20 مارچ کو دنیا بھر میں چڑیوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ یہ ننھا پرندہ صدیوں سے ہماری سماجی زندگی کا ایک اہم حصہ رہا ہے ۔مگر گزشتہ دو دہائیوں کے دوران دنیا بھر میں چڑیوں کی آبادی میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔
زیادہ عرصہ نہیں بیتا، کوئی دو دہائیاں قبل کی بات ہے کہ صبح کا آغاز پرندوں خصوصاً چھوٹی چڑیا کی چہچہاہٹ سے ہوتا تھا۔ ان چڑیوں کو گھریلو چڑیا یا ’ہوم سپیرو‘ بھی کہا جاتا ہے، لیکن اب بڑے شہروں میں یہ چڑیا خال خال ہی نظر آتی ہے حتیٰ کہ مضافات میں بھی چڑیاں اس تعداد میں نہیں پائی جاتیں، جتنی کہ پہلے تھیں
چڑیاؤں کی آبادی میں تیزی سے آنے والی اس کمی کے پیشِ نظر حال ہی میں رائل سوسائٹی فار دی پروٹیکشن آف برڈز نے گھروں میں بسنے والی اس چڑیا یعنی ’ہوم اسپیرو‘ کو اپنی ریڈ لسٹ میں شامل کیا ہے۔ واضح رہے کہ ریڈ لسٹ میں ان انواع کو شامل کیا جاتا ہے، جن کی آبادی تیزی سے کم ہو رہی ہو اور انہیں بچانے کے لیے بڑے پیمانے پر اقدامات کی ضرورت ہو۔
اس سلسلے میں 20 مارچ کو دنیا بھر میں چڑیوں کا عالمی دن بھی منایا جاتا ہے، تاکہ عالمی سطح پر اس حوالے سے آگاہی پھیلا کر اس ننھے پرندے کو معدومیت کے خطرے سے بچایا جا سکے۔
اگر تاریخی حوالہ جات کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ قدیم رومیوں نے ’ہوم سپیرو‘ کو شمالی افریقہ اور یوریشیا سے یورپ میں متعارف کرایا تھا۔ اس کے بعد انسانی تلاش اور جستجو میں اس پرندے نے شمالی اور جنوبی امریکہ، جنوبی افریقہ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ سمیت دنیا کے بہت سے دوسرے حصوں کی جانب سفر طے کیا
انسانی رہائش گاہوں کے قریب بسنے کی وجہ سے چڑیوں کو سماجی پرندے کے طور پر جانا جاتا ہے، یہ ہمارے ارد گرد ایسی جگہوں پر پائی جاتی ہیں، جہاں سے انہیں دانہ یا کیڑے مکوڑے با آسانی مل سکیں۔
دو دہائی قبل تک گھروں کے صحنوں، بالکونیوں، پودوں کی کیاریوں، درختوں یہاں تک کہ بجلی کے تاروں اور کھمبوں پر چڑیوں کے غول ہوا کرتے تھے۔ درختوں کے بعد چڑیوں کے لئے گھونسلہ بنانے کی پسندیدہ جگہ گھروں کے مچان، اوطاق یا بالکونی ہوا کرتی تھی۔
لیکن پھر ہماری زندگیوں میں ٹیکنالوجی کا انقلاب آنے سے جہاں بہت کچھ بدلا، وہیں یہ ننھا پرندہ بھی ہم سے روٹھتا چلا گیا۔ برٹش ٹرسٹ فار آرنیتھولوجی کے کامن برڈ پروگرام کے تحت کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق برطانیہ میں گذشتہ چار دہائیوں کے دوران چڑیوں کی آبادی میں 58 فیصد کمی ہوئی ہے۔
گزشتہ پچاس سال سے چڑیوں پر تحقیق کرنے والے چڑیوں کے ماہر ڈیوڈ سمر اسمتھ کا کہنا ہے کہ لندن، گلاسگو، ایڈنبرگ اور دیگر شہری مراکز میں وہ علاقے، جو جنگلی حیات کے تنوع کے باعث خاص شہرت رکھتے تھے، وہاں چڑیوں کی آبادی میں 95 فیصد ریکارڈ کمی نوٹ کی گئی ہے۔
پاکستان اور بھارت کے شہری علاقوں میں بھی چڑیوں کی آبادی تیزی سے کم ہو رہی ہے۔ آخر چڑیوں کی آبادی میں اس تیزی سے کمی کی وجوہات کیا ہیں؟
اس بارے میں بات کرتے ہوئے انرجی اینڈ ریسورس انسٹیٹیوٹ انڈیا سے وابستہ پروفیسر آف ایڈوانسڈ اسٹڈیز سدپتو چٹرجی کا کہنا ہے کہ اس کی ایک بڑی وجہ اربنائزیشن اورجنگلات کی بے دریغ کٹائی ہے۔ ہوم اسپیرو سے اس کا قدرتی مسکن چھین لیا گیا اور یہ چڑیاں رہائش اورخوراک کے مسائل سے دوچار ہیں۔
سدپتو چٹرجی کہتے ہیں ”بڑھتی ہوئی زمینی، فضائی اور صوتی آلودگی، یہاں تک کہ موبائل فون ٹاورز سے مائیکرو ویوز کا اخراج بھی چڑیوں کی آبادی پر اثر انداز ہو رہا ہے۔ مقامی پودوں اور درختوں کی کٹائی کے بعد جدید تعمیرات کی تزئین و آرائش کے لیے ایسے پودے لگائے جارہے ہیں، جو ان پرندوں کے طرز زندگی سے مطابقت نہیں رکھتے۔“
