ماحول دوست نایاب جنگلی پودا ’گگرال‘ معدومیت کے خطرے سے دوچار۔۔

ویب ڈیسک

کراچی گیٹ وے ٹرمینل پر محکمہ تحفظ جنگلی حیات سندھ اور اینٹی نارکوٹکس فورس کی کارروائی میں متحدہ عرب امارات کے لیے بک کیے گئے کنٹینر سے تحفظ یافتہ اور نایاب جنگلی پودے ’گگرال‘ کی گگلو گوند، جس کو ’مکل‘ بھی کہا جاتا ہے، کی 355 بوریوں میں بھرے 17935 کلوگرام برآمد ہوئے ہیں

محکمہ سندھ وائیلڈ لائیف نے قانونی کاروائی کرتے ہوئے گگلو گوند کی بوریاں قوانین تحفظ جنگلی حیات صوبہ سندھ کے تحت ضبط کرکے متعلقہ افراد کے خلاف مقدمہ نمبر 4/2024 درج کر لیا، جو کہ ٹرائل کے لیے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنس جج کراچی سائوتھ کی عدالت میں پیش کیا جائے گا۔

واضح رہے کہ ’گگر‘ نامی پودا سندھ میں کھیرتھر نیشنل پارک، کارونجھر، رن آف کچھ وائلیڈ لائیف سینکچوری، گورکھ ھلز اور ملحقہ کھیرتھر رینجز، بلوچستان اور صوبہ پنجاب کے ڈی جی خان و ملحقہ علاقوں میں قدرتی طور پایا جاتا ہے اور جنگلی حیات کے مسکن کا اہم رکن ہے۔

یہ پودہ انتہائی خشک و نامساعد موسمی حالات میں اپنی نشونما قدرتی طور پر کرتا ہے، ڈزرٹیفکیشن کے عمل کو روکتا ہے، تیز ہواؤں میں مٹی کے اوپری زرخیز سطح کی حفاظت کا سبب بنتی ہے کیونکہ اس کا شمار بہترین سوائل بائنڈر پودوں کی لسٹ میں کیا جاتا ہے۔

خشک سالی کے موسم میں اس کے پتے جنگلی جانوروں کے لیے خوراک اور اس کی قدرتی طور پر نکلنے والی گوند جنگلی جانور چاٹتے ہیں، جس سے ان کو جسمانی طاقت، بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت بڑھتی ہے۔

انسانی حرص و لالچ کی وجہ سے اس کی گوند کے حصول کے لیے کیمیکل کا استعمال اس پودے کی بقا پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

اس پودے کی ٹہنیوں سے قدرتی طور پر نکلنے والی گوند کی طبی خصوصیات، قدرتی قوتِ مدافعت و جمالیاتی دواسازی اور دیگر استعمال کی وجہ سے مارکیٹ میں اس کی بہت زیادہ طلب ہے۔

گوند کی قدرتی طور پر نکلنے والی کم مقدار کو بڑھانے کے لیے پودے کے تنے اور ٹہنیوں کو تیز دھار بلیڈ سے چھید لگا کر زخمی کرنے کے بعد کیمیکل انجیکٹ کیا جاتا ہے۔ اس عمل سے گوند کی نکلنے والی مقدار میں اضافہ تو ہوتا ہے لیکن پودے کی موت کے سفر کا آغاز بھی ہو جاتا ہے۔

جرمن یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق اس پودے سے نکالی جانے والی گوند کا تیزی سے بڑھتا غیر قانونی کاروبار اس نایاب پودے کی معدومیت کا سبب بن رہا ہے۔

آئی یو سی این ریڈ لسٹ کے مطابق اس پودے کا وجود شدید خطرات کے گھیراؤ میں ہے، جس کی وجہ اس پودے سے غیر قانونی اور غیر سائنسی طریقے سے نکالی ہوئی گوند کا بڑھتا ہوا کاروبار ہے۔

مزید یہ کہ صوبائی قوانین کے مطابق اس پودے کو تحفظ یافتہ قرار دیا گیا ہے اور تجارتی مقاصد کے لیے ظالمانہ و غیر سائنسی طریقوں سے گوند نکالنے پر پابندی لگادی گئی ہے۔

