گاہ ہے جنہیں اب ایک غیر یقینی مستقبل کا سامنا ہے کیونکہ ان کے رہائش گاہوں پر قبضہ کیا جارہا ہے۔
ماحولیاتی تحفظ کی تنظیمیں خطرے کی گھنٹیاں بجا رہے ہیں، اور کیر تھر نیشنل پارک کو مزید تنزلی سے بچانے کے لیے فوری کارروائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ وہ پارک کی حدود کا درست تعین کرنے کے لیے ایک جامع سروے کی ضرورت پر زور دیتے ہیں اور جنگلی حیات کی نقل و حرکت اور طرز عمل کو ٹریک کرنے کے لیے ایک مضبوط نگرانی کے نظام کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ تحفظ کی موثر حکمت عملی بنانے اور انسانی جنگلی حیات کے تنازعات کو کم کرنے کے لیے بہت اہم ہے۔
کیر تھر نیشنل پارک کی حالت زار پاکستان کو درپیش وسیع تر ماحولیاتی چیلنجوں کی واضح یاد دہانی ہے۔ تیزی سے شہری کاری اور طاقتور حلقوں کے اثر و رسوخ سے نہ صرف پارک بلکہ ملک کے قدرتی ورثے کے لیے بھی خطرہ ہے۔ ماہرین ماحولیات حکومت اور عوام سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ صورت حال کی نزاکت کو تسلیم کریں اور ان انمول قدرتی وسائل کی حفاظت کے لیے اکٹھے ہو جائیں اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔
سوال یہ ہے کہ کیا اس قومی خزانے کو بچانے کے لیے بروقت اجتماعی اقدامات کیے جائیں گے، یا یہ انسانی غفلت اور لالچ کی وجہ سے تاریخ کی یادوں میں گم ہو جائے گا؟ اس کا جواب حکام اور پاکستان کے شہریوں دونوں کے ہاتھ میں ہے، جن کی مشترکہ کوششیں تحفظ اور ماحولیاتی تحفظ کے حق میں موڑ دے سکتی ہیں۔