سندھ: سولہ برسوں میں ماحولیات کے بجٹ کا محض 40 فیصد خرچ ہو سکا!

ویب ڈیسک

ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث جنم لینے والے شدید موسمی حالات نے جہاں دنیا بھر میں اپنے منفی اثرات مرتب کیے ہیں، وہیں سندھ بھی اس سے مبرا نہیں ہے۔ دنیا بھر میں جنگی بنیادوں پر ماحولیاتی تبدیلیوں کی روک تھام کے اقدامات کیے جا رہے ہیں لیکن اس ضمن میں سندھ حکومت کی سنجیدگی کا عالم یہ ہے کہ صوبے میں ماحولیاتی تبدیلی پر کام کرنے والے سات صوبائی محکموں کے لیے 2007 سے 2024 کے دوران 48.8 ارب روپے مختص ہوئے جب کہ اسی عرصے کے دوران صوبے میں صرف 20.2 ارب روپے ہی خرچ کیے گئے۔۔ یہ تو ایک الگ ہی کہانی ہے کہ جو پیسے خرچ ہوئے، وہ کہاں اور کیسے خرچ ہوئے!؟

پاکستان میں ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے چاروں صوبوں، پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور گلگت بلتستان میں سب زیادہ متاثرہ علاقے سندھ میں 2007 سے 2023 کے درمیان سولہ سال تک مسلسل حکمرانی کرنے والی پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت صوبے میں مختص ماحولیات بجٹ کا 40 فیصد ہی خرچ کر پائی۔

یہ انکشاف کراچی کی پالیسی ریسرچ تنظیم ’دی سٹیزنری‘ کی جانب سے چند روز قبل جاری تفصیلی تحقیقی رپورٹ میں کیا گیا ہے۔

یہ تحقیق صوبائی اور میونسپل پبلک فنانس بجٹ پر مہارت رکھنے والی محقق سعدیہ صدیقی اور صحافی، محقق اُنیب اعظم نے مشترکہ طور پر ترتیب دی ہے۔

اپنی تحقیق کے حوالے سے اُنیب اعظم کا کہنا ہے ”رپورٹ ہم نے سندھ حکومت کے بجٹ دستاویز کا جائزہ لے کر تشکیل دی ہے۔ آنے والے چند ہفتوں میں سندھ کا صوبائی بجٹ پیش کیا جائے گا، اس لیے ہم نے یہ رپورٹ جاری کی۔“

اس رپورٹ کے مطابق صوبے میں ماحولیاتی تبدیلی پر کام کرنے والے سات صوبائی محکموں کے لیے 2007 سے 2024 کے درمیاں 48.8 ارب روپے مختص ہوئے اور سندھ حکومت کے یہ محکمے اس رقم میں سے صرف 20.2 ارب روپے یعنی 41 فیصد بجٹ استعمال کر سکے، جب کہ بقایا بقیہ (59 فیصد) حکومت کو واپس چلے گئے۔

رپورٹ کے مطابق سندھ حکومت نے 16 سالوں میں صوبے کے ماحولیات کے بجٹ پر 20.2 ارب روپے خرچ کیا، جو کراچی میں تعمیر ہونے والی ایک شاہراہ کی تعمیر کی لاگت سے کم ہے۔

رپورٹ میں دیے گئے اعداد و شمار کے مطابق صوبائی حکومت نے ماحولیات کے لیے مختص 20.2 ارب روپے کی نسبت ملیر ایکسپریس پر 27.5 ارب روپے خرچ کیے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ 2007 سے 2024 کے دوران ایک ہی جماعت کے دور حکومت کے دوران صوبے میں متعدد بار قدرتی آفات آئیں مگر ماحولیات کے لیے مختص رقم خرچ نہ ہو سکی۔

جن محکموں کو یہ رقم دی گئی تھی ان میں محکمہ ماحولیات، ڈائریکٹوریٹ آف کلائمیٹ چینج، کوسٹل ڈیویلپمنٹ اتھارٹی، محکمہ جنگلات، محکمہ جنگلی حیات، محکمہ متبادل توانائی، محکمہ ازسر نو تعمیر یا ری ہیبلیٹیشن اور پراونشل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی یا پی ڈی ایم اے شامل ہیں۔

رپورٹ میں محکمہ ماحولیات کی کارکردگی کے متعلق بتایا گیا ہے ’ان سولہ سالوں کے دوران اس محکمے کے لیے 3.4 ارب روپے مختص کیے گئے، مگر محکمے کی جانب سے محض تقریباً 33.5 کروڑ روپے خرچ کیے جا سکے۔ جو مختص رقم کا 10 فیصد سے بھی کم ہے، جب کہ محکمہ ماحولیات نے اپنے اسی عرصے میں کئی بار اپنا نام تو تبدیل کیا لیکن ترقیاتی منصوبے جوں کے توں رہے۔‘

