سمندری حیات، آکسیجن کا نظام اور سائنسی مغالطے کی حیرت انگیز داستان!

ترجمہ، ترتیب و اضافہ: امر گل۔

اسکاٹش ایسوسی ایشن برائے میرین سائنس کے سرکردہ محقق پروفیسر اینڈریو سویٹ مین نے سنہ 2013 میں پہلی مرتبہ سمندر کی تہہ میں مکمل اندھیرے میں آکسیجن کی ایک بڑی مقدار پیدا ہوتے دیکھی تھی، لیکن انہوں نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی

پروفیسر اینڈریو کے اپنے الفاظ میں، ”میں نے اس چیز کو بالکل نظر انداز کر دیا، کیونکہ مجھے سکھایا گیا تھا کہ آکسیجن فوٹوسنتھیسز کے ذریعے ہی پیدا ہو سکتی ہے۔“

مطالعہ کے سرکردہ مصنف اینڈریو سویٹ مین نے 2013 میں بحر الکاہل کی تہہ سے آنے والی غیر معمولی آکسیجن ریڈنگ کو ریکارڈ کیا تو اس نے سوچا کہ اس کے تحقیقی آلات میں خرابی پیدا ہو گئی ہے۔

”میں نے بنیادی طور پر اپنے طالب علموں سے کہا، بس سینسر کو باکس میں واپس رکھ دیں۔ ہم انہیں واپس مینوفیکچرر کے پاس بھیجیں گے اور ان کا ٹیسٹ کروائیں گے کیونکہ وہ ہمیں صرف غلط نتائج دے رہے ہیں۔“

اسکاٹش ایسوسی ایشن فار میرین سائنس میں سی فلور ایکولوجی اور بائیو جیو کیمسٹری ریسرچ گروپ کے سربراہ سویٹ مین نے بتایا، ”اور جب ہر بار ان آلات کا کارخانہ دار اس بات کے ساتھ واپس آیا کہ یہ بلکل ٹھیک کام کر رہے ہیں اور کیلیبریٹڈ ہیں۔“

2021 اور 2022 میں، سویٹ مین اور ان کی ٹیم Clarion-Clipperton Zone میں واپس آگئی، جو وسطی بحرالکاہل کے تحت ایک ایسا علاقہ ہے جو بڑی مقدار میں پولی میٹالک نوڈولس رکھنے کے لیے جانا جاتا ہے۔ اس یقین کے ساتھ کہ ان کے سینسر کام کر رہے ہیں، انہوں نے ایک ڈیوائس کو سطح سے 13,000 فٹ نیچے کیا، جس نے چھوٹے خانوں کو تلچھٹ میں رکھا۔ باکس 47 گھنٹے تک اپنی جگہ پر رہے، تجربات کرتے ہوئے اور وہاں رہنے والے مائکروجنزموں کے ذریعے استعمال ہونے والی آکسیجن کی سطح کی پیمائش کی۔

آکسیجن کی سطح نیچے جانے کے بجائے، اوپر چلی گئی – یہ تجویز کرتے ہیں کہ استعمال سے زیادہ آکسیجن پیدا ہو رہی ہے۔

یوں بالآخر سویٹ مین کو احساس ہوا کہ وہ کئی برسوں سے ایک بہت بڑی ممکنہ دریافت کو نظر انداز کر رہے تھے۔۔

یہ ایک ایسی دریافت تھی، جس نے سمندری حیات کے آکسیجن کے حصول کے بارے میں سائنس کے محدود نظریے سے پردہ اٹھایا اور سمندر کی تاریک تہہ میں موجود دھاتوں سے بننے والی آکسیجن کی اس کھوج نے سائنسدانوں کو حیرت میں ڈال دیا

اس تحقیق کے بارے میں ایک نیوز ریلیز میں کہا گیا ہے کہ اس کے نتائج ”طویل عرصے سے جاری مفروضوں کو چیلنج کرتے ہیں کہ صرف فوٹو سنتھیٹک جاندار، جیسے کہ پودے اور طحالب، زمین کی آکسیجن پیدا کرتے ہیں۔“

