سانپ اپنی منفرد شکل اور حرکت کے باعث ہمیشہ سے انسانی تجسس کا مرکز رہے ہیں۔ زمین پر رینگتے یہ بے ٹانگ جاندار بظاہر کسی معجزے کا نمونہ لگتے ہیں، لیکن ان کی یہ موجودہ شکل لاکھوں سالوں کے ارتقائی عمل کا نتیجہ ہے۔ کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ یہ بے ٹانگ سانپ ماضی میں ٹانگوں والے جاندار تھے؟ یہ حیرت انگیز کہانی نہ صرف ارتقاء کے پیچیدہ رازوں کو بے نقاب کرتی ہے بلکہ قدرت کے حیرت انگیز تخلیقی عمل کو بھی ظاہر کرتی ہے، جس نے ماحول کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کے لیے ان جانداروں کی شکل و صورت اور عادات کو تبدیل کر دیا۔ اس آرٹیکل میں ہم سانپوں کی اس ارتقائی موافقت کی حیران کن داستان کا جائزہ لیں گے، جو ماضی کی ٹانگوں والے چھپکلی نما مخلوق سے شروع ہو کر آج کے بے ٹانگ سانپوں تک پہنچی۔
سانپ حیوانی دنیا کی کچھ انتہائی دلچسپ مخلوقات میں شمار ہوتے ہیں، جو اپنی منفرد صلاحیت کے ذریعے زمین پر حیرت انگیز تیزی اور پھرتی سے رینگنے کے لیے مشہور ہیں۔ تاہم، کم ہی لوگ یہ جانتے ہیں کہ ان بے ٹانگوں والے رینگنے والے جانداروں کے آباؤ اجداد کے پاس کبھی ٹانگیں ہوا کرتی تھیں۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ لاکھوں سالوں کے دوران، سانپ ٹانگوں والے چھپکلی نما جانداروں سے ارتقاء پذیر ہو کر ان رینگنے والے سانپوں میں تبدیل ہو گئے، جنہیں ہم آج جانتے ہیں۔ یہ حیرت انگیز تبدیلی ماحولیاتی دباؤ اور جینیاتی تبدیلیوں کا نتیجہ ہے جنہوں نے ان کے ارتقاء کو شکل دی۔ قدیم فوسلز کی دریافتوں سے لے کر جینیاتی مطالعات تک، سائنس دانوں نے یہ معلوم کرنے کے لیے حیرت انگیز سراغ حاصل کیے ہیں کہ سانپوں نے اپنی ٹانگیں کیسے کھو دیں، جو قدرت کی ان نمایاں مخلوقات کی گہرائیوں میں چھپی تاریخ کی ایک جھلک پیش کرتے ہیں۔
سانپوں کا ٹانگوں والی چھپکلیوں سے ان بے ٹانگوں جانداروں میں تبدیل ہونا ارتقائی موافقت کی ایک حیرت انگیز مثال ہے۔ ان کے آباؤ اجداد کے پاس شروع میں مکمل طور پر نشوونما یافتہ ٹانگیں تھیں، لیکن وقت کے ساتھ، مٹی میں سرنگیں بنانے، تیرنے اور گھنے نباتاتی علاقوں میں راستہ بنانے کے لیے موافقت اختیار کرتے ہوئے انہوں نے آہستہ آہستہ اپنی ٹانگیں کھو دیں۔ فوسلز کی دریافتیں، جیسے ٹیٹراپوڈوفِس ایمپلیکٹس اور ناجاش ریونیگرینا، کے ساتھ جینیاتی مطالعات نے یہ جاننے میں قیمتی بصیرت فراہم کی ہے کہ سانپ موجودہ دور کے ان رینگتے ہوئے جانداروں میں کیسے ڈھل گئے۔
واضح رہے کہ ارتقائی موافقت (Evolutionary Adaptation) جانداروں میں وہ حیاتیاتی عمل ہے، جس کے ذریعے ان میں اپنے ماحول کے مطابق تبدیلیاں ہوتی ہیں تاکہ ان کی بقا اور افزائش نسل کے امکانات بڑھ سکیں۔ یہ عمل لاکھوں سالوں میں ارتقائی دباؤ، جیسے ماحولیاتی تبدیلیوں یا قدرتی انتخاب، کے نتیجے میں ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر، صحرائی جانوروں میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت یا سرد علاقوں کے جانوروں میں موٹی کھال کا ہونا ارتقائی موافقت کی مثالیں ہیں۔ یہ عمل جانداروں کی بقا اور ان کے جینیاتی ورثے کو اگلی نسلوں تک منتقل کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
