موسمیاتی تبدیلیوں کے بچوں کی صحت پر نقصان دہ اثرات مرتب ہو رہے ہیں کیونکہ بچوں کی بڑھتی ہوئی تعداد قبل از وقت پیدا ہو رہی ہے، جس کی وجہ سے وہ سانس کی بیماری کا سامنا کر رہی ہے، جس سے معاشرے کے سب سے زیادہ کمزور افراد کو موت کے زیادہ خطرے میں ڈال دیا گیا ہے۔
سائنسدانوں کی ایک آسٹریلوی ٹیم کی جانب سے دنیا بھر سے 163 ہیلتھ اسٹڈیز کا جائزہ لینے والی نئی تحقیق سے اس بات کی انتہائی پریشان کن تصویر سامنے آئی ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں بچپن میں صحت کے اقدامات کس طرح خراب ہو چکے ہیں، جن کے جلد ختم ہونے کے آثار نظر نہیں آتے۔
ایک اندازے کے مطابق 600 ملین (ساٹھ کروڑ) لوگ اس وقت ایسے علاقوں میں رہتے ہیں، جہاں وہ انسانوں کے لیے مثالی سمجھے جانے والے درجہ حرارت سے زیادہ درجہ حرارت کا سامنا کر رہے ہیں، سائنس دانوں نے پیش گوئی کی ہے کہ صدی کے آخر تک یہ تعداد بڑھ کر 3 ارب تک پہنچ جائے گی۔
یہ بری خبر ہے، یہ بتاتے ہوئے کہ نئی تحقیق میں پایا گیا کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے منسلک درجہ حرارت کی زیادتیوں نے قبل از وقت پیدائش کے خطرے کو اوسطاً 60 فیصد تک بڑھا دیا ہے۔
اس تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جنگل کی آگ، خشک سالی اور بے قاعدہ موسموں جیسے موسمیاتی واقعات سے ہَوا میں پیدا ہونے والے ذرات اور الرجین میں اضافہ سانس کی بیماری اور پیدائشی نتائج پر کافی اثر ڈال رہا ہے۔
آسٹریلیا کی فلنڈرز یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے عالمی ماحولیات کے ماہر کوری بریڈشا کو تشویش ہے کہ موسمیاتی تبدیلی دنیا بھر کے لاکھوں بچوں کے لیے زندگی بھر کی پیچیدگیوں کا باعث بن سکتی ہے۔
وہ کہتے ہیں ”ہم نے اعداد و شمار کو مرتب کیا ہے تاکہ یہ ظاہر کیا جا سکے کہ مستقبل کے موسمی واقعات کی کچھ اقسام آبادی میں خاص طبی مسائل کو کس طرح خراب کر دیں گی۔“
انہوں نے مزید کہا ”ہم نے موسمیاتی تبدیلی اور بچوں کی صحت کے درمیان بہت سے براہ راست روابط کی نشاندہی کی، جن میں سے سب سے مضبوط درجہ حرارت کی انتہاؤں کی وجہ سے قبل از وقت پیدائش کے اوسطاً 60 فیصد بڑھ جانے کا خطرہ تھا۔“
بریڈ شا اور ساتھیوں نے جن مطالعات کا جائزہ لیا، ان میں سے 39 میں درجہ حرارت کی تبدیلیوں سے زچگی کے نتائج متاثر ہوئے دکھائے گئے۔ ان مطالعات میں سے 29 میں قبل از وقت پیدائش کی اطلاع دی گئی تھی، جس سے یہ سب سے زیادہ عام نتیجہ ہے، جو درجہ حرارت کی انتہاؤں کی نمائش یا محیطی درجہ حرارت میں اضافے سے وابستہ ہے۔ لیکن دیگر مطالعات میں کم پیدائشی وزن، حمل کی عمر میں تبدیلی، قبل از وقت جھلی کا پھٹ جانا اور یہاں تک کہ حمل میں کمی جیسے اثرات بھی رپورٹ ہوئے۔