صوبے میں مختلف ماحولیاتی واقعات کے متعلق کہا گیا کہ ’اپریل 2018 میں شہید بینظیر آباد ضلع کا درجہ حرارت 50 ڈگری سیلسیس کراس کر گیا تھا، جو ایک نیا ریکارڈ تھا۔‘

’اس سے پہلے اپریل 2017 میں لاڑکانہ میں درجہ حرارت 50 ڈگری سیلسیس ریکارڈ ہوا لیکن ایسے شدید موسمی واقعات کے باجود گزشتہ 16 سالوں میں شہید بینظیر آباد کے لیے کبھی بھی ترقیاتی رقم مختص نہیں کی گئی جبکہ لاڑکانہ کے لیے صرف ایک ترقیاتی منصوبہ پیش ہوا۔‘

صوبے میں ماحولیات کی بہتری کے لیے اہم ادارے سندھ ماحولیاتی تحفظ ایجنسی (سیپا) کا ذکر صرف ایک جاری منصوبے میں ہے، جو گذشتہ پانچ سال سے رکا ہوا ہے۔

رپورٹ کے مطابق ’2012 اور 2013 کے بجٹ میں ’سندھ میں جھیلوں اور دیگر آبی ذخیروں کی بحالی کے لیے فیزیبلٹی سٹڈی اور اصلاحی اقدامات‘ کے لیے رقم مختص کی گئی، جو 2008 سے 2013 تک صرف بجٹ کی کتاب تک ہی محدود رہی۔‘

ایک اور منصوبہ رامسر سائٹس پر مرکوز تھا، جو 2012 سے 2015 تک بجٹ کتابوں میں رہ کر ہی بغیر کسی عملی کام کے ختم ہو گیا۔

2012 اور 2013 کے سالانہ بجٹ میں ’سندھ میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات پر مطالعہ‘ شامل کیا گیا، جو 2014 اور 2015 کے بجٹ سے غائب ہو گیا۔

رپورٹ میں ڈائریکٹوریٹ آف کلائمیٹ چینج کا جائزہ لیتے ہوئے بتایا گیا کہ یہ شعبہ حال ہی میں تشکیل دیا گیا ہے اور دلچسپ بات یہ کہ ماحولیات، موسمیاتی تبدیلی اور ساحلی ترقی کو یکجا کر دیا گیا ہے۔

ڈائریکٹوریٹ آف کلائمیٹ چینج کے لیے 40 لاکھ روپے مختص کیے گئے لیکن تاحال یہ رقم خرچ نہیں ہو سکی ہے۔ فی الحال اس محکمے کی کارکردگی نہ ہونے کے برابر ہے۔

رپورٹ میں محکمہ جنگلات کی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہوئے کہا گیا کہ ’سال 2008 سے 2023 تک محکمے کے لیے 12 ارب 80 لاکھ روپے مختص کیے گئے، جن میں سے محکمے نے نو ارب 90 لاکھ روپے یا 77 فیصد رقم خرچ کی۔‘

گذشتہ سولہ سالوں میں سندھ حکومت نے ساحلی ترقی کے لیے تقریباً دس ارب روپے مختص کیے، جن میں سے تقریباً ساڑھے چار ارب روپے خرچ کیے گئے۔ اس طرح کارکردگی 44 فیصد رہی۔

واضح رہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے ماہرین کے مطابق پاکستان کے چاروں صوبوں کی نسبت سندھ سب سے زیادہ متاثر صوبہ ہے اور سندھ کو چاروں صوبوں کی نسبت شدید موسمیاتی آفات کا سب سے زیادہ خطرہ ہے۔

سندھ میں 2010 کے بعد تقریباً ہر سال شدید سیلاب، 2015 میں کراچی کو متاثر کرنے والی شدید ہیٹ ویو کے بعد کراچی سمیت صوبے کے شمالی شہروں بشمول جیکب آباد، موہن جو دڑو، سکھر، لاڑکانہ اور نواب شاہ میں ہر سال بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے نئے ریکارڈ قائم ہو رہے ہیں۔

ماہرین کے مطابق صوبے کے خشک علاقوں میں خشک سالی یا قحط معمول بنتے جا رہے ہیں اور ماحولیاتی تبدیلی کے باعث موسم یکسر تبدیل ہونے کے باعث صوبے میں پھلوں اور فصلوں کی پیداوار پر منفی اثرات پڑ رہے ہیں۔

اس کے علاوہ ماحولیاتی تبدیلی کے باعث بغیر موسم کے معمول سے کئی سو گنا زیادہ بارش کم وقت میں ہونے کے باعث شدید سیلاب آنا عام ہوتا جا رہا ہے۔

سندھ کے ساحلی علاقوں میں سطح سمندر کے بڑھنے اور ٹراپیکل سائیکلون کے خطرات میں بے پناہ اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔

معروف موسمیاتی ماہر، محکمہ موسمیات پاکستان کے سابق ڈائریکٹر جنرل اور موسمیات کی عالمی تنظیم (ڈبلیو ایم او) میں پاکستان کے نمائندہ ڈاکٹر غلام رسول کے مطابق ’تاریخی طور پر سندھ کا بڑا رقبہ ایرڈ یا خشک سمجھا جاتا ہے۔

’صوبے کے درمیاں سے گزرنے والے دریائے سندھ کے ساتھ والے رقبے کے علاوہ مغرب اور مشرق میں بڑا رقبہ ایرڈ یا خشک ہے، جہاں خشک سالی عام بات تھی۔

’مگر اب بڑا رقبہ ایریڈ یا خشک رکھنے والے صوبے میں ماحولیاتی تبدیلی کے باعث سیلاب عام ہوتے جا رہے ہیں۔‘

ڈاکٹر غلام رسول کے مطابق: ’سندھ کے صحرائے تھر کا گذشتہ ایک صدی کے درجہ حرارت کا ریکارڈ دیکھا جائے تو سال بھر میں اوسط بارش 50 سے 60 ملی میٹر ہوتی تھی مگر اب ماحولیاتی تبدیلی کے باعث وہاں چند روز میں 500 ملی میٹر بارش ہو رہی ہے۔

’اس طرح بلوچستان سرحد کے لگنے والے پہاڑوں سے بارشوں کے دوران پانی کے بڑے ریلے آتے ہیں اور دادو ضلع میں تباہی پھیلا دیتے ہیں۔‘

اس سوال پر کہ ماحولیات کا بجٹ کہاں خرچ ہونا چاہیے؟ ڈاکٹر غلام رسول نے کہا ’سندھ میں کچھ پائلٹ پروجیکٹس چلائے گئے، جس طرح غیر سرکاری تنظیموں کی مدد سے تمر کے جنگلات لگائے گئے۔

’سندھ حکومت پائلٹ پروجیکٹس میں مختص ماحولیات کا بجٹ خرچ کر کے صوبے کو ماحولیاتی تبدیلیوں سے درکار خطرات کو کچھ کم کر سکتی ہے۔‘

ڈاکٹر غلام رسول کے مطابق ’حالیہ سالوں میں آنے والے سیلابوں میں دیکھا گیا کہ بلوچستان کی سرحد کے ساتھ سندھ کے پہاڑوں سے آنے والے سیلابی ریلوں نے بڑی تباہی مچائی۔

’اس لیے سندھ حکومت کو دادو اور آس پاس کے اضلاع میں فوری طور پر ارلی وارننگ سسٹم نصب کرنا چاہیے تاکہ سیلاب آنے سے قبل وارننگ جاری کی جا سکیں۔

’اس کے علاوہ دریائے سندھ میں مشرق کی طرف آنے والے سیلاب کے پانی کو سمندر لے جانے والے لیفٹ بینک آؤٹ فال ڈرین یا ایل بی او ڈی جگہ جگہ سے ٹوٹ چکا اس کی مرمت لازمی ہے۔

’تاکہ سیلاب کے پانی کو تیزی سے سمندر لے جایا سکے اور انسانی آبادیوں اور کھڑی فصلوں کو سیلاب کے پانی سے بچایا جا سکے۔‘

جب وزیراعلی سندھ کے ترجمان عبدالرشید چنا سے پوچھا گیا کہ سندھ ماحولیات کا بجٹ کیوں خرچ نہ کر پایا؟ تو انہوں نے تسلیم کیا کہ سندھ حکومت ماحولیات بجٹ مکمل طور پر خرچ کرنے میں ناکام رہی۔

عبدالرشید چنا کے مطابق، ’2010 میں اٹھارویں ترمیم آنے سے قبل تک یہ تمام صوبائی محکمے جن کے ماحولیات بجٹ کا ذکر کیا جا رہا ہے موجود ہی نہیں تھے۔

’صرف ایک محکمہ ماحولیات ہی کام کر رہا تھا۔ اٹھارویں ترمیم آنے کے چند سالوں بعد یہ شعبے بنے۔ جن کو کارکردگی دکھانے میں چند اور سال لگ گئے۔

’اس کے علاوہ نواز شریف کے دور حکومت اور عمران خان کی حکومت کے دوران قومی احتساب بیورو یا نیب کی جانب سندھ میں بیروکریسی کے خلاف بڑے پیمانے پر کارروائیوں کے باعث ان محکموں کے افسران بجٹ خرچ کرنے سے کتراتے تھے۔ یہ ایک اور وجہ ہے کہ ان 16 سالوں میں ان محکموں نے کم بجٹ خرچ کی۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’2022 کے شدید سیلاب کے باعث بعد عام لوگوں کے ساتھ محکموں کو بھی ادراک ہوا ہے اب ماحولیاتی تبدیلی کے باعث شدید آفات آئیں گی۔ اس لیے امید ہے کہ آنے والے سالوں میں یہ محکمے اپنے بجٹ کا بڑا حصہ مختلف اسکیموں پر خرچ کریں گے۔‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close