مطالعہ کے شریک مصنفین میں سے ایک ٹوبیاس ہان کہتے ہیں ”یہ مفروضہ ہماری سمجھ میں ایک پرت کا اضافہ کرے گا کہ سمندر کے نیچے حیاتیات کیسے وجود میں آئی، ہم نے سوچا کہ زمین پر زندگی اس وقت شروع ہوئی جب فوٹو سنتھیسز کا آغاز ہوا، جیسا کہ آکسیجن فوٹو سنتھیس کے ذریعے زمین پر لائی گئی۔ یہ حقیقت میں ہو سکتا ہے کہ الیکٹرو کیمیکل طور پر پانی کو آکسیجن اور ہائیڈروجن میں تقسیم کرنے کا یہ عمل سمندر کو آکسیجن فراہم کرتا ہے۔“

محققین، جن کی تحقیق پیر کو نیچر جیو سائنس جریدے میں شائع ہوئی، نے پایا کہ ایک نئے دریافت شدہ عمل کے ذریعے، مینگنیج اور آئرن جیسے معدنیات سے بنے ماس، جو اکثر بیٹریاں بنانے کے لیے استعمال ہوتے ہیں، مکمل اندھیرے میں بھی آکسیجن پیدا کر سکتے ہیں۔

دنیا کی تقریباً آدھی آکسیجن سمندر سے آتی ہے۔ اس دریافت سے قبل خیال کیا جاتا تھا کہ یہ آکسیجن سمندر میں موجود پودے فوٹو سنتھیسز کے ذریعے بناتے ہیں۔

واضح رہے کہ فوٹو سنتھیسز وہ عمل ہے، جس میں پودے سورج کی روشنی، پانی اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کو استعمال کرتے ہوئے آکسیجن پیدا کرتے ہیں۔

اس عمل کے لیے سورج کی روشنی کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن سمندر کے اندر پانچ کلومیٹر کی گہرائی میں جہاں سورج کی روشنی داخل نہیں ہو سکتی، وہاں قدرتی طور پر موجود دھات کے ٹکڑے آکسیجن پیدا کر رہے ہیں!

یہ ایک حیرت انگیز کھوج تھی، جس نے اس بارے میں سائنسی مغالطے کو آشکار کر دیا۔

بو بارکر جورگنسن، سمندری حیاتیاتی کیمیا کے ماہر جو تحقیق میں شامل نہیں تھے لیکن اس تحقیق کا ہم مرتبہ جائزہ لیا، نے ایک انٹرویو میں کہا کہ ”یہ ایک انتہائی غیر معمولی دریافت ہے۔“

مختلف ماہرین اسے ایک ممکنہ ’گیم چینجر‘ قرار دے رہے ہیں، جو ان کے بقول زمین پر زندگی کی ابتدا کے بارے میں ہماری سمجھ کو بدل سکتی ہے۔

سمندر کی تہہ میں موجود دھاتوں کے یہ ٹکڑے سمندری پانی سے مل کر ایک قدرتی کیمیائی ردِعمل پیدا کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں سمندر کا پانی ہائیڈروجن اور آکسیجن میں تقسیم ہو جاتا ہے۔

پروفیسر اینڈریو اس بارے میں وضاحت پیش کرتے ہوئے بتاتے ہیں ”اگر آپ بیٹری کو سمندری پانی میں ڈالتے ہیں، تو یہ پھڑکنے لگتی ہے، یہ اس لیے ہوتا ہے کیونکہ برقی رو دراصل سمندری پانی کو آکسیجن اور ہائیڈروجن میں تقسیم کر دیتی ہے (اسی وجہ سے بلبلے بنتے ہیں)۔“

اس کھوج کے بعد ہم یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ کیا مسقبل کی بیٹری کی صنعت کے لیے دھاتیں فراہم کرنے کی غرض سے آکسیجن کا یہ ذریعہ ختم ہو جائے گا۔۔ کیا بیٹریوں کی قیمت سمندری حیات کو چکانی پڑے گی؟

یہ خدشہ بلاجواز نہیں ہے۔۔ کیونکہ کئی کان کنی کی کمپنیاں سمندر کی تہہ سے دھاتوں کو نکالنے کا ارادہ رکھتی ہیں

یہی وجہ ہے کہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ سمندری حیات کے لئے آکسیجن پیدا کرنے کے اس عمل میں خلل پڑ سکتا ہے اور ایسی سمندری حیات کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے، جن کی بقا ان سے پیدا ہونے والی آکسیجن پر منحصر ہے۔