سانپوں کا ٹانگوں والے آباؤ اجداد سے بے ٹانگ رینگنے والے جانداروں میں ارتقاء
ماہرین کے مطابق سانپ قدیم چھپکلیوں سے ارتقاء پذیر ہوئے، اور ان کا ارتقائی سفر ان کے نئے ماحول کے مطابق ڈھلنے کی ضرورت سے گہرا تعلق رکھتا ہے۔ یہ مانا جاتا ہے کہ سانپ چار مکمل طور پر فعال ٹانگوں والے چھپکلی نما آباؤ اجداد سے وجود میں آئے۔ سانپوں کے ارتقاء کے ابتدائی مراحل مخصوص رہائش گاہوں میں زندہ رہنے کی ضرورت کے تحت آگے بڑھے، جیسے کہ زمین کے نیچے سرنگوں میں رہنا، پانی میں تیرنا، یا گھنے پودوں کے بیچ حرکت کرنا۔
جب ان ابتدائی رینگنے والے جانداروں نے نئی طرزِ زندگی اختیار کی، تو ان کی ٹانگوں کی ضرورت کم ہونے لگی۔ ان جگہوں پر جہاں نقل و حرکت تنگ جگہوں سے محدود ہو جاتی تھی، جیسے سرنگیں یا گھنی جھاڑیاں، ٹانگیں اتنی کارآمد نہیں رہیں۔ اس کے برعکس، ایک بے ٹانگ جسم زیادہ لچک اور تنگ راستوں یا گھنے پودوں میں آسانی سے حرکت کرنے کی صلاحیت فراہم کرتا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ، یہ خاصیت زیادہ فائدہ مند بن گئی، اور ان رینگنے والے جانداروں کی ٹانگیں سکڑنے لگیں اور بالآخر مکمل طور پر ختم ہو گئیں۔
سانپوں کے بے ٹانگ جسم کی ارتقائی موافقت نے انہیں اپنے ماحول میں زیادہ مؤثر طریقے سے حرکت کرنے کے قابل بنایا۔ ان کے لمبے اور لچکدار جسم نے انہیں رینگنے، بل کھانے اور تنگ جگہوں سے گزرنے میں آسانی فراہم کی تاکہ وہ خوراک یا پناہ تلاش کر سکیں۔ اس کے نتیجے میں، لاکھوں سالوں میں، ان کی ٹانگیں غیر ضروری ہو گئیں، اور ان کے جسم جدید سانپوں کی ہموار، چمکدار، اور بے ٹانگ شکل میں تبدیل ہو گئے۔
ٹانگوں والے سانپوں کے فوسل شواہد
فوسل ریکارڈ یہ واضح ثبوت فراہم کرتا ہے کہ سانپ کیسے ٹانگوں والے آباؤ اجداد سے ارتقاء پذیر ہوئے۔
سانپوں کے ارتقائی سفر کو سمجھنے میں مدد دینے والی ایک اہم دریافت 2015 میں جنوبی امریکہ میں ہونے والی ٹیٹراپوڈوفِس ایمپلیکٹس نامی چار ٹانگوں والے سانپ کے فوسل کی تھی۔ یہ فوسل تقریباً 12 کروڑ سال پرانا ہے اور اس نے ظاہر کیا کہ ٹیٹراپوڈوفِس کے پاس مکمل طور پر نشوونما یافتہ اگلی اور پچھلی ٹانگیں تھیں۔ یہ ٹانگیں چھوٹی مگر مکمل طور پر فعال تھیں، اور موجودہ دور کی چھپکلیوں کی ٹانگوں سے مشابہت رکھتی تھیں۔ اس دریافت نے تصدیق کی کہ سانپ اپنے ابتدائی ارتقائی مراحل میں بے ٹانگ جاندار نہیں تھے بلکہ ایک وقت میں مکمل طور پر ٹانگوں والے رینگنے والے جاندار تھے۔
