نصابی کتب میں زرعی ملک کے طور پر مذکور پاکستان میں اب لے دے کر چند ہی ایسی زرعی اجناس ہیں جو کسی حد تھک اچھی آمدنی کا ذریعہ ہیں، جن میں سے ایک آم کا پھل بھی ہے، لیکن اِس بار آم کے کاشتکار پریشان ہیں اور موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے شدید گرم درجہِ حرارت اور حشرات کے حملوں کو بڑے پیمانے پر آم کی فصل کے خراب ہو جانے کا ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں۔
موسمیاتی تبدیلیاں اپنے اثرات مختلف انداز میں مرتب کر رہی ہیں۔ ہم نے دیکھا کہ غیر معمولی طور پر طویل سردیوں کے بعد عشروں میں اپریل کا مہینہ سب سے زیادہ بارشوں والا مہینہ رہا اور اب ملک کو گرمی کی اس شدید لہر کا سامنا ہے، جس میں درجہ حرارت 52 ڈگری سیلسیس تک پہنچ گیا ہے۔
سندھ کے شہر ٹنڈو الہ یار میں آموں کے ایک کاشتکار محمد یوسف کہتے ہیں ”موسمیاتی تبدیلیوں نے تباہی مچا دی ہے۔‘‘
موسم کی اس خرابی پر آموں کو پہنچنے والے نقصان کے بارے میں، اپنی آدھی زندگی آم اگانے میں گزارنے والے اور اب ساٹھ سال سے زائد عمر کے یوسف نے بتایا، ”کونپلیں وقت پر پھوٹ نہیں سکیں اور بہت سی کلیاں مرجھا گئیں۔ جو اگنا شروع بھی ہوئیں، وہ بلیک ہوپر (کالی ٹڈی) کے حملے سے متاثر ہوئیں۔‘‘
پاکستان دنیا کا چوتھا سب سے بڑا آم پیدا کرنے والا ملک ہے اور اس کی قومی مجموعی پیداوار (جی ڈی پی) میں زراعت کا حصہ تقریباً ایک چوتھائی ہے۔
ٹنڈو غلام علی میں ایک کسان ارسلان نے نو سو ایکڑ زمین پر آم کے باغات اگا رکھے ہیں۔ انہوں نے بھی اس ہفتے پھل اتارنا شروع کرتے ہی فصل کو پہنچنے والے نقصان کو محسوس کیا، ”ہمیں 15 سے 20 فی صد پیداواری نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے اور فصل کی چنائی ابھی ابھی شروع ہوئی ہے، اس لیے نقصان کے ان اعداد شمار میں یقیناً اضافہ ہوگا۔‘‘
کیڑوں کے ضرر رساں حملے کے اثرات بارے وضاحت کرتے ہوئے ارسلان نے بتایا ”آم باہر سے پیلے ہو جاتے ہیں لیکن اندر سے کم یا زیادہ پک جاتے ہیں۔‘‘
ٹنڈو غلام علی ہی میں آم کے ایک اور کاشتکار اور برآمد کنندہ ضیاء الحق کے مطابق ”پھلوں پر کیڑوں کے متعدد حملے اس سے قبل کبھی نہیں دیکھے گئے۔ ایسی صورتحال ہماری تاریخ میں اس سے پہلے کبھی پیدا نہیں ہوئی۔ کیڑوں کے پھیلاؤ کی وجہ سے کیڑے مار ادویات پر خرچ کرنے کی وجہ سے لاگت میں بہت زیادہ اضافہ ہوا۔“
دوسری جانب کیڑوں کے حملوں میں اضافے کی تصدیق صوبہ سندھ اور پنجاب کے متعدد کسانوں نے بھی کی۔ انہوں نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ فصلوں کی کیڑوں سے حفاظت کرنے والے کیمیکلز اب ہر سال چھ سے سات بار استعمال ہوتے ہیں جبکہ تین سال پہلے یہ صرف دو بار استعمال ہوا کرتے تھے۔
سندھ کے کسانوں نے کہا کہ وہ 2022 سے شدید گرمی کی لہروں کے بعد شدید سیلاب آنے کے بعد سے اپنی فصلوں کی بقا کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، جبکہ پنجاب کے کسانوں کا کہنا ہے کہ فصلوں کی پیداوار میں کمی کا سلسلہ کئی سال پہلے کا ہے۔
دوسری جانب پاکستان فیڈریشن آف فروٹ اینڈ ویجیٹیبل ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن (PFVA) کے سربراہ وحید احمد کے مطابق ”پنجاب میں آم کی فصل کو پہنچنے والے نقصانات 35 سے 50 فیصد تک اور سندھ میں 15 سے 20 فیصد تک ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال پاکستان نے 125,000 ٹن آموں کی برآمد کا منصوبہ بنایا تھا، تاہم ان میں سے صرف 100,000 ٹن ہی برآمد کرنے میں کامیابی مل سکی تھی۔
ٹنڈو غلام علی میں ایک 30 سالہ مزدور معشوق علی چاہتے ہیں کہ حکومت کسانوں کی مدد کرے۔ ”زمیندار اس سال کم کمائیں گے اور یہاں تک کہ اگر انہوں نے ہمیں پچھلے سال جتنی ادائیگی کی بھی تو اتنی مہنگائی میں ہم اپنے خاندانوں کا پیٹ نہیں پال سکیں گے۔‘‘
پاکستان میں آموں کی پیداوار ملک میں سب سے زیادہ پیدا ہونے والے پھل مالٹوں کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔ ایک جانب آمدنی کا نقصان پہلے سے بدحال کسانوں پر نمایاں اثر ڈال سکتا ہے، دوسری جانب زرعی معیشت کے دعویدار ملک کی حکومت کی زراعت کے حوالے سے عدم توجہی بھی اپنے عروج پر ہے۔