ان نتائج سے گہرے سمندر کی کان کنی کی صنعت کے لیے مضمرات ہو سکتے ہیں، جس کے کھلاڑیوں نے سمندر کی گہرائیوں کو تلاش کرنے اور پولی میٹالک نوڈولس جیسے معدنیات کو بازیافت کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس طرح کے معدنیات کو سبز توانائی کی منتقلی کے لیے اہم سمجھا جاتا ہے۔ ماحولیاتی کارکنوں اور بہت سے سائنس دانوں کا خیال ہے کہ گہرے سمندر میں کان کنی خطرناک ہے کیونکہ یہ غیر متوقع طریقوں سے ماحولیاتی نظام کو غیر مستحکم کر سکتی ہے اور موسمیاتی تبدیلی پر قابو پانے میں مدد کرنے کے لیے سمندر کی صلاحیت کو متاثر کر سکتی ہے۔

پروفیسر اینڈریو اور ان کے ساتھیوں نے ہوائی اور میکسیکو کے درمیان گہرے سمندر کے ایک بڑے علاقے میں تحقیق کی جو ان دھاتی ٹکڑوں سے ڈھکا ہوا ہے۔

دھات کے یہ ٹکڑے اس وقت تخلیق پاتے ہیں، جب سمندری پانی میں تحلیل شدہ دھاتیں کسی سیپ یا ملبے پر جمع ہو جاتی ہیں۔ یہ ایک ایسا عمل ہے جس میں لاکھوں سال لگتے ہیں۔

ان دھات کے ٹکڑوں میں لیتھیم، کوبالٹ اور تانبے جیسی دھاتیں شامل ہیں جو بیٹریاں بنانے کے کام آتی ہیں۔ اسی لیے بہت سی کان کنی کی کمپنیاں ایسی ٹیکنالوجی تیار کر رہی ہیں، جس کے استعمال سے ان دھاتوں کو سمندر کی تہہ سے نکالا جا سکے۔

پروفیسر اینڈریو کہتے ہیں ”ان دھاتوں سے بننے والی آکسیجن سمندری کے فرش پر موجود حیاتیات کو زندگی بخشتی ہیں۔“

نیچر جیو سائنس کے جریدے میں شائع ہونے والی یہ دریافت گہرے سمندر میں کان کنی کے مجوزہ منصوبوں کے خطرات کے بارے میں نئے خدشات سے آگاہ کر رہی ہے۔

سائنسدان یہ معلوم کرنے میں کامیاب رہے ہیں کہ دھات کے یہ ٹکڑے بالکل کسی بیٹری کی طرح کام کرتے ہوئے آکسیجن بناتے ہیں۔ پروفیسر اینڈریو کے مطابق ”دھات کے ٹکڑے بھی قدرتی بیٹری کے طور پر یہ کام کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ بالکل کسی ٹارچ کی بیٹری کی طرح ہے۔“

وہ کہتے ہیں، ”آپ ایک بیٹری ڈالتے ہیں تو ٹارچ روشن نہیں ہوتی۔ آپ دو ڈالتے ہیں اور آپ کو ٹارچ روشن کرنے کے لیے لائٹ جتنا وولٹیج مل جاتا ہے۔ اسی طرح سمندر کی تہہ میں بکھرے یہ دھات کے ٹکڑے بھی ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں ہوتے ہیں اور متعدد بیٹریوں کی طرح ایک ساتھ مل کر کام کر تی ہیں۔“

محققین نے اس تھیوری کو آزمانے کے لیے آلو کے سائز کے ان دھاتی ٹکڑوں جمع کیا اور لیبارٹری میں ان کا مطالعہ کیا۔ ان تجربات کے دوران سائنسدانوں نے ہر دھاتی گانٹھ کی سطح پر وولٹیج کی پیمائش کی، جس سے ان میں موجود برقی رو کی طاقت کا پتہ چلا۔ انہوں نے پایا کہ یہ لگ بھگ ایک ڈبل اے (AA) سائز کی بیٹری جتنا وولٹیج پیدا کرتی ہیں۔