ٹیٹراپوڈوفِس میں ٹانگوں کی موجودگی اس بات کا عندیہ دیتی ہے کہ سانپ ہمیشہ زمین پر رینگ کر نہیں چلتے تھے، بلکہ ممکن ہے کہ وہ حرکت کے لیے اپنی ٹانگوں کا استعمال کرتے ہوں، بالکل موجودہ چھپکلیوں یا دیگر رینگنے والے جانداروں کی طرح۔ جب ان ابتدائی سانپوں کے ارد گرد کا ماحول تبدیل ہوا اور انہوں نے نئے ماحولیاتی حالات، جیسے زمین کے نیچے سرنگیں/ بل بنانے یا پانی میں رہنے کے لیے موافقت اختیار کی، تو ان کی ٹانگوں کی ضرورت کم ہونے لگی۔ وقت گزرنے کے ساتھ، یہ ٹانگیں کمزور ہو کر سکڑنے لگیں اور بالآخر باقیات کی صورت میں رہ گئیں، جو ان کے مکمل سائز والی ٹانگوں کی غیر فعال نشانی ہیں۔
ایک اور اہم فوسل دریافت ناجاش ریونیگرینا تھی، جو ارجنٹینا کے علاقے پیٹاگونیا میں ملی۔ یہ سانپ 9 کروڑ سال پہلے کا ہے اور اس کے پاس مکمل طور پر نشوونما یافتہ پچھلی ٹانگیں تھیں۔ یہ دریافت اس بات کا اہم ثبوت فراہم کرتی ہے کہ سانپوں نے اپنی ٹانگیں بتدریج کھو دیں، اور کچھ اقسام میں یہ ٹانگیں دوسرے جانداروں کے مقابلے میں زیادہ عرصے تک موجود رہیں۔
وقت کے ساتھ سانپوں میں ٹانگوں کے ختم ہونے کے پیچھے جینیاتی عمل
جہاں فوسلز ہمیں قدیم سانپوں کا جسمانی ریکارڈ فراہم کرتے ہیں، وہیں جینیاتی تحقیق نے یہ سمجھنے میں اہم بصیرت دی ہے کہ سانپوں نے اپنی ٹانگیں کیسے کھو دیں۔
لاکھوں سالوں کے دوران، سانپوں میں ان جینز کی سرگرمی کم ہوتی گئی جو ٹانگوں کی نشوونما کے ذمہ دار تھیں۔ جدید سانپوں کے جینیاتی مواد کا مطالعہ کرتے ہوئے، سائنس دانوں نے ایسے مخصوص جینز کی نشاندہی کی ہے جو ان کے آباؤ اجداد میں ٹانگوں کی تشکیل کے لیے فعال تھے لیکن وقت کے ساتھ غیر فعال ہو گئے۔
2016 میں، لارنس برکلے نیشنل لیبارٹری کے محققین نے ایک اہم دریافت کی۔ انہوں نے تجربہ گاہ میں سانپوں کے جینز میں رد و بدل کر کے دوسرے جانوروں میں ٹانگوں کی تشکیل کو ممکن بنایا۔
اس تحقیق میں سانپوں کے ٹانگوں سے متعلق جینز کو چوہوں کے جنین میں داخل کیا گیا، جس کے نتیجے میں غیر معمولی ٹانگوں کی نشوونما ہوئی۔ یہ تجربہ ظاہر کرتا ہے کہ سانپوں میں کبھی ٹانگوں کی جینیاتی معلومات موجود تھیں، جو وقت کے ساتھ غیر فعال ہو گئیں کیونکہ ارتقائی دباؤ نے بے ٹانگ ہونے کو زیادہ فائدہ مند بنایا۔
جینیاتی مطالعات سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ سانپوں میں ٹانگوں کے ختم ہونے کا عمل ممکنہ طور پر مختلف جینیاتی تبدیلیوں کی ایک سیریز کا نتیجہ تھا، جس نے آہستہ آہستہ ان کی ساخت کو تبدیل کیا۔
وقت کے ساتھ، ان جینیاتی تبدیلیوں نے ٹانگوں کی ضرورت کو ختم کر دیا کیونکہ سانپ اپنے ماحول کے مطابق زیادہ موافق ہو گئے۔ قدرتی انتخاب نے ان تبدیلیوں کو مزید مضبوط کیا، کیونکہ بے ٹانگ سانپ زیر زمین سرنگیں بنانے اور تیرنے جیسے ماحولیاتی حالات کے لیے زیادہ موزوں تھے۔
کیا آج کے دور میں ٹانگوں والے سانپ موجود ہیں؟
اگرچہ آج کے دور میں کوئی سانپ مکمل طور پر فعال، چار ٹانگوں والے جسم کے ساتھ موجود نہیں ہیں، لیکن کچھ اقسام میں اپنے ٹانگوں والے آباؤ اجداد کی باقیات کے طور پر کچھ نشانات پائے جاتے ہیں۔ ان میں سب سے نمایاں مثال ریٹیکیولیٹڈ پائتھن اور بوا جیسے سانپوں میں پائی جانے والی کانٹے نما ساختیں (spurs) ہیں۔