انہوں نے مزید کہا ”کنکریٹ کی بنی جدید عمارتوں نے مقامی پرندوں خاص طور پر ہوم اسپیرو کو شدید متاثر کیا ہے۔ یہ چڑیاں ہر روز پانی اور مٹی دونوں سے غسل کرتی ہیں۔ کنکریٹ کی تعمیرات کے باعث انہیں مٹی سے غسل کے لیے مٹی دستیاب نہیں ہے، جس سے ان صحت پر منفی اثرات مرتب ہو ر ہے ہیں۔“
2021 میں امریکہ کی پیسیفک یونیورسٹی کے پروفیسر کرسٹوفر ٹیمپلٹن نے پرندوں پر شور کی آلودگی کے اثرات جاننے کے لیے ایک تحقیق کی تھی۔ اس تحقیق میں چڑیوں کی ایک قسم کو دو طرح کے ماحول میں کھانا تلاش کرنا تھا۔ ایک ٹیسٹ میں درخت کی پتے نما ایک ڈھکن کے نیچے سے انہیں کھانا ڈھونڈنا تھا، جبکہ دوسرے میں انہیں ایک سیلنڈر کے اندر رکھے کھانے کے ٹکڑے کو تلاش کرنا تھا۔
پروفیسر ٹیمپلٹن بتاتے ہیں ”ٹریفک کا شور نہ ہونے پر ان پرندوں نے خوراک کی تلاش میں دگنی فعالیت کا مظاہرہ کیا۔ پرندے ہوں یا جانور وہ اپنے ایک مخصوص ایکو سسٹم کے عادی ہوتے ہیں۔ تیزی سے بدلتے ماحول کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کے لیے پرندے بھی اپنے اندر تبدیلیاں لا رہے ہیں، لیکن یہ ایک سست ارتقائی عمل ہے۔“
پاکستان میں چڑیوں کی آبادی کے متاثر ہونے کے حوالے سے ایف سی سی یونیورسٹی لاہور کے لائف سائنسز ڈپارٹمنٹ میں اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر محمد مصطفٰی کا کہنا ہے کہ لاہور سمیت دیگر شہری علاقوں میں گھریلو چڑیاں تقریباً معدوم ہو چکی ہیں جبکہ کوے، چیل، ابابیل وغیرہ بہتات میں ہیں۔
وہ بتاتے ہیں ”شہری علاقوں میں صدقہ و نذر کا گوشت اور کچرے میں موجود بچا ہوا کھانا جیسے گوشت اور ہڈیاں وغیرہ چیل، کوؤں کی مرغوب خوراک ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بڑے شہروں میں ان پرندوں کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ نوٹ کیا گیا ہے۔ یہ اضافہ غذائی زنجیر میں ان کے نیچے موجود پرندے جیسے چڑیوں کی تعداد پر براہ راست دباؤ ڈال رہا ہے۔ چونکہ چڑیوں کی خوراک دانہ یا کیڑے مکوڑے ہوتے ہیں، جو انہیں شہری علاقوں میں دستیاب نہیں ہیں۔“
ڈاکٹر مصطفٰی کہتے ہیں ”اس پر ایک تھیوری بھی ہے، جسے ’فیلڈ بین تھیوری‘ کہا جاتا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ مٹر ہماری روز مرہ کی خوراک کا ایک لازمی حصہ ہیں۔ ماضی میں اس کی پھلیاں سبزی کی دکانوں سے ملا کرتی تھیں۔ ان پھلیوں میں پایا جانے والا کیڑا یا لاروا چڑیوں کی مرغوب غذا ہے، لیکن اب ٹیکنالوجی کی آمد کے ساتھ پیکٹ یا ڈبوں میں مٹر کے دانے فروخت کیے جا رہے ہیں، جس سے ہوم سپیرو کو کھانے کے لیے لاروا نہیں ملتا۔“
چڑیوں کو عموماً اناج اور کھڑی فصلوں کا دشمن سمجھا جاتا ہے۔ اسی لیے کئی ممالک میں انہیں ’ایویئن ریٹ‘ (ہوائی چوہے) کہا جاتا ہے۔ کھیتوں کو چڑیوں سے بچانے کے لیے بڑے پیمانے پر ان کے شکار اور فصلوں پر مختلف کیمیکلز کے چھڑکاؤ سے ان کی آبادی میں تیزی سے کمی آئی ہے۔
دوسری جانب ایک نئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے اور یارک شائر میں کوئلے کی کانوں والے علاقوں میں ہوم اسپیرو کی آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ یہ پرندہ اب اپنا قدرتی مسکن تبدیل کر کے نئے علاقوں میں بسیرا کر رہا ہے۔
پاکستان میں بھی کچھ علاقوں میں ہوم سپیرو کی آبادی میں اضافہ نوٹ کیا گیا ہے۔ اذان کرم ماہر حیوانات ہیں ان کا تعلق خیبر پختونخواہ کے ضلع سوات سے ہے۔ اذان کی تحقیق کا مرکز سوات میں پرندوں کا تنوع ہے۔ ان کے مطابق کئی شہروں اور مضافاتی علاقوں میں ہوم سپیرو کی تعداد میں نمایاں اضافہ نوٹ کیا گیا ہے۔
اذان سمجھتے ہیں ہوم اسپیرو سمیت دیگر تیزی سے معدوم ہوتے پرندوں کو بچانے کے لیے کوششیں مقامی سطح سے شروع کی جانی چا ہیے۔