سائنسدانوں کے مطابق دھات کے یہ ٹکڑے باآسانی اتنی برقی رو پیدا کرتے ہیں، جس سے سمندری پانی کے مالیکیولز کو تقسیم یا الیکٹرولائٹس کا عمل مکمل کیا جا سکے۔

محققین کا خیال ہے کہ ایسا عین ممکن ہے کہ اس طرز کا کوئی عمل چاند یا دوسرے سیاروں پر ہو رہا ہو، جس سے وہاں آکسیجن پیدا ہو رہی ہو اور وہاں کا ماحول جینے کے لائق ہو۔

سمندر کے جس حصے میں یہ دریافت ہوئی ہے، بدقسمتی سے وہاں پہلے ہی سمندر میں کان کنی کرنے والی متعدد کمپنیوں نے اپنی تلاش کا آغاز کر دیا ہے۔ یہ کمپنیاں ان دھاتوں کو نکال کر زمین تک لانے کے لیے ٹیکنالوجی تیار کر رہی ہیں۔

یو ایس نیشنل اوشیانوگرافک اینڈ ایٹموسفیرک ایڈمنسٹریشن نے خبردار کیا ہے کہ سمندری تہہ میں کان کنی وہاں موجود حیاتیات کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتی ہیں۔

چوالیس ممالک سے تعلق رکھنے والے آٹھ سو سے زائد سائنسدانوں نے سمندر میں کان کنی کی سرگرمیوں کو روکنے اور اس سے پیدا ہونے والے ماحولیاتی خطرات سے آگاہی پیدا کرنے کے لیے ایک پٹیشن پر دستخط کیے ہیں۔

آئے دن گہرے سمندر میں کوئی نئی دریافت ہوتی رہتی ہے۔ اکثر یہ تک کہا جاتا ہے کہ گہرے سمندر سے زیادہ تو ہم چاند کی سطح کے بارے میں جانتے ہیں۔

حالیہ دریافت سے پتہ چلتا ہے کہ دھات کے یہ ٹکڑے وہاں موجود زندگی کو سہارا دینے کے لیے آکسیجن فراہم کر رہے ہیں۔

یونیورسٹی آف ایڈنبرا کے میرین بائیولوجسٹ پروفیسر مرے رابرٹس ان سائنسدانوں میں سے ایک ہیں، جنہوں نے سمندری تہہ میں کان کنی کے خلاف پٹیشن پر دستخط کیے ہیں۔

ان کا کہنا ہے ”پہلے ہی کافی شواہد موجود ہیں کہ گہرے سمندر کے ان دھاتوں کی کان کنی سے وہ ماحولیاتی نظام تباہ ہو جائے گا، جسے ہم بمشکل سمجھتے ہیں۔“

مرے رابرٹس کے مطابق ”دھاتوں کی یہ فیلڈز ہمارے سیارے کے اتنے بڑے علاقوں پر پھیلی ہوئی ہیں اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ آکسیجن کی پیداوار کا ایک اہم ذریعہ ہو سکتے ہیں، گہرے سمندر میں کان کنی کی اجازت پاگل پن ہوگا۔“

پروفیسر اینڈریو کے خیال میں یہ تحقیق کوئی ایسی نہیں ہے، جو کان کنی کو ختم کر دے۔

وہ کہتے ہیں ”لیکن ہمیں مزید تحقیق کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم گہرے سمندروں میں ممکنہ حد تک ماحول دوست طریقے سے کان کنی چاہتے ہیں تو ہمیں اس تمام معلومات اور مستقبل میں حاصل ہونے والے ڈیٹا کی ضرورت پڑے گی۔“

انسان اور تقریباً تمام دیگر جانور سانس لینے کے لیے فضا یا پانی میں موجود آکسیجن پر انحصار کرتے ہیں—یعنی کہ خلیاتی سطح پر ضروری توانائی پیدا کرنے کے لیے جو بقاء کے لیے ضروری ہے۔ زیادہ تر سمندری جانور براہ راست سمندری پانی سے آکسیجن حاصل کرتے ہیں، جبکہ زمینی جانور زمین کی فضا سے ہوا لیتے ہیں، جو تقریباً 21 فیصد خالص آکسیجن پر مشتمل ہوتی ہے۔