وفاقی قوانین کے مطابق تمام جنگلی حیات و نباتات چاہے وہ سائیٹیز لسٹیڈ ہوں یا نہ ہوں اور ان سے نکلنے والی پروڈکٹس بیرون ملک ایکسپورٹ کرنے کے لیے سائیٹیز مینیجمینٹ اتھارٹی منسٹری آف کلائیمٹ چینج، گورنمنٹ آف پاکستان سے ’پاکستان ٹریڈ کنٹرول ایکٹ آف وائیلڈ فانا اینڈ فلورا‘ کے تحت خصوصی اجازت نامہ مطلوب ہوتا ہے جو کہ مختلف سائنسی رپورٹس اور ماہرانہ تجزیوں سے مشروط ہوتا ہے۔ حکومت پاکستان کے عالمی برداری کے ساتھ منظور شدہ سائٹیز کنونشن میں تمام رکن ریاستوں نے جنگلی حیات و نباتات کے گلوبل ٹریڈ کو قوانین کے مطابق اور دیرپا ترقی کے اصولوں سے مشروط کیا ہے۔

لیکن اس کے باوجود کھیرتھر نیشنل پارک میں اس ماحول دوست درخت کی بے دریغ کٹائی جاری ہے، ایک طرف اس کے گوند کے حصول کے لیے تو دوسری طرف ڈی ایچ اور بحریہ ٹاؤن جیسے منصوبوں کی وجہ سے۔

گگرال یا گگل خودرو جنگلی جھاڑی ہے جو عام طور پر چار/پانچ فٹ اونچی ہوتی ہے اور اگر اس کے ساتھ زیادہ عرصہ چھیڑ چھاڑ نہ کی جائے تو درخت بن جاتا ہے۔ گگرال سے قدرتی طور پر ایک خاص قسم کا گوند نکلتا ہے جس کو ’گگر‘ کہتے ہیں جو مارکیٹ میں ہزاروں روپے کلو بکتا ہے اور زیادہ تر ایکسپورٹ ہوتا ہے۔

سندھ میں کھیرتھر نیشنل پارک اور کارونجھر میں ہزاروں مربع کلو میٹر رقبے میں روہیڑو، ببول، کونبھٹ، پھوگ، کنڈی، گگرال سمیت درجنوں اقسام کے درخت اور سیکڑوں جڑی بوٹیاں پائی جاتی ہیں، لیکن گگرال تیزی سے کم ہو رہا ہے۔

باٹنی کے پروفیسر عبد الجلیل جونیجو بتاتے ہیں کہ اس پودے کا بوٹینیکل نام ‘کومیفورا مکل’ ہے اور اس کو مقامی زبان میں گگرال یا گگر پکارا جاتا ہے۔ یہ چھوٹا سا درخت صحرائی اور پتھریلی علاقوں میں ہوتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں صحرائے تھر ، کارونجھر کے پہاڑ اور رن کچھ گگل کے پسندیدہ علاقے ہیں۔تاہم یہ پودا کھیرتھر رینج، بلوچستان اور پنجاب کے کچھ علاقوں میں بھی پایا جاتا ہے۔ حالات موافق ہوں تو اس پودے کی اوسط عمر آٹھ سے دس سال ہوتی ہے۔

سائنس ڈائریکٹ جرنل کے مطابق حکماء ہزاروں سالوں سے گگل کو ہائپرکولیسٹرولیمیا (خون میں معمول سے زیادہ کولسٹرول)، ایتھروسکلروسیس(شریانوں کا سخت ہونا)، گٹھیا اور موٹاپے سمیت کئی بیماریوں کے علاج کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اسے جلدی امراض، کینسر اور پیشاب کی خرابیوں کے علاج میں بھی استعمال ہوتا ہے۔

تھر پارکر کے پریمو کولہی کئی سال تک گگر نکالنے کا کام کرتے رہے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ پندرہ بیس سال پہلے یہاں کچھ لوگوں نے بیوپاریوں سے مل کر گگرال کو ‘ٹیکہ’ لگانا شروع کر دیا تھا۔ وہ ٹیکہ (آکسی ٹوسن) جو شہروں میں بھینس کا دودھ فوری نکالنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