یہ کانٹے چھوٹے پنجے نما اعضا ہیں جو سانپ کی دُم کے قریب واقع ہوتے ہیں۔ انہیں بے کار اعضاء (vestigial limbs) سمجھا جاتا ہے، یعنی یہ ارتقائی دور کی یادگار ہیں جب سانپوں کے پاس مکمل طور پر فعال ٹانگیں ہوا کرتی تھیں۔
جدید سانپوں میں یہ کانٹے عملی طور پر کسی کام کے نہیں اور نہ ہی حرکت یا خوراک حاصل کرنے میں استعمال ہوتے ہیں۔ تاہم، ماہرین کے مطابق یہ سانپوں کے ٹانگوں والے آباؤ اجداد کی یادگار کے طور پر موجود ہیں۔ مثال کے طور پر، نر پائتھنز ان کانٹوں کا استعمال تولیدی عمل میں مادہ کو پکڑنے اور تھامنے کے لیے کرتے ہیں، لیکن یہ حرکت کے لیے استعمال نہیں ہوتے۔
اگرچہ یہ چھوٹے کانٹے چھوٹی ٹانگوں کی طرح دکھائی دیتے ہیں، لیکن یہ حقیقی ٹانگیں نہیں ہیں اور نہ ہی ماضی میں ٹانگوں جیسا کوئی کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ محض ارتقائی عمل کی نشانی ہیں جو سانپوں کی جدید بے ٹانگ شکل تک پہنچنے کا سبب بنا۔
ذکر ایک اور تحقیق کا۔۔
’پروسیڈنگز آف دی رائل سوسائٹی بی‘ میں شائع ایک تحقیق میں اسکِنکس (Skinks) کے بارے میں بتایا گیا ہے، جو چھپکلیوں کی ایک قسم ہیں۔ تحقیق کے مطابق ان کی کچھ اقسام نے لاکھوں سال کے ارتقاء کے دوران اپنی ٹانگیں کھو دیں، جس سے ان کی شکل سانپ جیسی ہو گئی۔ حیرت انگیز طور پر، بعض اسکِنکس، جن کے آباؤ اجداد نے ٹانگیں کھو دی تھیں، کسی نامعلوم وجہ سے دوبارہ ٹانگیں پیدا کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ یہ ارتقائی حیاتیات کے ایک پرانے اصول کو توڑتے ہیں، جس کے مطابق اگر کوئی پیچیدہ ساخت ختم ہو جائے تو اس کا دوبارہ ارتقاء ہونا بہت مشکل ہے۔
تحقیق یہ ظاہر کرتی ہے کہ ٹانگوں والے اسکِنکس بغیر ٹانگوں والے ساتھیوں کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے حرکت کرتے اور بہتر سرنگ کھودتے ہیں۔ فلپائن کے اسکِنکس کے خاندانی شجرے پر ٹانگوں کے ختم ہونے اور دوبارہ پیدا ہونے کے وقت کا تجزیہ مقامی آب و ہوا میں تبدیلیوں کے ساتھ ہم آہنگ پایا گیا۔ تحقیق سے معلوم ہوا کہ جب ماحول خشک تھا، تو ٹانگیں ختم ہو گئیں، اور جب نم ماحول واپس آیا تو کچھ اقسام نے دوبارہ ٹانگیں پیدا کر لیں۔ یہ ایک نادر مثال ہے کہ کس طرح ارتقائی دباؤ جانداروں کو ایک بار کھوئی ہوئی ساخت دوبارہ حاصل کرنے پر مجبور کر سکتا ہے۔
کلارک یونیورسٹی کے حیاتیات کے پروفیسر ڈاکٹر فلپ برگمین، جو اس تحقیق کے شریک مصنف ہیں، کے مطابق زمین پر زیادہ تر بے ٹانگ جاندار خشک، ریتیلے علاقوں میں رہتے ہیں۔ انہوں نے کہا، ”دہائیوں بلکہ شاید ایک صدی سے، یہ خیال پیش کیا جا رہا ہے کہ سانپ جیسی شکل سرنگوں میں رہنے والے طرزِ زندگی کے لیے ایک ارتقائی موافقت ہے۔“
لیکن ایشیائی جنگلات میں، ٹانگوں والے اور بے ٹانگ اسکِنکس ایک ہی مرطوب، گرم ماحول میں ایک ساتھ پائے جاتے ہیں۔ ان مختلف اقسام کی حرکت کا مشاہدہ کرنے کے لیے، ٹیم نے 13 اقسام کے 147 اسکِنکس کو پکڑا، جن میں کچھ کی ٹانگیں نہیں تھیں، کچھ کی چھوٹی ٹانگیں تھیں، اور کچھ کی مکمل طور پر بنی ہوئی ٹانگیں اور پنجے تھے۔