آکسیجن ہمیشہ سے ہوا میں موجود نہیں رہی؛ دراصل، اس کی موجودگی زمین کی تاریخ میں نسبتاً حالیہ ترقی ہے۔ تقریباً 600 ملین سال قبل تک، ہماری فضا میں پانچ فیصد سے کم آکسیجن تھی، بلکہ یہ زیادہ تر نائٹروجن اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کے مرکب پر مشتمل تھی جو کہ زمین کی ابتدائی آتش فشانی سرگرمی کے دوران چار ارب سال قبل وجود میں آئی تھی۔

خوش قسمتی سے ہمارے لیے، ایسے جاندار ارتقاء پذیر ہوئے جو کاربن ڈائی آکسائیڈ اور شمسی شعاعوں کے ساتھ میٹابولک توانائی اور آکسیجن پیدا کر سکتے تھے—اس عمل کو ضیائی تالیف (فوٹوسنتھیسز) کہتے ہیں۔ ہم عام طور پر ضیائی تالیف کو زمینی پودوں کی زندگی کا عمل سمجھتے ہیں، مگر کائی اور کئی دیگر مائیکروسکوپک جاندار (جنہیں فائٹوپلانکٹن کہا جاتا ہے) زمینی پودوں کے ظاہر ہونے سے بہت پہلے ضیائی تالیف کا عمل استعمال کر رہے تھے۔ یہ جاندار جو کاربن ڈائی آکسائیڈ کو کم کرتے ہیں اور آکسیجن پیدا کرتے ہیں، عمومی طور پر بنیادی پیدا کنندگان کہلاتے ہیں، جو زیادہ پیچیدہ زندگی کے پھلنے پھولنے کے لیے ضروری ماحول پیدا کرنے میں ان کے کردار کی علامت ہے۔

جب سمندر کے بنیادی پیدا کنندگان نے تنوع حاصل کیا اور پھیل گئے، تو فضائی آکسیجن تقریباً آج کے سطح تک بڑھ گئی، جس نے آبی جانوروں اور پودوں کے زمین پر منتقلی کے لیے ماحول کو تیار کیا۔ موسمی فائٹوپلانکٹن کی بڑھوتری آج بھی زمین پر ضیائی تالیف اور subsequent فضائی آکسیجن پیداوار کا نصف سے زائد حصہ ہیں۔ یقین کرنا مشکل ہے، مگر ہم جو سانس لیتے ہیں اس کے لیے ہمیں زیادہ تر سمندری جانوروں کی حیاتیاتی پیداوار کا شکریہ ادا کرنا چاہیے جو عام آنکھ سے نظر نہیں آتے۔

سمندر میں آکسیجن کی پیداوار کا بنیادی ذریعہ فوٹوسنتھیسز ہی ہے۔ سمندری فوٹوپلانکٹن، جو چھوٹے چھوٹے جاندار ہیں، سورج کی روشنی کو استعمال کرتے ہوئے کاربن ڈائی آکسائیڈ اور پانی کو آکسیجن اور گلوکوز میں تبدیل کرتے ہیں۔ یہ عمل سمندر میں آکسیجن کی زیادہ مقدار کا سبب بنتا ہے۔

تاہم، اب حالیہ تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ سمندر کی تہہ میں موجود دھاتیں بھی آکسیجن کی پیداوار میں کردار ادا کر سکتی ہیں۔ ایک نظریہ کے مطابق، سمندر کی تہہ میں موجود کچھ معدنیات کی کیمیائی تبدیلیاں آکسیجن پیدا کر سکتی ہیں۔ اس عمل کو "واٹر-راک انٹریکشن” کہا جاتا ہے، جہاں پانی اور معدنیات کے درمیان کیمیائی ردعمل کے نتیجے میں آکسیجن کی پیداوار ہو سکتی ہے۔ یہ نظریہ اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ سمندر کی گہرائیوں میں آکسیجن کیسے پیدا ہو سکتی ہے جہاں سورج کی روشنی نہیں پہنچتی۔

یہ نئی تحقیق اس بات کو مزید واضح کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے کہ سمندر میں آکسیجن کے مختلف ذرائع کیسے کام کرتے ہیں اور یہ تبدیلیاں سمندری زندگی پر کیسے اثر انداز ہوتی ہیں۔

نوٹ: اس فیچر کی تیاری میں مختلف سائنسی مضامین اور رپورٹس سے مدد لی گئی ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close