”ایک دن درخت کو ٹیکہ لگاتے تھے اور دوسرے ہی دن اس کی ساری گگر بابر نکل آتی تھی۔ وہ جمع کر کے ہم بازار میں بیچ دیتے تھے۔ قدرتی طریقے سے گوند تھوڑی تھوڑی نکلتی ہے اور کئی کئی روز کے وقفے کے بعد اکٹھی کرنی ہوتی ہے۔“

وہ بتاتے ہیں کہ بعد میں گگر نکالنے کے لیے مزید کیمیکل بھی استعمال کیے جانے لگے۔ اب تو ہینگ اور کونبھٹ (ایک اور مقامی درخت) کے گوند کو گرم کرکے آکسی ٹوسن میں مکس کیا جاتا ہے پھر یہ محلول درخت میں سوراخ کر کے اس کے اندر لگا دیا جاتا ہے۔

پریمو کولہی کا کہنا تھا کہ کچھ لوگ آکسی ٹوسن کے ساتھ کیلشیم کاربائیڈ (عرف عام میں آم پکانے والا مسالہ) اور ٹیرا مائی سن انجیکشن کا بھی استعمال کرتے ہیں۔ اس سے گگر تو دو دن میں نکل آتا ہے لیکن درخت چھ سے آٹھ ماہ میں سوکھ جاتا ہے۔

یوں چند لوگوں کی لالچ گگرال کو لے ڈوبی ہے۔

گگرال کے علاقوں کا کبھی کوئی سروے نہیں کیا گیا اور نہ ہی تھر اور کھیرتھر میں الگ سے اس کی اراضی کا محکمہ ریونیو اور زراعت کے پاس رکارڈ ہے۔ تاہم محکمہ جنگلات کے حکام بتاتے ہیں کہ تقریباً ایک لاکھ ایکڑ سے زائد پر گگرال ہوتا تھا جو اب 40 سے 45 ہزار ایکڑ رہ گیا ہے۔

مقامی زمیندار بھورا لال جنگلات اور وائلڈ لائف کے ایکسپرٹ ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ گگرال رن کچھ کے قریبی علاقوں میں اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہے۔ شاید اس کی وجہ زیر زمین نمی ہے یا وہاں ٹیکہ لگنا شروع نہیں ہوا۔ تھر کے دوسرے علاقوں میں یہ درخت خاتمے کے قریب ہے۔

ننگرپارکر میں کارونجھر پہاڑ کے گردونواح، اسلام کوٹ کی چار جنوبی یونین کونسلوں اور ڈیپلو کے علاقے وٹ میں بھی درخت بچے ہوئے ہیں۔

اس صورت حال پر چند سال پہلے جب سماجی کارکنوں اور مقامی تنظیوں نے شور مچایا تو پولیس بھی حرکت میں آئی۔

تھر میں پہلی کارروائی نومبر 2019ء میں کی گئی۔ پولیس نے کلوئی تا نوکوٹ روڈ پر چھاپہ مارا اور 13 بورےگگر لے جانے والے ہریش کولہی اور ڈیوو کولہی کو گرفتار کر لیا تھا۔ دونوں کے خلاف 379 / 427 پی پی سی کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا جو بعد ازاں عدالت سے رہا ہو گئے۔

دوسری کارروائی میں ڈیپلو پویس نے ملزم ہریش کمار کو گرفتار کیا لیکن ایک سال بعد 29 نومبر 2022ء کو وہ دوبارہ 16 بوری گگر (گوند) کے ساتھ پکڑے گئے تھے۔

ایک اور کارروائی 17 دسمبر 2022ء کو کی گئی جس میں پولیس نے ڈیپلو کے قریب شمن اور جیٹھو کو دس بوری گگر سمیت گرفتار کیا اور ان پر بھی مقدمہ درج کیا گیا۔

تحصیل اسلام کوٹ میں سات مارچ 2023ء کو محکمہ وائلڈ لائف نے بھی ایکشن لیا جہاں گگر کراچی لے جانے والے افراد کو پکڑا گیا ۔