ٹیم نے انہیں ریس ٹریک پر دوڑنے اور ایک مٹی سے بھرے ٹیوب میں سرنگ کھودنے کی ترغیب دی اور ان کی حرکات کو ریکارڈ کیا تاکہ بعد میں لیب میں تجزیہ کیا جا سکے۔ نتائج سے ظاہر ہوا کہ ٹانگوں والے اسکِنکس زیادہ تیز حرکت کرتے اور سرنگ کھودنے میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں، جب کہ بے ٹانگ اسکِنکس آہستہ چلنے اور چھپنے پر انحصار کرتے ہیں۔
ماحولیاتی تبدیلیوں کے شواہد کو اسکِنکس کی اقسام کے ارتقائی درخت پر رکھنے سے دلچسپ نتائج سامنے آئے۔ ساٹھ ملین سال پہلے، جب اسکِنکس نے اپنی ٹانگیں کھو دیں، تو ماحول خشک تھا۔ لیکن بیس ملین سال پہلے، جب کچھ اقسام نے اپنی ٹانگیں واپس حاصل کیں، تو آب و ہوا مرطوب اور مانسون جیسی ہو چکی تھی۔ ڈاکٹر برگمین کے مطابق، ”ماضی کی آب و ہوا ہمارے مفروضے کے ساتھ کافی حد تک مطابقت رکھتی ہے۔“ شاید مرطوب ماحول میں ٹانگوں کے فوائد سامنے آئے، جو پہلے موجود نہیں تھے۔
یہ خیال کہ پیچیدہ ساختیں ایک بار ختم ہو جائیں تو دوبارہ پیدا نہیں ہوتیں، بظاہر منطقی لگتا ہے۔ لیکن تحقیق سے معلوم ہوا کہ بہت سے جین، جو جسم کے مختلف حصوں کی نشوونما میں شامل ہوتے ہیں، فعال کرنے پر دوبارہ استعمال ہو سکتے ہیں۔ ڈاکٹر برگمین کے مطابق، ”یہ جینز برقرار رکھنے کے لیے ایک مضبوط انتخاب موجود ہوتا ہے، لہذا انہیں صحیح وقت اور جگہ پر دوبارہ فعال کیا جا سکتا ہے۔“
تو کیا سانپ بھی دوبارہ اپنی ٹانگیں حاصل کر لیں گے؟
اسکنکس کے دوبارہ ٹانگیں پیدا کرنے کے ارتقائی عمل سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا سانپ بھی اپنی کھوئی ہوئی ٹانگیں دوبارہ حاصل کر سکتے ہیں یا نہیں؟ اسکنکس کی تحقیق سے یہ واضح ہوا کہ جب مخصوص جینیاتی عناصر برقرار رہیں اور ماحولیاتی دباؤ ان کے دوبارہ فعال ہونے کو ممکن بنائے، تو یہ ارتقائی تبدیلی ممکن ہو سکتی ہے۔ اسکنکس میں جینز کی وہ ترتیب جو ٹانگوں کی افزائش میں شامل ہے، مکمل طور پر ختم نہیں ہوئی تھی، بلکہ مخصوص حالات میں دوبارہ فعال ہو گئی۔
سانپوں کے معاملے میں، ان کی جسمانی ساخت اور ارتقائی راستے نے انہیں ٹانگوں سے مکمل طور پر محروم کر دیا ہے، اور ان کے جسم میں یہ جینیاتی امکانات شاید ختم ہو چکے ہیں۔ زیادہ تر ماہرین کا ماننا ہے کہ سانپوں کے لیے دوبارہ ٹانگیں حاصل کرنا ممکن نہیں ہے، کیونکہ ان کی جینیاتی ترتیب اس طرح کی تبدیلی کے لیے موزوں نہیں رہی۔ تاہم، قدرت میں غیر متوقع ارتقائی تبدیلیاں ممکن ہیں، خاص طور پر اگر جینیاتی مواد باقی ہو اور ماحولیاتی دباؤ اس کے مطابق سازگار ہو۔
یہ تحقیق نہ صرف حیاتیاتی ارتقا کو بہتر سمجھنے میں مدد دیتی ہے بلکہ یہ بھی ظاہر کرتی ہے کہ موسمیاتی تبدیلیاں کس طرح جانداروں کی جسمانی ساخت پر گہرا اثر ڈال سکتی ہیں۔
نوٹ: اس فیچر کی تیاری میں مختلف سائنسی اور تحقیقی مضامین سے مدد لی گئی ہے۔ امر گل