جب کہ درجہ حرارت کی انتہا کا بچوں کی صحت پر سب سے زیادہ اثر پڑتا ہے، فضائی آلودگی کے اثرات کی تحقیقات کرنے والے 20 میں سے 16 مطالعات میں معلوم ہوا کہ ان کا کم از کم بچوں کی صحت کے نتائج پر کچھ اثر پڑتا ہی ہے۔
فضائی آلودگی کا سانس کی بیماریوں پر خاصا اثر پڑا۔ مثال کے طور پر، کم از کم سات مختلف مطالعات میں بتایا گیا ہے کہ ہوا سے چلنے والے ذرات کی تعداد میں اضافہ سانس کے مسائل کے ساتھ ہسپتال کے ایمرجنسی ڈیپارٹمنٹس میں لائے جانے والے بچوں کی تعداد میں اضافے کے ساتھ موافق ہے۔ ان میں سے چار مطالعات نے خاص طور پر جنگل کی آگ کے دھوئیں سے ہونے والی آلودگی کی تحقیق کی، جس میں اب ہم پہلے سے کہیں زیادہ سانس لے رہے ہیں۔
مصنفین لکھتے ہیں ”بچوں کی صحت کے مسائل، جن کی ہم نے نشاندہی کی ہے، ان کا انحصار موسم کی شدت/انتہا پر ہے – سردی کی انتہا سانس کی بیماریوں کو جنم دیتی ہے، جب کہ خشک سالی اور شدید بارشوں کے نتیجے میں آبادی میں اضافہ روکا جا سکتا ہے
”یہ دیکھتے ہوئے کہ آب و ہوا بچپن کی بیماری پر اثر انداز ہوتی ہے، سماجی اور مالی اخراجات بڑھتے رہیں گے، جیسے جیسے موسمیاتی تبدیلی بڑھتی جائے گی، خاندانوں اور صحت کی خدمات پر دباؤ بڑھتا جائے گا۔“
جیسا کہ محققین بتاتے ہیں، تحقیق میں کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک کی نمائندگی کم ہے، لہٰذا یہ تاریک تصویر درحقیقت اس بات کا ایک کم تخمینہ ہو سکتی ہے کہ چیزیں واقعی کتنی بری ہو رہی ہیں، کیونکہ زیادہ تر مطالعات کا تجزیہ زیادہ آمدنی والے ممالک میں کیا گیا، جہاں بچے موسمیاتی تبدیلی کے بدترین اثرات سے بہتر طور پر محفوظ ہیں۔
ایسے میں یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ایسے ممالک، جہاں آلودگی زیادہ ہے اور صحت کی بہتر سہولیات بھی میسر نہیں، وہاں صورتحال کتنی بدتر ہوگی
محققین کے مطابق، بچوں کو موسمیاتی تبدیلی سے ان کی صحت کو لاحق خطرات سے بچانے والے اہم عوامل معاشی استحکام اور طاقت، معیاری صحت کی دیکھ بھال تک رسائی، مناسب انفراسٹرکچر اور خوراک کی حفاظت ہیں۔
یونیورسٹی آف ویسٹرن آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والے طبی سائنسدان لیوس ویڈا کا کہنا ہے ”موسمیاتی تبدیلی عالمگیر ہے اور تمام ممالک اور لوگوں کو بری طرح متاثر کرتی ہے، ہمیں بچوں کی صحت کے لیے بڑھتے ہوئے خطرات کے لیے معاشروں کو تیار کرنا چاہیے۔“
انہوں نے کہا ”ان آب و ہوا سے متعلق بیماریوں کا مقابلہ کرنے کے لیے صحت عامہ کی پالیسیوں کی ترقی، بشریاتی ماحولیاتی تبدیلیوں کو کم کرنے کی کوششوں کے ساتھ، اگر ہم موجودہ اور مستقبل کے بچوں کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں تو اس پر توجہ دی جانی چاہیے۔“
یہ تحقیق ’سائنس آف دی ٹوٹل انوائرمنٹ‘ میں شائع ہوئی.
ترجمہ: امر گل