اسی طرح ڈیپلو پولیس نے گاؤں مٹھڑیو سومرا کے نزدیک چھاپہ مار کر گگر کے اہم ڈیلر محمد خان انڑ کو گرفتار کیا، جبکہ ان کے ساتھ گاڑی کے مالک اور وڈیرے عثمان لنجو کے بیٹے قربان علی بھی گرفتار کر لیے گئے۔

گوند کے ایک تاجر نے نام نہ لینے کی شرط پر بتایا کہ تھر میں پہلے سات سے آٹھ سو من گگر کا کاروبار ہوتا تھا مگر اب دو سے ڈھائی سو من مال کا لین دین ہوتا ہے۔ ”گگر کی بہت مانگ ہے اس لیے سختی کے باوجود لوگ خفیہ طریقوں سے مال کراچی پہنچاتے ہیں۔“

میر محمد جونیجو ڈیپلو کے رہائشی ہیں اور غیر سرکاری تنظیم ‘بانہہ بیلی’ کے ساتھ گگرال پر کام کر چکے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ تھرپارکر میں گگرال کمیاب ہو چکا ہے۔ یہ بہت قیمتی درخت ہے اور کسی کیمیکل کے بغیر فی پودا سالانہ ایک کلو تک گگر (گوند) دیتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ اگر گھر کے قریب دو ایکڑ کھیت میں گگرال کے سو پودے بھی لگا لیے جائیں اور اوسط پیداوار نصف کلو فی پودا ملے تب بھی 50 کلو گگر کی آمدنی سوا لاکھ کے قریب ہوگی۔ اس کا بیج بھی مہنگا ہوتا ہے وہ آمدن الگ۔ اور جس کھیت میں گگرال ہو وہاں نقصان دہ کیڑے نہیں آتے۔

عالمی ادارے انٹرنیشنل یونیں آف کنزرویشن(آئی این یو سی) نے گگرال کے درخت کو 2010ء میں نایاب درختوں میں شمار کیا تھا، لیکن بعد ازاں اسے ریڈ لسٹ میں بھی شامل کر لیا ہے یعنی اب اس کے معدوم ہونے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔

تھر میں کچھ زمینداروں نے گگرال کو قلم کے ذریعےکاشت کرنے کی کوشش کی تھی لیکن یہ تجربہ کامیاب نہیں ہوا۔ تاہم میر محمد کا کہنا ہے کہ بارش کے دوران بیج بو کر اگایا جا سکتا ہے کیونکہ بارش میں یہ فوراً جڑ پکڑ لیتا ہے۔ پھر اسے پورا سال پانی کی ضرورت نہیں رہتی۔

بھورا لال کے مطابق گگرال فقیر درخت ہے اور یہ سناتن دھرم میں ‘پویتر’ (پاک) مانا جاتا ہے۔ جب مندروں میں ‘ھون’ ہوتا ہے تو گگر کا دھواں شامل کیا جاتا ہے۔ ہندو مسلم سب گگر کو گھر میں رکھتے ہیں اور مویشیوں کو دھواں دیتے ہیں، جس سے انہیں بیماری نہیں ہوتی۔

کاشتکار ڈیوجی مل کہتے ہیں کہ خشک سالی اور قحط کے برسوں میں گگرال نے غریبوں کی بہت مدد کی۔ یہاں لوگ گگر بیچ کر روٹی کما لیتے تھے، لیکن مشکل میں کام آنے والا یہ درخت اب ختم ہو رہا ہے۔ ”یہ درخت ہماری روزی اور ہمارے ماحول کا محافظ ہے۔ یہ تھر کے ریگستان کا حسن اور کارونجھر پہاڑ کی خوبصورتی کا بھی سبب ہیں۔“

لیکن بدقسمتی سے اب یہ قیمتی اور ماحول دوست درخت، مافیا اور بلڈرز کی زد میں ہے، جس کی وجہ سے کارونجھر اور کھیرتھر میں اس کی معدومیت کا سفر مزید تیز ہو گیا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close